اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایوان بالا میں اپنا جذباتی الوداعی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ بالاتر ہے لیکن پارلیمان نے خود اپنی جگہ دی ہے، جب آپ اپنی جگہ دیں گے تو کوئی اور آپ کی جگہ پر آجائے گا،آج جس مقام پر ہوں، دو خواتین کی بدولت ایک والدہ اور دوسری سیاسی ماں بینظیر بھٹو ہیں، جب پارلیمان کو برخاست، معطل کیا گیا پھر جب پارلیمان کو دوبارہ چلایا گیا تو ہم نے سب کچھ قبول کیا، سب قوانین آپ نے منظور کئے اور ایک اچھے بچے کی طرح ہر چیز مانتے چلے گئے، اٹھارویں ترمیم کے اندر 277/AAکے تحت مشرف دور کا کوئی قانون پارلیمان نے منظور نہیں کیا،میں اس پارلیمان کو سلام پیش کرتا ہوں، ہم نے قانونی سقم بھی رکھے، روزانہ کی بنیاد پر کام بھی کئے تا کہ کنفیوژن پیدا نہ ہوں،ایگزیکٹو کو آرڈیننس کے ذریعے چلایا گیا،اعلیٰ عدلیہ کی ہدایات آئیں لیکن پارلیمان خاموش رہا، آرڈیننس آتا تھا ہم بل کے ذریعے پاس کرتے رہے ہیں،آج پارلیمان کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو یہ لازم ہے آرٹیکل 89کو ختم کیا جائے، آرڈیننس جاری کیا جائے کہ اب تمام قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگی،انہوں نے کہا منصب آنے جانے ہوتے ہیں، آخر میں آدمی کا کردار اور اس کے اصول رہ جاتے ہیں، آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا،پارلیمان کی بالادستی ہونی چاہیے اور ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیےاور اس سلسلے میں میں نے اپنی رولنگ محفوظ کر لی تھی جو پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کی درست آئینی سمت سے متعلق ہے، اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے، بات چیت کا راستہ ہونا چاہیے،فوج ایک ادارہ ہے جو ایگزیکٹو کے ماتحت کام کرتا ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ سٹیک ہولڈرز ہیں،جب آپ سیاست کی بات کرتے ہیں تو تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر ہونا چاہیے، ہمیں دیکھنا چاہیےکہ ہم کوئی کوتاہی یا غلطی تو نہیں کر رہے،انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو پارلیمانی احتساب کے لیے تیار نہیں جو کہ بدقسمتی ہے، دفاع اور معیشت سے متعلق بیرونی معاہدوں کو پارلیمنٹ میں لایا جانا چاہیے، پارلیمنٹ کو از خود قانون منظور کرنا چاہیے جس میں بیرونی معاہدے سے قبل پارلیمنٹ سے منظور ی لی جائے، رضا ربانی نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ میرے بعد آنیوالے چیئرمین سینیٹ میری تین بنیادی رولنگ پر ضرور عملدرآمد کر ائیں گے، آرٹیکل 172کے مطابق معدنیات، گیس کا وفاق او ر صوبوں کو مساوی حصہ ہو، مشترکہ مفادات کونسل کا سیکریٹریٹ قائم کیا جائے،کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے سینیٹ کو نگران بنایا جائے، حکومت عالمی ڈونر اداروں اور تنظیموں کے بارے میں پالیسی مرتب کرے جس کے تحت ان اداروں کو ملکی قانون سازی اور پالیسی سازی میں مداخلت سے باز رکھا جائے،چیئرمین سینیٹ نے سنیٹر الیاس بلور اور سنیٹر ایم حمزہ کی خدمات، راجہ ظفرالحق، اعتزاز احسن سمیت تمام سینیٹرز،سینیٹ سیکرٹری سمیت افسران، تمام شعبوں کے افسران و عملے، میڈیا،سی ڈی اے، این سی اےلوک ورثہ، نسٹ یونیورسٹی، قومی اسمبلی کے اسپیکر، وزیراعظم،وفاقی کابینہ کا تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا میں ایک درویش آدمی ہوں، اپنی خودی کو مارنے کی کوشش کی ہے، ہائوس احسن طریقے سے چلانے کیلئے کچھ تلخ باتیں بھی ہوئی ہوں گی جس پر معذرت خواہ ہوں، اس موقع پر انہوں نے اپنے اثاثوں کی فہرست سیکرٹری سینیٹ کو دی جس پر ہال میں خوب تالیاں بجائیں گئیں۔ رضاربانی نے الوداعی خطاب کا اختتام ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا کا حوالے دیتے ہو ئے کیا اور کہا کہ مورخ کے قلم سے مرنے کے بجائے میں بندوق کی گولی سے مرنے کو ترجیح دوں گا۔قبل ازیں ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے تعاون کرنے پر تمام ارکان کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ امید ہے کہ چیئرمین صاحب کے چھوڑے ہوئے اور ادھورے معاملات آگے چلائیں گے۔ سینیٹر رحمان ملک نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سینیٹ کے ملازمین نے مجھے درخواست کی ہے کہ سی ڈی اے کے جو ملازمین یہاں کام کر رہے ہیں ان کو بھی ایک ماہ کا اعزازیہ دیا جائے، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ پی ٹی وی اور سی ڈی اے کے ملازمین کے لئے اعزازیہ کیلئے ان کے محکموں کو خط لکھوا دیں گے جس پر تالیاں بجائی گئیں۔ سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مضبوط ہونا ہو گا اس سے پارلیمنٹ مضبوط ہو گی اگر ایسا نہ ہوا تو پارلیمنٹ کو خطرات رہیں گے،سینیٹر دائود خان اچکزئی نے کہاکہ جو کام ہمارے بس میں تھے وہ ہم نے پورے کئے، نیب کا قانون سب کے لئے ایک ہونا چاہیے، بعدازاں سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی کر دیا گیا ۔