پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کے سربراہ کی حیثیت سے میاں رضا ربانی نے اپنے منصب کی پوری میعاد میں جس فرض شناسی ، اصول پسندی اور غیرجانبداری کیساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دیں، اس کا اعتراف آج جماعتی وابستگیوں اور نظریاتی اختلافات سے قطع نظر پوری قوم کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ سبکدوشی سے قبل چیئرمین سینیٹ نے ایوان میںالوداعی خطاب کے موقع پر اپنے موجودہ اثاثوں کی فہرست سینیٹ کے سیکریٹری کے حوالے کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جب انہوں نے یہ منصب سنبھالا تو ایوان میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات پیش کی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ منصب چھوڑتے وقت بھی اپنے اثاثوں کی تفصیل قوم کے سامنے لائیں گے اور آج وہ یہ وعدہ پورا کررہے ہیں۔ قوم کے اجتماعی امور کے تمام ذمہ دار اس مثال کی پیروی کریں تو ملک سے یقیناً بہت جلدکرپشن کی بیخ کنی ہوسکتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے اپنے خطاب میں اداروں کے درمیان تناؤ کی موجودہ فضا کے خاتمے کیلئے بڑی اہم تجاویز پیش کی ہیں جن پر عمل کرکے نہایت مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ غیرجمہوری ادوار میں نافذ کئے گئے قوانین اور صدارتی حکم ناموں کی پارلیمنٹ سے منظوری کی روایت کو انہوں نے بجاطور پر پارلیمان کی بالا دستی کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پارلیمان کی حقیقی بالادستی کیلئے آئین کی دفعہ89 کا خاتمہ لازمی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قانوناً لازم کیا جانا چاہیے کہ اب تمام قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگی۔ دفاع اور معیشت سے متعلق بیرونی معاہدوں کو پارلیمنٹ میں لایا جانا چاہیے، پارلیمنٹ کو از خود قانون منظور کرکے بیرونی معاہدے سے قبل پارلیمنٹ سے منظور ی کو لازمی قرار دینا چاہیے۔ہر ادارے کیلئے اپنے آئینی حدود میں رہنے پر زور دیتے ہوئے چیئرمین سیینٹ نے کہا کہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے۔ رضا ربانی نے بتایا کہ انہوں نے پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کی درست سمت سے متعلق ایک مفصل رولنگ تیار کی تھی جو محفوظ ہے اور اگر سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے حلف اٹھایا تواس دستاویز کو ایوان کے سامنے پیش کردینگے۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ یہ اہم رولنگ پارلیمان میں جلد از جلد لائی جائے اور اس پر غور و خوض کرکے اداروں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور اشتراک و تعاون کے فروغ کا مستقل نظام وضع کیا جائے۔انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ان کے بعد آنیوالے چیئرمین سینیٹ ان کی تین بنیادی رولنگ پر ضرور عملدرآمد کر ائیں گے۔انکی تفصیل یہ ہے: آرٹیکل 172کے مطابق معدنیات اور گیس کا وفاق او ر صوبوں کو مساوی حصہ دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کا سیکریٹریٹ قائم کیا جائے،کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے سینیٹ کو نگراں بنایا جائے اور حکومت عالمی ڈونر اداروں اور تنظیموں کے بارے میں پالیسی مرتب کرے جسکے تحت ان اداروں کو ملکی قانون سازی اور پالیسی سازی میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔یہ معاملات یقینا نہایت اہم ہیں اور توقع ہے کہ ایوان بالا ان رولنگس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔ تمام ریاستی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی حدود میں رہنے اور دوسرے اداروں کے حدود میں مداخلت نہ کیے جانے کی جس ضرورت کا اظہار رضا ربانی مسلسل کرتے رہے ہیں ، عدالت عظمیٰ کی موجودہ فعالیت پر بھی اس حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔عوا می مسائل کے حل کیلئے عدلیہ کی کوششیں اگرچہ نہایت قابل قدر ہیں اور فوری طور پر اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں لیکن یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ مسائل کے مستقل حل کیلئے پورے نظام کا درست ہونا اور مقننہ، عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج سمیت ہر ادارے کا اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا ضروری ہے لہٰذا تمام اداروں کو اس ہدف کے جلد از جلد حصول کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے میاں رضا ربانی کی تجویز کے مطابق اس مقصد کیلئے ڈائیلاگ کا اہتمام ہونا چاہئے۔