اچھی کتاب پڑھنے والوں اور اچھی فلم دیکھنے والوں کو شیکسپیئر کا لازوال ڈرامہ ’’ہیملٹ‘‘ خوب یاد ہوگا۔ اس کے آغاز میں ہی دو پہرے دار جو پہرے پر کھڑے ہیں، انہیں دور سے آنے والا آواز دے کر پوچھتا ہے کہ ’’وہاں کون ہے؟‘‘ اس پوچھنے پر ہی نقادوں نے کئی کتابیں لکھ چھوڑی ہیں۔ مختصراً یہ کہ اصل میں یہ کام پہرہ داروں کا ہے کہ وہ دورسے آنے والے کو آواز دے کر پوچھیں کہ کون ہے؟ آنے والے کا یہ آواز دینا نقادوں کے بقول سب کو بتا دیتا ہے کہ ڈنمارک کی اسٹیٹ میں جس کا شہزادہ ہیملٹ ہے، کچھ گڑبڑ ہے۔
اچھے ڈائیلاگ کی یہی خوبی ہے کہ وہ کئی لیول پر کام کرے۔ وہ بولنے والے کے بارے میں آگاہی دے۔ جس کے بارے میں بولا جارہا ہے اس کے بارے میں بتائے۔ ماضی میں جوکچھ گزر چکا ہے اس بارے میں بتائے اور پھر مستقبل کے بارے میں روشنی ڈالے۔ اس حوالے سے بہترین مثال ’’دی مرچنٹ آف وینس‘‘ کی ہے جس میں جب انٹونیو اپنے دوست کی گارنٹی دینے کے لئے شائی لاک کے پاس آتا ہے تو پہلے تو گارنٹی کے طور پر اپنے دوست کوکہتا ہے کہ میرا پرس اور جسم دونوں تمہارے لئے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو دوست نے صرف پرس کی بات کی ہے۔ پرسن کا کہا جانا ہمیں ایک تو یہ بتاتا ہے کہ ان کی دوستی کتنی گہری ہے پھریہ کہ مستقبل میں پرسن کی بھی ضرورت پڑ جائے گی اور اسی لئے انٹونیو گارنٹی کے طور پر ایک پائونڈ اپنے گوشت کی بات کرتا ہے۔ آگے کاڈرامہ اس چیزپر بیس کرکے لکھا گیا ہے۔
گفتگو کے دوران جب شائی لاک انٹونیو سے اس کی دولت کے بارے میں بات کرتا ہے تو وہ اپنے جہازوں کے بارے میں بتاتا ہے جو کارگو لےکر آ رہے ہیں اور شائی لاک کہتا ہے کہ جہازتو تختوں کی طرح ہوتے ہیں اور اس میں سوار انسان چوہوں کی طرح۔ یہ ڈائیلاگ بھی ہمیں شائی لاک کی نیچر اور پھر مستقبل میں ڈوبنے والے جہازوں کے بارے میں آگاہی دیتا ہے۔
مقصد میرا یہ سب لکھنے کاپھر وہی ہے کہ فلم میکنگ ایک آرٹ ہے۔ اسے جاہلوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔ فلم بنانے والا یعنی ڈائریکٹر بھی وہی تعلیم حاصل کرتاہے جو رائٹر کرتا ہے۔ ان دونوں کےلئے ادب، فلسفہ اور پھر لکھنے کا فن اور پھر اسکرپٹ کو اسکرین پلے میں تبدیل کرنا سیکھنا ازحد ضروری ہے۔ ہم نے ابھی اوپر شیکسپیئر کا ذکر کیا اور ’’ہیملٹ‘‘ کے بارے بات کی۔ اب کوئی تووجہ ہے کہ ادب، فلم اور تھیٹر والوں کے لئے یہ اب تک ایک ایسا شاہکار ہے جس کو بار بار پڑھا جاتا ہے اور بار بار اس پر فلم بھی بنتی ہے اور اسے اسٹیج بھی کیا جاتا ہے۔
بعد کی مثالوں میں ہم جہاں ایک طرف Gone With The Wind کی بات کرتے ہیں وہیں To Kill a Mocking Bird کی بھی بات ہوتی ہے۔ یہ دونوں فلمیں بھی مشہور کتابوں کی کہانیوں سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ ان دونوں کے چاہنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ یہ کتابیں جہاں ادب کا شاہکارہیں وہاں ان پر بنی فلم بھی بہترین ہے۔ یہ اپنے دور کے بارے میں آگاہی دیتی ہیں، اپنے سماج کے بارے میں بتاتی ہیں اور پھر لوگوں کے ذہنوں پر شاندار تاثر چھوڑتی ہیں۔ یہ کمرشل لحاظ سے بھی بہترین ہیں سو یہاں آرٹ فلم اور کمرشل فلم کی بحث بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اچھی فلم اچھی ہوتی ہے یا بری ہوتی ہے، اسے کمرشل اور آرٹ کے زمرے میں فٹ کرکے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان کے بنانے والے اتنی باریک بینی سے ایک ایک کردار پر اور پھرشاٹس پر توجہ دیتے ہیں کہ آپ سر دھنتے رہ جاتے ہیں۔
میں ذرا سید نور صاحب کی ایک آرٹ فلم ’’سلاخیں‘‘ کا بھی ذکرکرلوں جو سعود کی پہلی فلم بھی ہے۔ فلم کے پہلے ہی سین میں ندیم جو ویلڈر ہے، اپنے بیٹے کو لے کر ایک کالج میں داخل کرانے کے لئے جاتا ہے۔ کچھ لیکچر کے بعد بیٹا کالج کے اندر داخل ہوتا ہے۔ کالج کا گیٹ بند ہوتا ہے اور اس پر لکھا صاف پڑھا جاتا ہے "Evernew Studios" باقی کی فلم اس سے بھی زیادہ بکوا س ہے۔ اب جو میں نے اسکرپٹ کے بارے کچھ گزارشات کی ہیں تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلم کے ساتھ ہی ساتھ Genre Study بھی ہوتی ہے۔ انہیں بھی آرٹ کی مثالیں کہا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ کو کامیڈی، ٹریجڈی کے ساتھ ساتھ کرائم، ویسٹرن، میوزیکل، سائنس فکشن جیسے Genresمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ہر ایک کی جمالیات مختلف ہیں۔ اسی لئے ان تمام Genres میں شاندار فلمیں بنی ہیں۔ ہم نے کرائم میں پچھلی بار Scarface کا ذکر کیا تھا تو سائنس فکشن Stanley Kubric کی فلمیں بھی دیکھی جانی چاہئیں۔ Psycholgical Thrillersمیں اگر آپ نے ہچکاک کی فلمیں نہیں دیکھیں اور ان سے نہیں سیکھاتو گویا کچھ نہیں کیا۔ ویسے تو فلم کے شوقین لوگوں کو One Thousand One Films You Must See Before You Die. پڑھنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس میں سے انہوں نے کتنی دیکھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ Best American Screen Plays میں اسکرپٹ پڑھیں۔
Lajos Egri اور Linda Seger کی اسکرپٹ کے حوالے سے کتابیں پڑھیں اور سیکھیں۔ کردار نگاری کے حوالے سے جوکتاب Linda Seger نے لکھی ہے یعنیCreating Unforgettable Charactersوہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتابیں نہ صرف آپ کو ادب پاروں سے روشناس کرائیں گی بلکہ آپ کو ٹی وی ڈراموں اور ڈاکومنٹریز بارے بھی بتائیں گی۔ انہیں پڑھے بغیر اگر آپ اس شعبے میں آتے ہیں تو گویا علم کے بغیر آتے ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998