ٹھٹھہ(نامہ نگار)عدالتی احکامات کے باوجود ٹھٹھہ میں گٹکا اور مین پوری کا کاروبار بدستور جاری، گٹکے کے استعمال کے باعث منہ سرطان کے مریضوں میں دن بدن اضافہ، متعدد افراد جان گنوا بیٹھے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے گٹکا اور مین پوری کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کرنے کے باوجود ضلع ٹھٹھہ میں نہ صرف اب بھی گٹکے کی تیاری اور فروخت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ گٹکا فروشوں نے پابندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتیں دو گنی کردی ہیں۔ضلع کے شہری اور دیہی علاقوں میں اب بھی گٹکا اور مین پوری کے متعدد کارخانے قائم ہیں جہاں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر گٹکا تیار کرنے کے بعد ضلع کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں دکانوں، کیبنز اور گھروں میں سپلائی کیا جا رہا ہے اور محکمہ پولیس اس گورکھ دھندے کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع میں سالانہ دو ارب روپے سے زائد کا گٹکا، مین پوری اور پان فروخت ہوتا ہے، خواتین، مرد، جوان، بوڑھے اور حتیٰ کہ کمسن بچے بھی گٹکے کی لت میں مبتلا ہیں۔موت کے سوداگر گٹکا فروش عوام میں کو قاتل زہر فروخت کرتے کرتے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ضلع میں گٹکے اور مین پوری کے استعمال کے باعث اب تک سینکڑوں افراد منہ کے سرطان سمیت دیگر امراض مبتلا ہیں جبکہ درجنوں جان گنوا بیٹھے ہیں جبکہ اس وقت کراچی کے بڑے کینسر اسپتالوں میں داخل منہ کے سرطان کے مریضوں کی اکثریت کا تعلق بھی ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع سے ہے۔ دریں اثنا اس حوالے سے سول اسپتال مکلی کے ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شیام کا کہنا ہے کہ ضلع کی 80 فیصد آبادی گٹکا، مین پوری اور پان استعمال کرتی ہے۔ان اشیاء کے کثرت سے استعمال کے باعث لوگوں میں دانتوں اور منہ کے سرطان کے علاوہ دمہ اور سانس کی تکلیف جیسے امراض جنم لے رہے ہیں۔ مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مسلسل استعمال کے باعث بعض اوقات ان کا منہ بند ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ کھانے پینے سے قاصر رہتے ہیں۔