اسلام آباد (انصار عباسی) سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پیشی سے ایک دن قبل، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پیر کے روز فوج کیخلاف دیے گئے ریمارکس پر کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس پر اپنا جواب جمع کرایا جس میں انہوں نے اصرار کیا ہے کہ کیس کے مدعی صرف ’’پراکسیز‘‘ ہیں جن کے متعلق ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج آئینی حدود سے آگے نہیں جا سکتیں اور اسی آئین کے تحت وفاقی حکومت کے پاس فورسز کا کنٹرول اور کمانڈ ہے نہ کہ اس کے برعکس۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس صدیقی، جنہیں حال ہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے عدالت میں اپنے فوج مخالف ریمارکس کی وجہ سے شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ: ’’مدعی مسٹر جمشید دستی، رکن قومی اسمبلی اور مس کلثوم خالق ایڈووکیٹ، صرف ’’پراکسیز‘‘ ہیں۔ درحقیقت، یہ شکایات کسی اور کی ایما پر درج کرائی گئی ہیں۔ میرے پاس اس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، جو میں ضرورت پیش آنے پر پیش کروں گا۔‘‘ جسٹس صدیقی، جنہیں پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور مقدمہ کا سامنا ہے، نے کونسل کو اپنے جواب میں بتایا ہے کہ ’’تاہم، یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ مختلف آپریٹرز نے مختلف طریقوں سے مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ میں انتہائی مودبانہ انداز سے عرض کرتا ہوں کہ میرا ضمیر پاک اور میرے ہاتھ صاف ہیں۔ میں نے کسی بھی طرح کا کوئی غلط کام نہیں کیا اور سماعت کے دوران میرے ریمارکس یا مشاہدات بے ضابطگی (مس کنڈکٹ) کے زمرے میں نہیں آتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو میرے فیصلوں میں دیئے گئے مشاہدات پر اعتراض ہے تو اس کیخلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے اور سپریم کورٹ عدالتی اقدار اور طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ان فیصلوں میں سے میرے ریمارکس یا مشاہدات حذف کر سکتی ہے۔ جسٹس صدیقی نے حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کو ختم کرانے کیلئے کیے گئے معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ تمام ادارے بشمول مسلح افواج آئین کی پیداوار ہیں اور اسی لیے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آئین سے آگے نہیں جا سکتے جس کے تحت وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ آئین کے آرٹیکل 243؍ کے تحت مسلح افواج کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیرونی جارحیت یا پھر جنگ سے پاکستان کو بچانا ہے اور قانون کے مطابق بلائے جانے پر سویلین حکام کی مدد کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئینی عدالتیں پابند ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے فرائض آئین کے تحت انجام دے اور اس کے ماتحت ادارے اس کی کمان میں رہتے ہوئے اسی طرح کام انجام دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق متنازع معاہدے کو انتظامی بندوبست نہیں کہا جا سکتا۔ بجائے اس کے، یہ ایک غیر آئینی دستاویز تھی جسے ایسے ماحول میں تیار کیا گیا جسے آئینی اور قانونی فریم ورک نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، میری سمجھ کے مطابق متنازع دستاویز کو انتظامی بندوبست نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ اس طرح دستاویزات پر دستخط کرانے اور مظاہرین میں سینئر عہدیدار کی جانب سے پیسے بانٹنے کے اقدامات کو اُس عہدیدار کی آئینی ذمہ داری نہیں کہا جا سکتا۔ درحقیقت، چند لوگوں کے اس طرح کے ناقابل قبول اقدامات کی وجہ سے ایگزیکٹو کا حصہ سمجھے جانے والے پورے ادارے کی عزت کو نقصان پہنچا ہے۔ جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دھرنے کی قیادت نے اعلیٰ عدلیہ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور معزز چیف جسٹس پاکستان کیخلاف انتہائی گھٹیا، غلیظ اور گندی زبان کا استعمال کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’کوئی بھی جج ایسے الفاظ کو کس طرح نظرانداز کر سکتا ہے کیونکہ یہ بحیثیت ایک ادارہ عدلیہ کے وقار، عزت اور احترام کے خلاف تھے۔‘‘ جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 209؍ کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کے برعکس کوئی اقدام کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ شو کاز نوٹس میں ان کے بحیثیت جج اسلام آباد ہائی کورٹ کسی بھی طرح کے ریمارکس کے حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کی گئیں لہٰذا میں کوئی مخصوص جواب یا پھر وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہوں۔ اگرچہ جسٹس صدیقی نے درخواست کی ہے کہ شو کاز نوٹس خارج کیا جائے لیکن انہوں نے 16؍ مئی 2016ء کو جاری کیے گئے سابقہ شو کاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کیخلاف اوپن ٹرائل کیا جائے۔