اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں عدم اعتماد زیادہ مانوس عمل نہیں ہے لیکن وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس کا سامنا رہ چکا ہے اسی کے عشرے میں ایک اسپیکر کا منصب تو یہ نگل چکا ہے اب حکومتی حلقوں میں چرچا جاری ہے کہ سینیٹ کے نئے چیئرمین کی کارکردگی پر آئندہ چار سے چھ ہفتوں تک کڑی نگاہ رکھی جائے گی جس کی بنیاد پر اس امر کا تعین کیا جائے گا کہ نومنتخب چیئرمین کس حد تک اس عہدے کو سنبھالے رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ سینیٹ میں چیئرمین کو سادہ اکثریت سے عدم اعتماد کے ذریعے سبکدوش کیا جاسکتا ہے اگر نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوئیں تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں بھی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہوا اور چیئرمین سینیٹ کو بھی جلد یا بدیر عدم اعتماد کا سامنا ہو۔ پھر ان مہربانوں کو ایک مرتبہ پھر اسی جانفشانی اور محنت شاقہ سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان کے پچھواڑے میں ا ترنا پڑے جس کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ دنوں میں کیا ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے سوال پر نیا مناقشہ جنم لے رہا ہے پیپلزپارٹی جو حزب اختلاف کا بڑا گروپ ہے اس نے رضا ربانی جیسے جید قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے چیئرمین اور اب قائد حزب اختلاف کے منصب کے لئے تجویز کرنا گوارا نہیں کیا۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاتا رہا ہے تاہم اب طے ہوا ہے کہ سابق وفاقی وزیر اور امریکا میں متعین رہی پاکستان کی سابق سفیر محترمہ شیری رحمٰن کو پیپلزپارٹی کی طرف سے حزب اختلاف کی قیادت کے لئے نامزد کیا جائےگا۔ اس سے یہ عیاں ہوگیاہے کہ میاں رضا ربانی کے نام کو مہربانوں نے دوسری مرتبہ ویٹو کردیا ہے جس کے لئے پارٹی کے سربراہوں میں سے ایک کا نام لیا جارہا ہے جو مہربانوں کی پراکسی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف بھی اس منصب کو للچائی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اس نے اپنی صفوں میں شبلی فراز جیسے متین اور سیاسی نابغے کی موجودگی میں اعظم سواتی کو مقابلے کے لئے اتارا ہے تحریک انصاف کا موقف ہے کہ عددی اعتبار سے وہ پیپلزپارٹی کے بعد دوسرے درجے کی بڑی پارٹی ہے لیکن ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر قبضہ کرلینے کے بعد اسے قائد حزب اختلاف کےمنصب پر دعویداری اسے زیبا نہیں۔ یوں بھی چھوٹے گروپ تحریک انصاف کی طرف داری کررہے ہیں ممکن ہے کہ وہ عددی لحاظ سے پیپلزپارٹی کو مات دیدے امکان یہی ہے کہ چیئرمین اس امر کے خواہاں ہونگے کہ حزب اختلاف کی قیادت پیپلزپارٹی کو سونپ دی جائے ۔