• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغربی بنگال کے سابق وزیراعلیٰ جیوتی باسو نے برسوں پہلے بھارتیہ جتنا پارٹی کو ’’بَربَروں‘‘ کی جماعت قراردیا تھا۔ اِس بیان پر جیوتی باسو جی کو ایک طرف بی جے پی کے حلقوں میں آڑے ہاتھوں لیا گیا اور دوسری طرف اِنکے حمایتیوں نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ اِس انداز کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی۔ لیکن تری پورہ کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد پارٹی کے حمایتیوں کے ہاتھوں لینن کے مجسمے کے اِنہدام پر اُنکی کہی بات یقینا ًسب کو یاد آرہی ہوگی!
مجسمے کے اِنہدام کا سلسلہ تری پورہ تک محدود نہیں رہا اِس افسوسناک واقعے کے بعد گویا بلوائیوں نے مجسمہ یا بت شکنی کو اِک نیا ’کار سیوا‘ سمجھ کر عقیدے کی طرح اپنا لیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے مغربی بنگال، تامل ناڈو اور یوپی کے کئی مقامات ملتے جلتے واقعات کی لپیٹ میں آگئے۔ تامل ناڈو میں ہندوستان کے معروف دراوڑ سماجی کارکن ای وی راما سامے المعروف ’پیری یار‘ کے مجسمے پر بلوائیوں کا دھاوا، یوپی میں میرٹھ اور اعظم گڑھ کے قریب انسانی حقوق کے علمبردار اور دالت بدھاتحریک کے بانی ڈاکٹر بی آر اَمبیڈ کر کے دومجسموں پر حملے اور کولکتہ میں بی جے پی کے نظریاتی پیشوا سیاما پراساد مکرجی کے مجسمے پر یلغار انتہائی مایوس کن کارروائیاں ہیں۔
مجسمہ شکنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے بی جے پی چیف امیت شاہ کی تنبیہ اور وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مذمت کے باوجود ذمہ دار عناصر کے خلاف کسی بھی جگہ اب تک کوئی سنجیدہ کارروائی ہوتی نظر نہیں آئی۔ لہٰذا اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ پر تشدد واقعات بھارت میں مسلسل بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور تنگ نظری کے براہ راست اور ناگزیر نتائج ہیں۔
سال 1989میں دیوار برلن کے انہدام کے بعد روس سمیت مشرقی یورپ اور دیگر ممالک میں بھی کمیونسٹ اور سوویت رہنمائوں کے مجسموں کے انہدام کے واقعات رونما ہوئے۔ لیکن اِن واقعات میں مجسموں کو انتہائی مہذب انداز میں اُتار کر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر کے سیاسی تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ البتہ سابق سوویت یونین کی وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں میں مجسمہ شکنی کے چند ملتے جلتے واقعات یقینا رونما ہوئے تھے۔
اِن اکثریتی مسلم ریاستوں میں کمیونسٹ اصلاحات دیگر سوویت ریاستوں کے بر خلاف سرخ افواج کی توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے رونما ہوئی تھیں اور اسی لئے اِن ریاستوں میں مکمل طور پر کمیونسٹ آمریت قائم رہی۔ لہٰذا اِن ریاستوں میں سوویت یونین کے بکھرنے پر رونما ہونے والے رد عمل کا موازنہ ہندوستان کی اِن ریاستوں کے جمہوری معاشروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں بنگال اور تری پورہ سمیت بھارت کی جنوب مشرقی ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی جمہوری عمل کے ذریعے ہی اِقتدار میں آتی رہی اور اب بی جے پی بھی اکثریتی ووٹ حاصل کر نے کے بعد ہی حکومت بنا رہی ہے۔ اِسی فارمولے کے تحت طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں بامیان کے دیوہیکل بدھوں کی افسوسناک تباہی کا موازنہ بھی ہندوستان کے تازہ واقعات سے نہیں کیا جاسکتا۔
سرزمین ہندوستان دورِ قدیم سے ہی مجسمہ سازوں اور بتو ں کی پوجا کرنے والوں کی سرزمین مانی جاتی رہی ہے۔ اِس سرزمین نے بدھ مت اور ہندومت جیسے بڑے مذاہب کو جنم دیا جن میں مجسموں اور مورتیوں کو انتہائی مقدّس حیثیت حاصل ہے۔ اِن روایات کی بدولت ہندوستان ماہر سنگ تراشوں اور مجسمہ سازوں کا دیس سمجھا جاتا رہا ہے۔ تعجب یہ ہے کہ نفرت کی بنیاد پر ’مجسمہ اور بت شکنی‘ کی یہ نئی روایت ایک ایسی جماعت کے دور میں پروان چڑھ رہی ہے جو خود کو ’ہندوتوا‘ کا سب سے بڑا علمبردار قرار دیتی ہے۔ جہاں ہزاروں سال سے بت پرستی زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا لازمی جزو رہی ہے، وہیں بت شکنی کے یہ واقعات ہندوستان میں نئی سوچ اور نئے رویوں کا مظہر ہیں۔ تری پورہ میں ولادیمیر لینن کے مجسمے کی تباہی کا زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لینن خود ساری زندگی ہندوستانیوں کی انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی بھر پور حمایت کرتے رہے۔ برصغیر میں جدوجہد آزادی پر لینن کا نظریہ انتہائی معروضی اور دوررس تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مارکسی نظرئیے کے تحت طبقاتی نظام کے خلاف عالمی جدوجہد میں نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ایک اہم مرحلہ قراردیاجاتا تھا۔ مارکس خود ہندوستان میں آزادی کی صورت میں بڑی تبدیلیوں کی راہ دیکھ رہے تھے، لہٰذا اِس خطے سے برطانوی سامراج کا خاتمہ لینن کے ایجنڈوں میں ایک اہم ترین معاملہ تھا۔ اُن کا موقف تھا کہ دنیا میں برطانوی سامراج کے خلاف مکمل فتح عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ثابت ہوگا۔
اُس وقت برصغیر میں جاری آزادی کی تحریک اور اِس سرزمین سے تعلق رکھنے والے روشن خیال سر گرم سیاست دان، لینن روس میں انتہائی عزت اور احترام سے دیکھے جاتے تھے اور عموما اُن کے سیاسی مباحثوں کا ترجیحی موضوع ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی تسلط کے خاتمے کے بعد بھارتی رہنمائوں نے اپنی اقتصادی پالیسی کی بنیاد سوشلسٹ روایات پر رکھی، لہٰذا اگلی نصف صدی تک تعلیمی، صنعتی اور اقتصادی شعبوں میں ہندوستان کی غیر معمولی ترقی اُس سوشلسٹ طریقہ ِمعیشت کا ہی نتیجہ تھی جس کی بنیاد 1920کی دہائی میں روشن خیال ہندوستانیوں اور لینن کے درمیان خصوصی روابط اور تعلق کی صورت میں رکھی گئی تھی۔ اِنہی روایات کے تحت ہی آزادی کے بعد بھارت اور سوویت یونین اگلے کئی دہائیوں تک سیاسی، سفارتی اور اقتصادی شعبوں میں ایک دوسرے کے انتہائی قریب رہے۔
سرزمین ہندوستان کے باسیوں اور اُنکی آزادی کیلئے لینن کی سوچ اور خلوص کو سامنے رکھتے ہوئے اِنکے مجسمے کا انہدام انتہائی شرمناک واقعہ ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ماضی میں لینن نے ہندوستان کے اِنہی باسیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ سامراج کے خلاف مثالی جنگ لڑ رہے ہیں! کیا لینن نے اِنہی لوگوں کے آبائو اجداد کے متعلق کہا تھا کہ انگریزوں کے خلاف اِن ہندوستانیوں کی فتح دنیا میں طبقاتی نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی؟
کمیونزم کی مقبولیت کے دور میں کئی مغربی ممالک نے سوشلسٹ طرز معیشت کو جزوی طور پر اپناتے ہوئے عوامی فلاح سے متعلق منصوبے متعارف کرائے جو مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں آج بھی مقبول ہیں۔ مغرب کے مقابلے میں اگرچہ ہندوستان اِن سوشلسٹ روایات سے کہیں زیادہ استفادہ کرتا رہا ہے، تری پورہ کے حالیہ انتخابات میں ملک کی آخری کمیونسٹ حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا! اور پھر فاتح بی جے پی کے حمایتیوں کا لینن کے مجسمے کے ساتھ یہ سلوک اس حقیقت کی واضع نشاندہی ہے کہ اب اِس نئے ہندوستان میں طبقاتی نظام کی جدوجہد کرنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں! لگتا ہے جیسے دنیا میں طبقاتی نظام کے خلاف جد وجہد کا آخری سورج ماسکو یا ہوانا میں نہیں، بلکہ تری پورہ میں غروب ہوا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین