• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز کی طرح مشرف عدالتی کارروائی کا سامنا کریں،احسن اقبال

نواز کی طرح مشرف عدالتی کارروائی کا سامنا کریں،احسن اقبال

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کی طرح پرویز مشرف پاکستان آکر عدالتی کارروائی کا سامنا کریں،نہال ہاشمی نے کہا کہ زندگی بھر وکیل رہوں گا،عدالت اور عوامی محفل کے آداب مختلف ہوتے ہیں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ اب حکومت کا اصل امتحان شروع ہوگیا ہے ، پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی انٹرپول کے ذریعہ گرفتاری کا حکم جاری کردیا ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ چوہدری نثار کے دور میں فیصلے کہیں اور ہوتے ہوں گے ،وزارت داخلہ کے فیصلے بلکہ آئین و قانون کی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں، ای سی ایل کی پالیسی کو بہت اوپن کیا ہے کہ اس میں کسی انتقام کی بو نہ آئے، حکومت سیاسی بدمزگی یا انتقام چاہتی تو ڈاکٹر عاصم کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ملتی، ہم نے ای سی ایل پالیسی کو شفاف انداز میں چلایا ہے، چوہدری نثار بھول گئے کہ اگست 2016ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جہاں وفاقی حکومت کا لفظ لکھا ہوا ہے وہاں وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے اور ای سی ایل کے اوپر نام ڈالنا یا نکالنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے، چوہدری نثار نے 2015ء میں فیصلوں کیلئے ایڈیشنل سیکرٹری کی کمیٹی کی جو پالیسی بنائی تھی اس پر اگست 2016ء میں نظرثانی کی جانی چاہئے تھی تاکہ ای سی ایل میں نام ڈالنے یا نکالنے کے فیصلوں کی کابینہ سے توثیق حاصل کی جاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ عمل چلتا رہا۔ احسن اقبال نے بتایا کہ ہم نے اگست 2016ء سے ای سی ایل پر ڈالے یا نکالے جانے والے کیسز بشمول نواز شریف اور اسحاق ڈار کے کیسوں کےمنظوری کیلئے کابینہ کو بھیج دیئے ہیں، اب کابینہ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے کی مجاز ہے،ہر منگل کو باقاعدگی کے ساتھ کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، امید ہے یہ سمری کابینہ کے اگلے اجلاس میں زیربحث آجائے گی۔ احسن اقبال نے کہا کہ عدالتی حکم پر اگلے دن ہی ایف آئی اے، نادرا اور پاسپورٹ آفس کو احکامات جاری کردیئے تھے کہ وہ سولہ تاریخ تک انتظار کریں اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کی یقین دہانی نہیں کرواتے تو ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا جائے، شناختی کارڈ کینسل کیا جائے اور انٹرپول کے ذریعہ ریڈ وارنٹ جاری کر کے انہیں عدالت میں بلایا جائے، پرویز مشرف کے وکیل نے یقین دہانی کروادی ہے کہ جنرل پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کیلئے پاکستان آنا چاہتے ہیں انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے، قانون کے مطابق پرویز مشرف کا جو بھی سیکیورٹی کا حق ہے وہ انہیں فراہم کیا جائے گا، پرویز مشرف پاکستان واپس آکر اسی طرح عدالتی کارروائی کا سامنا کریں جس طرح سابق وزیراعظم نواز شریف کررہے ہیں، پرویز مشرف اب مسلح افواج کے عہدیدار نہیں سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، اگر جنرل پرویز مشرف عدالتی حکم کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کیخلاف عدالتی حکم اور قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔نہال ہاشمی نے کہا کہ عدالت اور عوامی محفل کے آداب مختلف ہوتے ہیں، میں نے بتیس سال وکالت کی ہے جب بھی عدالت جاتا ہوں ادب کے ساتھ بات کرتا ہوں، کبھی عدالت میں اونچی آواز میں بات نہیں کی البتہ باہر جلسوں میں کرلیتا ہوں، میں آج بھی نہیں ڈرتا،میرے پاس کیا بچا، میں نے جیل کاٹی، فائن بھردیا، مجھ سے سینیٹ سے استعفیٰ لے لیاگیا، ایک مڈل کلاس کا آدمی بڑی جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچتا ہے، میرے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے، مجھ سے میری پارٹی نے میری رکنیت ختم کر کے فاصلہ اختیار کرلیا، عدالت کا ادب کرتا تھا، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا، اگر میں کسی پروگرام میں غلط بات کرتا ہوں تو پیمرا نوٹس لے گا لیکن اگر میں دوستوں کے ساتھ ملاقات میں گفتگو کروں تو پیمرا نوٹس نہیں لے گا کیونکہ وہ میری نجی گفتگو ہے، جب میں جیل سے نکلا تو مجھے وہاں وکلاء ملے، کلپ میں میرے پہلے الفاظ یہی ہیں کہ ’آپس کی بات ہے‘ ، میں نے ایکٹ نہیں کیا بلکہ وہ دہرایا، سوشل میڈیا اور موبائل پر تو مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے کلپس بھی چل رہے ہیں، میں اگر اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی بات کررہا ہوں تو سب سے پہلے اسے پکڑنا چاہئے جس نے بدنیتی سے اس کی ویڈیو بنائی، میں نے جو الفاظ دہرائے اس سے کہیں زیادہ جیل میں قیدی اس نظام، عدالتی نظام اور وکلاء کو کہتے ہیں بلکہ فحش گالیاں بکتے ہیں، میں نے تو وہ بات کی جو عام دنوں میں ہم گھر پر بات کرتے ہیں، میں نے جو بات کی وہ لفظ میرے نہیں ہیں، میں نے کسی عدالت یا جج کا نام نہیں لیا، مجھے نہیں پتا سترہ سال مقدمہ لڑنے والے کا کیس کس عدالت میں ہے، اگر میں قیدیوں کی بات نہ کروں تو مجھے بھی اللہ کو منہ دکھانا ہے، میں نے جیل میں ایک مہینے جو دیکھا وہ میرے دل میں ہے، میں نے قیدیوں اور مظلوموں کی بات کر کے کوئی گناہ نہیں کیا، یہ بات slip of tongue ہے مگر میری نہیں ہے، میں کسی سے کوریڈور میں یا اپنے بھائی، بیٹے یا بیوی سے بات کروں تو کیا اس پر بھی ازخود نوٹس ہوگا، عزت ذلت اور رزق میرے رب کے ہاتھ میں ہے، مجھے جیل کے اندر نہیں پتا تھا بابا رحمتے کون ہے جیل سے نکلنے کے بعد پتا چلا، جیل سے نکلنے کے بعد جب لوگوں نے بابا رحمتے کی بات کی تو میں نے کہا بابا رحمتے کون ہے، میں مڈل کلاس سے ہوں اس لئے لوگوں اور قیدیوں کے دکھ تکلیف کو محسوس کرتا ہوں، کیا سیاسی کارکن ہونا پاکستان میں گناہ ہے، میں اپنی آل اولاد اور جان سے زیادہ پاکستان سے پیار کرتا ہوں، جو آدمی آئین و قانون اور انصاف کی بات کرتا ہے اس کے ساتھ ایسا ہوتو تکلیف دہ بات ہوتی ہے، میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ کسی جج صاحب کے بارے میں میرے ذہن میں بھی نہیں تھا، میں نے جے آئی ٹی کو بھی نہیں کہا تھا حساب مانگنے والوں کو کہا تھا، میری تقریر میں عمران خان کا بھی ذکر ہے، نواز شریف ٹھیک بات کررہے ہیں، میرے ساتھ کھڑے ہوئے سارے لوگ بیوقوف نہیں تھے، وہ میرے نہیں قیدیوں کے الفاظ تھے، میں نے عدالت سے معافی مانگی تو اسی معافی نامہ کو میرے خلاف استعمال کیا گیا، عدالت نے مجھ سے کہا معافی مانگ لیں تو میں نے معافی مانگ لی، سپریم کورٹ سے اوپر صرف اللہ کی عدالت ہے، قیدیوں نے جب عدالت اور نظام کے بارے میں بات کی تو مجھے بھی تکلیف ہوئی تھی، عدالت یقیناً میرے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لے گی، قانون کے تمام تقاضوں کو پورا کروں گا، سیاسی کارکن جیل اور ریل کیلئے تیار رہتا ہے، شہروں میں لوگ یا سرحدوں پر فوجی بم دھماکوں میں شہید ہوتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے، ایک وکیل کو اگر انصاف نہیں مل سکا، نواز شریف سے میری روحانی بات ہوتی رہتی ہے، نواز شریف میرے قائد تھے اور قائد رہیں گے، نواز شریف سے بات ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، میں مریم نواز کا بڑا شکرگزار ہوں، نواز شریف نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ آپ نے یہ تقریر کرنی ہے، نواز شریف نے مجھ سے فون پر بات نہیں کی، لوگوں کا سلام اور پیغام مجھے ملتا رہتا ہے، مریم نواز سے بھی میرا سلام اور پیغام ہوتا رہتا ہے، میں چوری یا دہشتگردی کر کے جیل نہیں گیا، میں وکیل تھا، وکیل ہوں اور زندگی بھر وکیل رہوں گا، ایک وکیل پاکستان کے نظام سے انصاف مانگتا ہے، میں امید کرتا ہوں کہ میرے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس ہوگا۔ میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی حکومت بار بار الزام لگاتی رہی کہ پرویز مشرف کو قانون کے کٹہرے میں کون لائے گا، منتخب وزیراعظم کے خلاف تو کارروائی ہوجاتی ہے مگر آمر کے خلاف کارروائی کب ہوگی، ایسا تاثر پیدا کیا گیا کہ حکومت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے مگر کر نہیں سکتی ان کا احتساب نہیں ہوتا، یہ دعویٰ کیا گیا کہ حکومت نے پرویز مشرف کو بیرون ملک عدالتی حکم کی وجہ سے جانے دیا، اب حکومت کا اصل امتحان شروع ہوگیا ہے ، پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی انٹرپول کے ذریعہ گرفتاری کا حکم جاری کردیا ہے، عدالتی حکم کے مطابق وفاقی حکومت کو سابق صدر کی گرفتاری کیلئے اقدامات کا حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کے اقدامات کرے اور سابق صدر کی جائیداد کی ضبطی کیلئے بھی اقدامات کیے جائیں۔

تازہ ترین