• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی شہریوں کی برطانیہ میںسکونت!! امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کے فیصلے کے اثرات اب رفتہ رفتہ مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ برطانیہ میں یورپ سے آئے ہوئے تیس لاکھ یورپی شہری یہاں پر قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے صرف دس لاکھ کام کرتے ہیں باقیماندہ بیس لاکھ حکومت سے ہر قسم کی مالی امداد لے رہے ہیں۔ جب شروع میں اس ضمن میں قانون سازی کی گئی تھی تو اس وقت اہداف بالکل واضح تھے۔ یورپی شہریوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک میں بلا روک وٹوک اور آزادانہ نقل وحمل کا مقصد یہ تھا کہ اگر کسی یورپی شہری کو فرانس میں کام نہیں ملتا ہے تو وہ جرمنی جا کر کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو لندن میں یا برطانیہ میں کام نہیں مل رہا ہے تو وہ کسی بھی دوسرے یورپی ملک جا کر کام تلاش اور کر سکتا ہے یہ قوانین یورپی شہریوں کی بہتری اور فلاح وبہبود کیلئے بنائے گئے تھے۔ اس وقت یہ پہلو بھی پیش نظر رکھا گیا کہ اگر کوئی ایک یورپی شہری کسی دوسرے ملک میں کام کی تلاش میں جاتا ہے اور جب تک اسے کام نہیں ملتا تو اسے وہاں کی حکومت کام ملنے تک عارضی طورپر مالی امداد کرے اور بینفٹس دے۔ برطانیہ سے تو بہت کم تعداد میں لوگ دوسرے یورپی ممالک میں گئے لیکن یورپ سے برطانیہ آنے والوں کی تعداد تیس لاکھ تک جا پہنچی۔ ان میں سے جب بیس لاکھ لوگوں نے کام کرنے کے بجائے یہاں کے بینفٹس پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیئے تو حکومت اور لوگوں کو احساس شروع ہوگیا کہ یہ میزبانی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے اس ضمن میں دی جانے والی یہ دلیل بالکل صحیح ہے کہ اگر کسی یورپی شہری نے برطانیہ میں آکر کام نہیں کرنا ہے اور صرف بینفٹس لینے ہیں تو وہ ایسا اپنے ملک میں بھی کر سکتے ہیں جب یہ بات عام ہوئی کہ برطانیہ ہر روز تریپن ملین (53میلنز) پائونڈز یورپی شہریوں کو عالمی امداد کے طورپر دے رہا ہے تو کافی خووغوض کے بعد اس ضمن میں ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں برطانوی عوام کی اکثریت نے برطانیہ کے یورپ سے باہر نکلنے کے حق میں  ووٹ دیا اور یوں اب برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کے بعد یورپی شہری آزادانہ برطانیہ آکر کام نہیں کرسکیں گے مروجہ قوانین کے تحت یورپی باشندے اگر برطانیہ آتے ہیں اور یہاں پر کام تلاش کرلیتے ہیں تو وہ یہاں پر رہنے کیلئے ایک رجسٹریشن سرٹیفکیٹ لے سکتے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص یورپی شہری ہے اور برطانیہ میں اپنے حقوق کو روبہ عمل لاتے ہوئے سکونت پذیر ہے۔ ایسی درخواست یورپی طلبہ بھی کرسکتے ہیں اور رجسٹریشن سرٹیفکیٹ لے سکتے ہیں۔ ایسی درخواستیں ہوم آفس کے فارم EEA (QP)پر کی جاسکتی ہیں تاہم یورپی شہریوں کے خاندان کے افراد رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یا RESIDENCE CARDلینے کیلئے ایک دوسرا فارم جسے کہ EEA (FM)کہتے ہیں۔ استعمال کر سکتے ہیں اسی طرح دور کے رشتہ دار فارم EEA(EFM) زیر استعمال لاسکتے ہیں۔ اب ایسی درخواستیں PREMIUM SERVICEمیں  بھی کی جاسکتی ہیں یعنی ایسی درخواستوں پر اسی دن فیصلہ دےدیا جاتا ہے۔ جب یورپی شہری برطانیہ میں پانچ سال پورے کرلیتے ہیں تو وہ یا ان کے خاندان کے افراد برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ درخواستیں ہوم آفس کے فارم) EEA (PRپر کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں درخواست دہندہ کے فارم میں ہی اس کے خاندان کے افراد کو شامل کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ وہ متعلقہ شرائط پوری کررہے ہوں۔ یورپی شہری جو کہ برطانیہ میں کام کررہے ہیں، پانچ سالوں کے اختتام پر ہی مستقل سکونت کی درخواست کرسکتے ہیں لیکن اگر کوئی یورپی شہری برطانیہ میں کام کر رہا ہے لیکن کسی حادثہ وغیرہ کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کام کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے یا معذور ہو جاتا ہے تو وہ پانچ سالوں کا انتظار کیے بغیر فی الفور برطانیہ میں مستقل سکونت کے حصول کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی یورپی شخص برطانیہ میں تین سالوں تک قیام پذیر رہتا ہے اور ایک سال تک کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوجاتا ہے تو بھی وہ مستقل سکونت کا حقدار قرار پاتا ہے یہ تو نئی قانونی صورتحال ان یورپی شہریوں کی جو کہ برطانیہ میں کام کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں لیکن اب حکومت نے ان یورپی شہریوں کے لئے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے۔ جو کہ برطانیہ میں کام نہیں کرتے رہے ہیں اور حکومتی امداد وبینیفٹس لیتے رہے ہیں۔ ان نئے قوانین کی تفصیل آئندہ ہفتے کے کالم میں دی جائے گی۔
تازہ ترین