• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے سوال پھر مدعا پر آتی ہوں ،کیا اس برطانیہ کی آزاد جمہوریت میں، جہاں کوئی سگا بھی یہ مجال نہیں کرسکتا کہ ہماری چٹکی بھی کاٹ لے یہاں ہمیں ایسے خط موصول ہو کہ تین اپریل کو ہمیں سزا دینے والے کو بطور انعام پوائنٹس دیئے جائیں گے۔ ہم سے ظاہر ہے مطلب ہم مسلمان ہیں ۔کیا قارئین آپ سب کو یہ بات پریشان نہیں کر رہی ۔ آخر یہ ہمارا بھی ملک ہے برطانوی مسلمان اس کے اسی طرح قانونی شہری ہیں جیسے کوئی اور شہری ۔مذہب رنگ نسل کی تفریق تو یہاں کوئی ذکر کرنے کی بات ہی نہیں پھر یہ سب کیا ہے ۔ اب مدعاپر آتی ہوں ۔ یہ بات شروع ہو رہی ہے اس خط سے جس میں یہی باتیںلکھی ہیں کہ یہ مسلمان ہمیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہنکارنا چاہتے ہیں اور ہم بھیڑ بکری نہیں ہیں۔یہ ہمیں تکلیف دے رہیں اس لئے انھیں بھی تکلیف پہنچانی چاہئے۔ اس کے لئے رواں سال تین اپریل کو ان مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا دن ہے ۔ یہ خط جن کو موصول ہوئے انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو پھیلا دئیے اور ہوگئی سب کو خبر کہ چلو جی پھر مسلمانوں کے خلاف کچھ نیا ہونے جارہا ہے سب پریشان ہوگئے ۔ لیکن جب مسز تھریسامے کو یہ خبر ملی تو فورا آزا د جمہوری ملک کی وزیر اعظم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بریٹن فرسٹ کے لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور یہ خبر بھی سب تک پہنچ گئی ۔ بات یہی تک ختم نہیں ہوئی پھر نشانہ بنے برطانوی پارلیمنٹ کے مسلمان ایم پیز ۔ خبر ملی کہ چار ایم پیز کو مشتبہ پیکٹس موصول ہوئے ہیں جن میں کوئی چپچپا مواد تھا گویا یہ بھی مسلمانوں کو ڈرانے کو ایک طریقہ تھا ۔اس سے پھر سب فکر مند ہوگئے سب سے مطلب آپ سمجھ گئے ہو ں گے مسلمان برطانوی شہری ۔۔ خو د ہمیں ہمارے جاننے والوں نے فون کر کے اس خط کی بابت پوچھا کہ کیا بات ہے سب خیر ہے نا یہ جان کر پریشانی ہو رہی ہے۔ ہم نے کہا نہیں نہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں یہ بس افواہیں ہیں سب خیر ہےکچھ نہیں ہو رہا ۔لیکن کچھ تو ہے یہ ہوا کہیں سے تو اٹھی ہے کہیں تو دھواں اٹھا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آگ واقعی کہیں بھڑکی ہو کیونکہ مسلمان یورپ میں دہشت گر د اسی لئے تو مشہور ہوئے ہیں کہ یہ جہاد پر نکلے ہوئے ہیں، کی خبریں عام ہوئیں جہاں کہیں حملے ہوئے نام مسلمان ۔۔پھر کیسے یہ ممکن ہو کہ متاثر ناراض نہ ہوں ۔ حالانکہ کافی وقت ہو گیا شکرہے کوئی مسلمان لیبل والا واقعہ ہوا نہیں ہے ۔ لیکن زخم کریدنے والے بھی تو کم نہیں سوچا ہو گا کہ چلو تلی سلگاتے ہیں شاید آگ بھڑک ہی جائے لیکن ہوا کچھ نہیں یہ بھی اچھا ہے لیکن کیا تین اپریل کو بھی سب ٹھیک ہی ہوگا کچھ ہوگا تو نہیں؟؟؟ہم اس سب کو افواہ ہی مان لیتے ہیں لیکن کیا ایسے ماحول میں افواہوں کی گنجائش ہے جہاں شام میں یمن میںہمارے مسلمان بھائی مر رہے ہیں۔کہیں مسلمانوںکے داخلے پر پابندی لگ رہی ہے کہیں ان کے ملکوں کو بلیک لسٹ کیا جارہا ہے ۔ پھر بھی مسلمان شہری ایک دوسرے کا مذہب کے نام پر گلا کاٹ رہے ہیں اور ان کے حکمران بدترین دشمنیوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ۔پھر ایسے میں مسلم تارکین کی کون پرواہ کرے گا۔اگر ایک آدھ جلوس نکل بھی گیا تو کیا فائدہ یا لوکل خبروں سے ہمدردی ملے گی تو کیا مدوا۔ ایسے میں برطانیہ میں اس طرح کے خط کیا لمحہ فکریہ نہیں۔ ہم نے بار بار انہی کالموں میں آنے والے خدشات کی نشاندہی کی لیکن ہمارے بھائیوں اور بہنوں نے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ برطانیہ کے مسلم ایم پی اور میئر حضرات جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں اپنی لگن میں مگن رہے ۔وہ تو مسلمان ملکوں کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک طوفان سر پہ نہ آجائے، حرکت نہ کرو۔سوچ اور مستقبل کی فکر نہیں روز کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں۔ قوم کو سچ بتانا گویا گنا ہ سمجھا جاتا ہے کہ کہیں مقبولیت کم نہ ہوجائے۔لیکن جب جان پر بن جائے تو مقبولیت کس کام کی کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا نہیں۔ اپنے مادر ملکوں کی طرح یہاں بھی بندر بانٹ، تفرقہ، تعصب، کیا کیا گنوائیں۔عید تو ایک دن منائی نہیں جاتی اور کیا اکٹھاکریں گے۔اپنی رٹ پر لگے رہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے وگرنہ ہم میں سب ٹھیک ہے۔ کبھی سوچا نہیں کہ اپنی صفوں کو بھی درست کریں اور جنہوں نے اس کی طرف توجہ دلائی انہیں مغرب کا ایجنٹ کہا۔غالبا اقبال نے اسی لئے تڑپ کر کہا تھاکہ کیا پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔دکھ اور افسوس اس امر پر ہے کہ سات سو سال کے مسلسل زوال کی کیفیت بھی مسلمانوں کو ہوش میں نہ لا سکا وہ اب بھی شام جیسے المیہ دہرانے پر مصر ہیںدعا ہے کہ افواہ صرف افواہ ہی رہے۔
تازہ ترین