• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بڑا ’’لیکن‘‘

محترم سلیم صافی نے اپنے حالیہ کالم ’’فوجی قیادت کی نئی سوچ اور زمینی حقائق‘‘ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بے شمار خوبیاں بیان کرتے ہوئے ایک ’’بڑا لیکن‘‘ لگا دیا اور کچھ ایسے سوال اٹھا ئے جو انتہائی مناسب، بروقت اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ صافی صاحب نے جنرل باجودہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد کچھ یوں لکھا:
’’مذکورہ اوصاف کے تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے بچا طور پر یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو دفاعی، مذہبی اور سماجی حوالوں سے اس ڈگر پر گامزن کردیں جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا لیکن (اور یہ ایک بڑا لیکن ہے) چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو اپنے ماتحت اداروں تک کیسے منتقل کریں اور اسے عمل کے روپ میں کیسے ڈالیں۔ بدقسمتی سے آج بھی عملاً گرائونڈ پر جو ہو رہا ہے، وہ بسا اوقات جنرل صاحب کی مذکورہ سوچ کا عکاس نہیں ہوتا۔ مثلاً جنرل صاحب کی سوچ ہے اور جو بالکل درست ہے کہ وائلنس اور جہاد پر ریاست کی اجارہ داری ہونی چاہیے۔ ان کی اس سوچ کو آج تک مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت نے چیلنج نہیں کیا لیکن صرف دو مذہبی لیڈر برملا ان کے اس بیانیے کے خلاف بول رہے ہیں اور بدقسمتی سے وہ دونوں آج بھی اداروں کے چہیتے ہیں۔ اسی طرح جنرل صاحب عدلیہ کے احترام کے لئے فکرمند ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ کے ساتھ جاری لڑائی میں ماتحت ادارے عدلیہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں لیکن ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو گالیاں دینے والے خادم حسین رضوی جیسے لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ وہ فوج کو سیاست سے لا تعلق کرنا چاہتے ہیں لیکن تعلقات عامہ سے متعلق ایک اہم محکمے میں بیٹھے بعض لوگ روزانہ اسکول کے مانیٹر کی طرح میڈیا کو ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی کم لیکن پرویز رشید کے انٹرویو جیسے داخلی سیاسی معاملات کی زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے۔ ماتحت اداروں کے بعض لوگ آج بھی اس مشن میں لگے ہیں کہ کس طرح میڈیا کو تقسیم کر دیں اور کس طرح میڈیا کے اندر بے وقار اور جھوٹے لوگوں کو محترم و مکرم ثابت کردیں۔ جنرل صاحب میڈیا سے متعلق بجا شکایات کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ایشوز کی بجائے شخصیات کو ڈسکس کرتا رہتا ہے۔ ان کی یہ تشویش بھی بالکل بجا ہے کہ بسا اوقات میڈیا پاکستانی اداروں اور معاشرے کے اندر سبورژن (subversion) پھیلانے کا موجب بن رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کام کرنے والے افراد اور میڈیا ادارے ہی عموماً ماتحت اداروں کے منظور نظر رہتے ہیں۔ جنرل صاحب سیاست کو گند سے صاف کرنے کے متمنی ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران آصف علی زرداری صاحب بلوچستان سے کراچی اور اسلام آباد سے پشاور تک جو گند کر رہے ہیں انہیں اس عمل میں بعض اداروں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ جنرل صاحب عدلیہ کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں اور عزم ظاہر کر رہے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے لیکن دوسری طرف عزیر بلوچ کسی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے پراسرار طور پر غائب ہے جبکہ سپریم کورٹ کے بار بار نوٹسز کے باوجود رائو انوار کو گرفتار کر کے پیش نہیں کیا جا رہا۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل صاحب اپنی مذکورہ سوچ کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے ماتحت اداروں میں ان لوگوں کی خبر لے سکیں جو ان کی سوچ اور خیالات کے برعکس سیاست، صحافت اور عدالت کو الٹ سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘اپنے اسی کالم میں صافی صاحب نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ جنرل باجودہ کے آرمی چیف بننے کے بعد اُن سے کوئی پانچ چھ مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں اس لیے اُنہوں نے جو اپنے کالم میں لکھا اُسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ صافی صاحب کا کالم پڑھ کر مجھے بحیثیت پاکستانی جس بات کی پریشانی ہوئی وہ یہ بات ہے کہ آرمی چیف کی سوچ اور بیانیہ کے برعکس اُن کے ماتحت اداروں میں کچھ لوگ ایسے کاموں میں مشغول ہیں جو سیاست، صحافت اور عدالت کو الٹ سمت لے جانا چاہتے ہیں ۔ صافی صاحب نے دعا کی جنرل صاحب اپنے ماتحت اداروں میں ان لوگوں کی خبر لے سکیں۔ اس دعا میںمیں بھی صافی صاحب کے ساتھ شامل ہوں لیکن اس دعا کے ساتھ ساتھ اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ جنرل باجوہ کو ایسا اس لیے ضرور کرنا چاہیے کیوں کہ بحیثیت منظم ادارہ فوج میں کسی فرد یا افراد کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس ملک کی سیاست، صحافت اور عدلیہ کے ذریعے بگاڑ پیدا کرے۔ اس سے نہ صرف ملک کو نقصان ہوتا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی اداروں کے خلاف افراد کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے جو کسی بھی طور مناسب نہیں ۔ صافی صاحب نے لکھا کہ جنرل باجودہ سیاست کے گند کو صاف کرنے کے متمنی ہیں جبکہ عدلیہ کو بھی متحرک بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور اُس کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی یقینی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جنرل صاحب سیاست کو کس طرح گند سے صاف کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کیا کوئی قانونی اور آئینی راستہ موجود ہے؟ ماضی میں جو بھی ایسی کوشش ہوئی اُس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جہاں تک عدالت کے متحرک ہونے کا سوال ہے تو اگر عدلیہ خود سے متحرک ہوتی ہے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر کسی کے کہنے پر عدالت active ہوتی ہے تو یہ وہ انتہائی خطرناک عمل ہے جس نے ہماری ماضی کو بار بار داغدار کیا۔ صافی صاحب کا کالم پڑھنے کے بعد میری جنرل باجوہ سے درخواست ہو گی کہ بحیثیت آرمی چیف اُنہیں اُن خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے جن کا تعلق اُن کے اپنے ماتحت محکموں سے ہے اور جن کا صافی صاحب نے اپنے کالم میں ذکر کیا۔ ایسا کرنا فوج اور پاکستان دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔

تازہ ترین