• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمیل الدین عالی نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں ابن انشاء کے بارے میں ایک واقعہ یوں تحریر کیا تھا:

٭…انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے سی۔ایم۔ایچ گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا گیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات ہی رہ گئی ہے کیونکہ علاج کافی وقت سے چل رہا تھا، ہم کئی بار یہاں آ چکے تھے۔

شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ میں اُسے کمرے میں لے آیا۔

محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے۔ میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے، میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں، میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپ کو دے رہی ہوں۔

انشاء جی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔

خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد انشاء جی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ میرا تو وقت آ گیا ہے، اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش و خرم رکھے۔ میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ اپنے عزیزوں سے مل آؤں جو کہ پنڈی میں رہتے تھے۔

دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم

'اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

رو رو کر سنائی جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ اردو ادب میں یہ نظم مجھے بہت پسند ہے۔ بہت کمال اور شاہکار ہے۔ انشاء جی پچاس سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے۔

… ابن انشاء …

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟

کچھ سال ،مہینے، دن لوگو

ہاں اپنی جاں کے خزانے سے

کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟

جب نام ادھار کا آیا ہے

کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں

کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزار برس

ہاں! سود بیاج بھی دے لیں گے

آسان بنے، دشوار بنے

تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے؟

کیوں اس مجمع میں آئی ہو؟

یہ کاروبار کی باتیں ہیں

ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے

گر شعر کے رشتے آئی ہو

اب گیت گیا سنگیت گیا

اب پت جھڑ آئی پات گریں

یہ اپنے یار پرانے ہیں

ان سب کے پاس ہے مال بہت

ان سب کو ہم نے بلایا ہے

تم جاؤ! ان سے بات کریں

کیا پانچ برس؟

تم جان کی تھیلی لائی ہو؟

جب عمر کا آخر آتا ہے

جینے کی ہوس نرالی ہے

کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟

پھر تم ہو ہماری کون بھلا؟

کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟

تم سوہنی ہو، من موہنی ہو

یہ پانچ برس، یہ چار برس

سب دوست گئے سب یار گئے

بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے

ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے

جب مانگیں جیون کی گھڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے

جو ساعت و ماہ و سال نہیں

"لو ا پنے جی میں اُتار لیا

اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟

پر سود بیاج کے بن لوگو

ہاں عمر کے توشہ خانے سے

کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟

کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے؟

جنہیں جاننے والے جانے ہیں

کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

دس پانچ برس، دو چار برس

ہاں! اور خراج بھی دے لیں گے

پر کوئی تو دیون ہار بنے

کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے؟

کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لائی ہو؟

یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں

سب عمر کی نقدی ختم کیے

تب سمجھو جلد جدائی ہو

ہاں شعر کا موسم بیت گیا

کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں

اک عمر سے ہم کو جانے ہیں

ہاں عمر کے ماہ و سال بہت

اور جھولی کو پھیلایا ہے

ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟

کیا پاگل ہو؟ سودائی ہو؟

ہر دن صدیاں بن جاتا ہے

ہے کون جو اس سے خالی ہے؟

تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے

ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟

کسی اور خراج کا لالچ ہے؟

تم جا کر پوری عمر جیو

چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

تھے جتنے ساہوکار، گئے

یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟

ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے

گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے

وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں

لو ہم نے تم سے اُدھار لیا"

تازہ ترین