کراچی(ٹی وی رپورٹ)بیرسٹرظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کاسفارتی پاسپورٹ کیسے جاری ہوا، وزارت داخلہ بہتر جانتی ہے، ملک میں دو قانو ن نہیں، نوا زشریف کیلئے الگ پرویز مشرف کیلئے الگ اصول ہے، نواز شریف کے صدارت معاملے پر ان کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا، عدالتوں کی طرف سے سابق وزیرا عظم یوسف گیلانی کیس میں ٹائم کی حد موجود نہیں جبکہ نواز شریف کیس میں ٹائم کی حد موجود ہے،پرویز مشرف کو پچھلے آرمی چیف کے حوالے سے بیان نہیں دینا چاہئے تھا لیکن اگر انہوں نے دیا ہے تو اس پر چیف جسٹس کو سنجیدگی سے ایکشن لینا چاہئے اور کارروائی کرنی چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پروگرام میں ماہر قانون اکرم شیخ اورصدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پیر کلیم خورشید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کاسفارتی پاسپورٹ کیسے جاری ہوا وزارت داخلہ بہتر جانتی ہے البتہ پاسپورٹ جاری کرنے کے رولز میں غالباً اس کی گنجائش موجود ہے، ذاتی طور پرکہتا ہوں کہ انہیں پاسپورٹ نہیں دینا چاہئے تھا، مشرف بہت سے مقدمات میں مطلوب لیکن انہیں سفر کیلئے قانونی دستاویز ضروری ہے، پاکستان کے قانون کے مطابق پاکستانی شہری سفر کیلئے چاہے مجرم ہویا ملزم سفری دستاویز لازمی رکھے گا ، پرویز مشرف اگر ملک واپس آنا چاہتے ہیں تو انہیں آنے دیناچاہئے، ان کا مقدمہ ایک خاص مقدمہ ہے لیکن سادہ مقدمہ ہے،1971کے آئین میں لکھا گیا تھا لیکن عملدرآمد نہ ہوسکا، اس کیس میں کافی عرصہ گزر جانے کے بعد سماعت نہیں ہوئی ہے، وفاقی حکومت اس سے بری الذمہ ہوچکی ہے، پاکستان میں انصاف کے پیمانے مختلف ہے اور یہ بات بھی معانی رکھتی ہے کہ آدمی کس لباس میں موجود ہے، جس کی مثال یہ ہے کہ ایوب خان جب واپس آئے تھے تو ان کی سب چیزیں معاف ہوگئی تھیں،ضیاء الحق آئے وہ بھی چلے گئے، پرویز مشرف کو معافی ملی ، نواز شریف کا صدارت معاملے پر ان کے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا، عدالتوں کی طرف سے وزیرا عظم کیلئے الگ پرویز مشرف کیلئے الگ اور اصول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ میں جب نا م ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے کیس بھیجا گیا تو وہاں سے یہ کہاگیا کہ نام غلط ڈالا ہے اورسپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا توانہیں جانے کی اجازت دی گئی، یہ دشمن کی قسمت میں کہا ں ہے کہ یہ تیرا شکار بنے، خنجراٹھے ہوئے ہیں، دوستوں کے سر سلامت رہیں ، ان کا کہنا تھا کہ سزا نواز شریف اور بھٹو کو ہوسکتی ہے انہیں نہیں ہوگی، بیرسٹر ظفر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو قانون ہے اس کے مطابق سب سے بڑا کیس غداری کا ہے،کرپشن کا نہیں ہے، یہاں پر سابق وزیرا عظم یوسف گیلانی کیس میں ٹائم کی حد موجود نہیں جبکہ نواز شریف کیس میں ٹائم کی حد موجود ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی پتا چل جائے گا جب مشرف واپس آتے ہیں تو ان کیخلا ف کچھ ہوتا ہے یا نہیں، بیرسٹر ظفر کا کہنا تھا کہ فوج کی اسلام سے محبت اور پاکستان سے محبت پر کسی کو شک نہیں ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی حکومت ہو، ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو پچھلے آرمی چیف کے حوالے سے بیان نہیں دینا چاہئے تھا لیکن اگر انہوں نے کہا ہے تو اس پر چیف جسٹس کو سنجیدگی سے ایکشن لینا چاہئے۔ ماہر قانون اکرم شیخ نے کہا کہ جو شخص انتہائی مطلوب ہے اور جائیدا د ضبطی کے آرڈر جاری ہوچکے ہیں،اسے سفارتی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جاتا، وفاقی حکومت کو اگر کچھ ابہام تھا تو انہیں عدالت کے سامنے بات رکھنی چاہئے تھی، عدالت کا کوئی حکم نہیں کہ انہیں سفارتی پاسپورٹ جاری کیا جائے، ان کا مقدمہ13دسمبر 2013سے چلنے والے مقدمات میں جب ان کی جنوری پیشی میں تھی تو وہ عدالت میں آنے کے بجائے اے ایف آئی سی چلے گئے تھے اور وہاں تین ماہ گزارنے کے بعد ان کی انجیو گرافی عمل میں نہیں لائی گئی، عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان کا وہاں علاج نہیں کیا گیا، موقف یہ سامنے آیا تھا کہ انجیو گرافی امریکا میں ہو، ان پر 31مارچ 2014میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جس میں عدالتے فیصلے کے پیرا گراف چار میں لکھا ہے کہ نہ انہیں تحویل میں لیا جائے اور نہ کسی طرح کی قدغن کا ارادہ ہے، عدالت جب مناسب سمجھے گی انہیں طلب کرسکتی ہے، فاضل عدالت نے یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے، جب عدالت نے حکم دیا تھا کہ شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر اور سابق وفاقی وزیرزاہد حامد کو شامل کیا جائے تو اس تفتیشی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیاء تھے، واجد ضیاء نے مشرف کے غداری کیس ٹرائل میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی، اکر م شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت نے مشرف کو 31مارچ کیلئے طلب کیا تھا، فاضل اٹارنی جنرل کے کہنے پر کیس سنا گیا جس کا فیصلہ سنایا گیا ، پرویز مشرف اس وقت پابند تھے 31مارچ 2016کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے کیلئے پابند تھے لیکن فاضل عدالت کو یہ بات گوش گزار نہیں کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی تو پرویز مشرف کی حرکت کو محدود کر سکتی تھی، جیسے وزیر داخلہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ چار مہینے میں آجائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی جتنی زیادہ قیمت ادا کی اتنی کسی کیس کی ادا نہیں کی، میر ی خواہش ہے کہ حکومت کے انجام تک پہنچنے سے پہلے یہ مقدمہ ختم ہوجائے، اس وقت نواز شریف کو بھی بتایا تھا کہ یہ مقدمہ مکمل ہوچکا ہے اور کہہ دیا تھا کہ اس مقدمے میں مداخلت مت کیجئے گا ، نواز شریف کا اس کیس میں دہرا معیار نہیں رہا،حامد میر کا سوال ماضی میں تو فوجی افسران پر مقدمات در ج ہونے کی صور ت میں ان کے اعزازت واپس لئے گئے۔