ایک ہی دنیا میں فنکار کی دو دنیائیں ہوتی ہیں۔ ایک اسے وراثت میں ملتی ہے، دوسری اسے خود تعمیر کرنی پڑتی ہے۔ اس کی تعمیر میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ گھر، گھر سے باہر کا ماحول، معاشرے کے اتار چڑھائو اور وہ انفرادی شعور جو مطالعے و مشاہدے کے ساتھ مسلسل اپنے دائرے کو بڑھتا رہتا ہے۔
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدم
وراثت اتفاق ہے اور بصیرت انفرادی استحقاق ہے۔ وراثت محفوظ راہوں کی سیاحت ہے اور بصیرت تنہائی کی شریعت ہے۔ وراثت سے انفرادی بصیرت تک کا سفر کئی پرپیچ راستوں سے گزرتا ہے۔ ان راستوں کے سفر میں وراثت میں سے بہت کچھ چھوڑنا اور بہت کچھ جوڑنا پڑتا ہے۔ نفی و اثبات کا یہ مسلسل عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ یہ عمل اساطیری مہابھرت سے مماثل ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ویاس کی مہابھارت میں دو فرقے نبردآزما ہیں اور کرشن گیتا کے اپدیشوں کے ذریعے ان کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن جس مہابھارت میں میرا فنکار شریک رہا ہے، وہ خارج میں، کسی میدان میں نہ ہوکر داخلی نوعیت کی تھی۔ اس انفرادی مہابھارت میں، میں خود ہی میدان تھا، خود ہی تیرکمان تھا اور خود ہی اپنی شکست و ریخت کا ترجمان بھی تھا۔
میں جہاں پیدا کیا گیا، اس میں میری مرضی کا عمل دخل شامل نہیں تھا۔ میں جہاں وجود میں آیا، وہاں پہلے سے ایک گھر تھا۔ گھر ایک محلے میں تھا، محلہ ایک نگر میں تھا اور وہ نگر ایک ملک کا حصہ تھا۔ اس گھر کی مخصوص تہذیب تھی۔ اس تہذیب کے اپنے ضابطے، قاعدے تھے۔
وراثت کے اتفاقات اور تجربات و مشاہدات کے تصادم میں میری شرکت اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب میں اچانک گھر سے بے گھر ہوا۔ یہ بے گھری میرا ذاتی انتخاب تھا۔ اس انتخاب کی وجہ میرے والدین کی گوالیار سے پاکستان ہجرت تھی اور میں اس ہجرت کا مخالف تھا۔ ان کی اپنی دلیلیں تھیں اور میرے اپنے جواز! وہ آزادی کے بعد سے سن 64,65ء کے فسادات تک ہندوستان کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے تھے۔
پاکستان کو ایک قومی مسکن سمجھتے تھے۔ میں دو قومی نظریئے کو سیاست کی بھول اور تبدیلی زمین کو بے اصول سمجھتا تھا۔ وہ اپنے فیصلے کے مطابق چلے گئے اور میں یہیں رہ گیا۔ اب میں گھر سے بے گھر تھا۔ بے گھری کا عذاب اس وقت میرا نصیب بنا جب گھر اور گھر والے میری مادی و روحانی ضرورت تھے۔ جب کچی عمر میں کچھ کھو جاتا ہے تو پہلے سے زیادہ جگمگاتا ہے۔ میری شاعری میں رشتوںکی لطافت اسی خودساختہ بغاوت کی دین ہے۔
ماں، باپ، بہن، بھائیوں کے ساتھ اس میں باربار نئے روپ میں ایک بچہ بھی ابھرتا ہے جو اس حسن و خیر کی علامت ہے جو کائنات سے آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی ہے۔ کھوئے ہوئے رشتے اور بچوں جیسے فرشتے میری ہر شعری کتاب میں نمایاں ہیں۔
یادوں کا یہ سلسلہ تاریخی اعتبار سے ان دنوں سے وابستہ ہے جب ترقی پسندی کی مخالفت میں جدیدیت ہر اس عمل کو غیر شاعرانہ گردانتی تھی جس کا کوئی سرا سماج، تہذیب یا معاشرے سے جڑتا تھا۔ جب آدمی کو باہر سے اندر کی طرف دھکیلا جارہا تھا، میں اپنے حالات کے تحت اندر سے باہر کی طرف آرہا تھا۔
ہر آرٹ، آرٹسٹ کا سیاحت نامہ ہوتا ہے لیکن یہ سیاحت دو طرح سے ترتیب پاتی ہے۔ ایک میں طے شدہ راہوں میں مستعمل منظروں کی گواہیاں رقم کی جاتی ہیں اور دوسرے طریق کار میں ہونے پر اصرار اور اپنے تجربے و مشاہدے کے معیار کو اہمیت دی جاتی ہے۔
میرے تخلیقی عمل میں میرا موضوع وہی دنیا رہی ہے جو مجھے دکھائی دیتی ہے یا جسے میں دیکھنے پر مجبور کیا گیا ہوں۔ اس میں وراثت کے اتفاق میں انفرادی استحقاق کی شمولیت ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔
لیکن سچ میرے یہاں جامد صورت میں نہیں رہا ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ مجھ سے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ میری پڑھی ہوئی کتابوں میں وہ کتاب کون سی ہے جو مقابلتاً سب سے اچھی محسوس ہوتی ہو؟ میرا جواب تھا کہ پڑھی ہوئی کتابوں میں اچھی تو بہت سی ہیں لیکن اگر شرط سب سے اچھی کو نامزد کرنے کی ہے تو وہ ابھی تک لکھی نہیں گئی، اسے خود لکھنا ہوگا۔
جواب دینے کے بعد مجھے اپنے جواب سے اطمینان نہیں ہوا۔ اس بے اطمینانی کی وجہ تھی زندگی اور اس کی ساخت! ہر آدمی ایک ہی زندگی میں کئی زندگیاں جیتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اس کی دیکھنے والی نظر یا نظر آنے والی دنیا پہلے سے مختلف ہوتی ہے۔ میرا ایک دوہا ہے۔
جیون کے دن رین کا کیسے لگے حساب
دیمک کے گھر بیٹھ کر لیکھک لکھے کتاب
ہر کتاب کو وقت کی دیمک چاٹ کر پرانا کردیتی ہے۔ کرشنا مورتی نے کہا ہے کہ ہر دن کے ساتھ ایک نئی دنیا جنم لیتی ہے۔ نیا سورج، نئی ہوائیں، نئے لوگ، نئے منظر سب کچھ نئے تعارف کا مطالبہ کرتا ہے۔ کرشنا مورتی ایک حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی بھی تبدیل ہوتی ہے۔ اسی فکر کو ڈاکٹر اقبال نے یوں زبان دی ہے۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
میرے ان تمام شعری مجموعوں میں میرے شعری سفر کا کردار سوانحی رہا ہے۔ عمر کے مختلف حصوں میں حالات و واقعات کے تحت میں جیسے جیسے بدلتا رہا، میرے دیکھنے اور سوچنے کے زاویئے بھی بدلتے رہے۔ اسی لئے میری ہر کتاب قاری سے نئے تعارفی مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔
یہ تقاضا اس لئے بھی ضروری ہے کہ میں نے کسی کتاب میں کسی تنقید نگار کی رائے کو شامل نہیں کیا۔ میرا یہ دانستہ رویہ شاعر و قاری کے راست رشتے کی اہمیت و اعتبار پر دانستہ اصرار ہے۔
میرے شعری سفر کی ابتدا مدھیہ پردیش کے ایک شہر گوالیار سے ہوتی ہے۔ میرے پہلے مجموعے ’’لفظوں کا پل‘‘ کی بیشتر غزلیں اور نظمیں، میری زندگی کے اس موڑ کی عکاسی کرتی ہیں جب میں گھر سے بے گھر نہیں ہوا تھا۔ گھر میں الگ طرح کا ادبی ماحول تھا۔
میرے والد دعاڈبائیوی، داغ اسکول کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان کی وجہ سے بچپن کی سماعتوں میں اس دور کے کئی شہری اور بیرونی اساتذہ کا زبان و بیان کے لحاظ سے چست و درست کلام محفوظ ہوتا رہا۔ داغ اسکول سے متعلق شعراء کلام داغ کو سند کا درجہ دیتے تھے۔
زبان و بیان کا ہر تنازع استاد کی سند سے حل ہوتا تھا لیکن گھر کے ماہر کا ماحول قدرے مختلف تھا۔ کالج میں جن دوستوں کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا، ان میں کئی تہذیبوں اور زبانوں کے ادیب و شاعر تھے۔ ہندی، مراٹھی، انگریزی، بندیل کھنڈی میں سنی ہوئی اور پڑھی ہوئی شاعری اس طرزسخن سے جدا تھی جو میری یادداشت کی وراثت تھی۔ گھر میں پہلے سے کہے ہوئے کو نئے لفظوں میں دہرایا جاتا تھا اور گھر سے باہر اپنے دیکھے ہوئے کو بدلے ہوئے لفظوں میں دکھایا جاتا تھا۔
میری شروع کی شاعری، گھر کی وراثت اور گھر سے باہر کی زمینیت کے امتزاج سے مرتب ہوئی ہے۔ اس میں دیکھے ہوئے کو دکھانے کی جسارت بھی ہے اور زبان و بیان کی وہ روایت بھی ہے جسے تعمیری عمر کی سماعت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ’’لفظوں کا پل‘‘ کا بیشتر تخلیقات، ایک پرسکون گھر اور اس کی چہل پہل اور گھر سے باہر کی قصباتی فضا کی ہم قدم ہیں۔
(جاری ہے)