• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سائنس پر ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں

حیرت ہوتی ہے ہم کس زمانے میں جی رہے ہیں، کیا عجوبہ فضا ہے کہ ایک طرف انسانی عقل و علم چھلانگیں مارتا ہر دس سال کے دوران پچھلے عشرے کو گویا ایک صدی پیچھے چھوڑتا اس تیزی سے آگے جا رہا ہے کہ ایک ’’طالبعلم‘‘ کیلئے اس کا پیچھا کرنا دشوار ہو گیا ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ اگلے مرحلے پر سائنسی ریسرچ تباہ کاریوں کا نیا حربہ نکال لے گی یا تعمیروترقی و سلامتی کا سروسامان۔ گزشتہ برس کی تو بات چھوڑیئے، اس نئے برس یعنی 2018ء میں خلائی پروگرام یا اسٹار ورلڈ اتنا آگے جا چکا ہو گا کہ روئے زمین کو ستاروں کی گزرگاہ پر خلائی اسٹیشن کا کوئی بٹن دبا کر تباہ کیا جا سکے گا۔ ایک خوشخبری سائنس نے یہ دی ہے کہ وہ شے جسے جین (Gene) کہتے ہیں وہ حتمی طور پر دریافت ہو گیا ہے جسے کینسر یا سرطان کا توڑ کہا جا سکتا ہے۔ کسی زمانے میں ہیضے کی وبا، طاعون کی وبا، ملیریا کی، گردن توڑ بخار کی، یرقان کی یا ایڈز کی وبا جان لیوا شمار ہوتی تھی۔ گزشتہ صدی میں ان سب وبائوں کا توڑ ملتا گیا اور آج ترقی یافتہ ملکوں میں (ان میں سے ایک ملک جہاں میں بھی رہتا ہوں) کوئی ان بیماریوں سے خوفزدہ نہیں، سب کے معالج ہیں، اسپتال ہیں، فوری علاج کے اور انسدادی تدابیر کے انجکشن موجود ہیں جن تک غریب و امیر سب کی رسائی ہے۔ تمدّن، تدبیر اور بین الاقوامی ریسرچ اداروں کی بہ دولت آج انسانی عمر کا اوسط بڑھتا جا رہا ہے لیکن ایک ’’بلا‘‘ ایسی ہے کہ انسان کو اس کا علم تو صدیوں سے ہے، بھرپور علاج اب تک دریافت نہیں ہوا اور نہ ٹھیک ٹھیک یہ دریافت ہو سکا کہ مرض کی جڑ کہاں ہے؟ یہ مرض ہے کینسر جسے عربی میں ’’سرطان‘‘ کہتے ہیں۔ حکیم بو علی سینا نے کتاب ’’القانون‘‘ میں یہی نام درج کیا ہے۔ برج سرطان کی شکل رسدگاہوں میں دیکھی جو کہ کیکڑے کی سی تھی۔ اسے کیکڑا یا سرطان بھی کہتے ہیں۔ یہی لفظ اسی معنیٰ میں لاطینی سے انگریزی میں کینسر اور بعض یورپی زبانوں میں ’’راک‘‘ یعنی کیکڑا کہلایا۔ خدا جانے خون میں، ورثے میں، ہوا میں، غذا میں، تنفس کی راہ سے، منہ، ناک یا لمس کی راہ سے کون سی نامعلوم شے نفوذ پا جاتی ہے کہ پھر وہ کیکڑے کی طرح ہاتھ، پائوں پھیلا کر تیزی سے پہلو کو زہرآلود کر دیتی ہے۔ پتہ چلا کہ تمباکو کھانے، پینے والے اس کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ڈر کے مارے ہزاروں لوگوں نے سگریٹ، تمباکو نوشی ترک کر دی۔ پھر ہم جیسوں کے علاوہ خدا کے نیک بندوں میں بھی یہی مرض پایا گیا جو نہایت احتیاط سے پاک صاف اور باوضو رہتے ہیں۔ پھر بچّوں کی اموات کینسر سے ہوئیں۔ ہر ایک ترقی یافتہ ملک میں کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کھلے ہوئے ہیں۔ کروڑوں ڈالرز و یورو کی رقم اس پر خرچ کی جا رہی ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ کینسر کے ابتدائی مرحلے پر تو اس کا توڑ ہو بھی جاتا ہے، اس مرحلے سے آگے اگر مرض پہنچ گیا تو پھر ڈاکٹر حضرات مریض کو تجربات کا نشانہ بنا لیتے ہیں کہ مریض کے بچنے کی آس معدوم ہو جاتی ہے۔ ہر بار کہیں نہ کہیں سے خبر آتی ہے کہ ریسرچ کرنے والوں نے مرض کی جڑ پکڑ لی ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ جس پر ہاتھ پڑا وہ کینسر کی جڑ نہیں تھی۔ اب جا کر نیویارک سے خوش آئند خبر ملی ہے کہ یہ راز دریافت ہو گیا ہے کہ کچھ لوگوں میں کینسر کا شکار ہونے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ کیوں ہوتی ہے اور کیسے یہ موروثی مرض بن جاتا ہے، کیسے پھیلتا اور گرفت سے نکل جاتا ہے اور یہ سب کچھ طبّی سائنس کی دین ہے۔ ’’جین‘‘ کیا ہے؟ چار چیزوں کی پہلی شکل کا مادہ یعنی خون، بلغم، سودا، صفرا، زرّے سے بھی کم حتّیٰ کہ ننگی آنکھ سے بھی نظر نہ آنے والا لیکن اثرات کو آگے لے جانے والا، وجود کی تشکیل میں تاثیر دکھانے والا مادّہ۔ جتنے لفظ جین سے بنے ہیں ان سب میں تولید اور تناسل مشترک ہے۔ ہمارے عام الفاظ جیسے جنتی، جن، جنا، جنتا، جننا وغیرہ اسی جین سے ماخوذ ہیں اور اسی مادّے کے حوالے سے (Genetic) اور جنیالوجی بنے ہیں۔ ظاہر ہے صدیوں سے ہم نے جین کو مادّہ اولیٰ میں شامل یا اس کی بنیادی اینٹ مان لیا تھا اور یہ بھی جان لیا تھا کہ خون میں کہاں کہاں اس کی تاثیر چھپی ہوئی ہے لیکن ہمیں نہ تب معلوم تھا اور نہ اب تک قطعی طور پر معلوم ہوا ہے کہ بدن کے اندر نسوں اور رگ، پٹھوں میں، پہلو کی نالیوں میں یا خون کے اجزا میں یہ کیکڑا پنپتا کیسے ہے؟ اسے پنپنے سے پہلے ختم کرنے اور بھسم کر ڈالنے تک تو طبی سائنس پہنچ گئی تھی لیکن اس کے انڈے یا بچّے دینے کے گھونسلے کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ تمباکو نوشی سے جو سوزش ہوتی ہے وہ کینسر کی رفتار تیز ضرور کرتی ہے لیکن رفتار سے پہلے اس کی آماجگاہ…؟ خیر اب پوری امید ہے کہ ’’مجرم‘‘ کے ہاتھ، پائوں باندھ دیئے جائیں گے۔ کینسر کا موضوع آج کل بائیولوجی میں تفصیل سے پڑھایا جانے لگا ہے لیکن پھر بھی پاکستان ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں کینسر کا ابتدائی مرحلے میں حتمی پتہ نہیں چلتا۔ چھوٹے پیمانے پر چند لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں لیکن بڑے پیمانے پر کسی انسٹیٹیوٹ یا ریسرچ پروگرام کی کشور حسین سے نوید نہیں آئی ہاں البتہ کینسر کے علاج کا چند اسپتالوں میں انتظام ضرور کیا گیا ہے جن میں معروف کرکٹر عمران خان نے اپنی مرحومہ والدہ کے نام پر قائم ہونے والے اسپتال میں علاج کرنے کی اعلیٰ پیمانے پر کوشش کی ہے۔ میرے حساب سے عمران خان سیاست کو خیرباد کہہ کر اگر رفاہی کاموں پر توجہ دیں تو یہ عوام کے حق میں کہیں بہتر ہو گا کہ پاکستان کو عمران خانوں سے زیادہ سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔ کیا میں نے غلط سوچا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk

تازہ ترین