کرامت بخاری
شام ِغم آ گئی تھی، رستے میں
راستے، راستوں میں اُلجھے تھے
فاصلے، فاصلوں میں پھیلے تھے
کتنی صدیوں سے جل رہا تھا میں
زیست کے بے کنار صحرا میں
ایک مشکل سا موڑ آیا تھا
میں نے سمجھایا تھا اُسے، لیکن
بات اُس کی سمجھ میں آئی نہیں
زندگی خود بھی ہو گئی زخمی
اور مجھ کو بھی کر دیا گھائل
اب ہے جیون، جنوں پر آمادہ
اب گریباں کو چاک ہونا ہے
دشت ِغربت ہے اور غربت میں
ہم کو صحرا کی خاک ہونا ہے