حضور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں رحمۃ للعالمین کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اللہ کی طرف سے نبی پاک ﷺ کو یہ خطاب عطا ہونا عالم انسانیت کے لئے نہایت ہی مبارک ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ صرف مسلمانوں ہی کے لئے ہی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لئے رحمت ہیں۔ آپ ﷺ کی آمد ہمارے لئے اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے جس کے لئے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائے، کم ہے۔
مفاہتمی عمل کے لئے پائیدار حکمت عملی کی تشکیل تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں پاکستان اور پوری دنیاکے موجودہ حالات کے تناظر میں نہایت اہم موضوع ہے۔مفاہمتی عمل کیا ہے ؟اس سے مراد نزاعی یا اختلافی معاملات کوافہام و تفہیم اور باہمی تعاون کے ذریعے حل کرنے کے لئے کوئی راستہ نکالنا ۔
حقیقت یہ ہے کہ خواہ ایک گھر کا کوئی معاملہ ہویا ملک کا اندرونی اور بیرونی مسئلہ،مفاہمتی عمل کے بغیر معاملات کا حل نکالنا دشوار ہوتا ہے۔ آپس میں لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہو یا ملک کی مختلف سیاسی جماعتوںکے اختلافی امور ہوں یا اسی طرح ملک کے بیرونی معاملا ت ہوں سب کا حل مفاہمتی عمل ہی کے ذریعے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔مفاہمتی عمل کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام کے درمیان تلخی کی بجائے جذبہ خیر سگالی کو فروغ حاصل ہو اور دنیا میںامن و سلامتی اورپیار و محبت کی فضا قائم ہو۔رسول اکرم ﷺ کی زندگی ایک مسلسل مفاہمتی عمل کا نمونہ ہے ۔آپ ﷺ نے جنگ وجدل کی بجائے مفاہمتی عمل سے لوگوں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔حضوراکرم ﷺ نے تکریم انسان کی داغ بیل ڈالی۔ انسان تو انسان آپ نے جانوروں اور شجر و حجر کی بربادی کو ردّ کردیا۔
آپ ﷺ کی طرف سے حجر اسود کی تنصیب کا معاملہ ہمارے سامنے ہے کہ اس اہم معاملے کو آپ ﷺنے کس مفاہمانہ حکمت عملی سے حل کیا کہ قبائل کے مابین خوں ریز تصادم کے خطرے کوبا وقار طریقے سے ہمیشہ کے لئے حل کر دیا ۔ آپ ﷺ کے مفاہمتی عمل کی سب سے بڑی، عمدہ اور اعلیٰ مثال صلح حدیبیہ ہے۔اس کی تکمیل پر اسے فتح مبین قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں مکہ مکرمہ کی عظیم الشان فتح ہوئی۔
اس عظیم فتح مبین کے بعد دشمنوں کی عام معافی کا عظیم الشان اعلان مفاہمتی عمل کی طرف رہنمائی کا وہ عظیم دھارا ہے جس کے سوتوں سے اخوت ومحبت اور عظمت انسانی کے سرچشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد عام معافی کے اعلان سے اسلامی تحریک کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔مفاہمتی عمل کی دوسری بہترین شاہ کار مثال میثاقِ مدینہ ہے، جس کے ذریعے مدینہ مسلمانوں کا مرکز بن گیا۔ میثاق مدینہ ایک تاریخی اور تحریری معاہدہ تھا،جس میں حضوراکرمﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے انہیں مذہبی،عدالتی اور قانونی آزادی کی ضمانت فراہم کی ۔
حضور اکرمﷺ کے سامنے اہل طائف کا معاملہ ہو،یا نجران کے عیسائیوں کامعاملہ ہو ،یہود کے ساتھ برتائو کا معاملہ ہو، آپ ﷺ کی طرف سے مفاہمانہ طرز عمل میں کمی نہیں آئی۔ غزوۂ بدر کے میدان میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے افراد اُس پانی کے حوض پر آئے جو کہ اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا ، مسلمانوں کی فوج نے حوض اپنی ضروریات کے لئے بنایا تھا ۔
مشرکین کو پانی دینے سے روکنا چاہا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ انہیں پانی سے نہ روکو،بلکہ انہیں پانی پینے دو۔اس واقعے میں حضور اکرم ﷺکا مفاہمتی عمل میدان جنگ میں بھی نظر آتا ہے جو انسانی عظمت و رفعت کی بلند ترین مثال کہلائی جا سکتی ہے۔
ہم اس رسول ﷺ کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔جن کی رحمت اور محبت اپنے اور غیروں سب کے لئے ہے۔ آپ کے لائے ہوئے نظام کا مقصدصرف اپنی فلاح اور مسلمانوں ہی کی بہبود نہیں تھا،بلکہ اس کا مقصدانسانیت کی فلاح اور ترقی تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام تلوار کی بجائے تبلیغ کے ذریعے مقبول ہوا۔اسلام کی مختصر عرصے میں مقبولیت کی بنیادی وجہ حضور اکرم ﷺ کا حسن سلوک اور مفاہتی رویہ تھا۔ دنیا میں مفاہمتی عمل کی ضرورت جتنی آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔آبادی میں اضافے کی وجہ سے وسائل پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور وسائل کا حصول بنیادی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔
مفادات کے ٹکرائونے مختلف باہمی اختلافات کو جنم دیا ہے جس سے دنیا میں ایک مقابلے کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔مفادات کے ٹکرائو میںانسان بقائے باہمی کے اصولوں سے بے نیاز ہو گیا ہے،لیکن تمام تضادات اور اختلافات کے باوجود اقوام عالم سیاسی،معاشی، ثقافتی، مذہبی اور دفاعی تعلقات قائم کر رہی ہیں ،جن میں مفاہمت کا عنصرنمایاں ہے، کیونکہ آج کا انسان ایک عالمی شہری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، لہٰذا اس پس منظر میں مفاہمتی طرزِ عمل مزید اہمیت کا حامل ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا یہ خاصا رہا ہے کہ مسائل سے الجھنے کی بجائے ان کے حل کے لئے افہام و تفہیم کی راہیں نکالی جائیں، تاکہ مفاہمت کا عمل آگے بڑھے اور زندگی کا سفر کامیابی سے آگے کی طرف بڑھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسوۂ نبوی ﷺکی پیروی میںدنیا و آخرت کی بہبود مضمر ہے، یہی وہ راستہ ہے،جسے اپنا کر ہم دین و دنیا میں سرخ رو ہو سکتے ہیں۔میانہ روی ، فلاح عامہ، احترام ِ انسانیت، باہمی رواداری اور تحمل و برداشت سیرتِ طیبہ کے نمایاں پہلو ہیں۔ہم پر لازم ہے کہ ہم سیرتِ نبویؐ کو اپناتے ہوئے اپنے مذہبی اور معاشرتی فرائض بجا لائیں اور دنیا میں امن وسلامتی اور اخوت کا پیغام عام کردیں، تا کہ یہ دنیا امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
اسلام مفاہمت، رواداری،ہم آہنگی ، امن، محبت اور سلامتی کا دین ہے۔ اسلام دین رحمت ہے، ہم مسلمان اسی عالمین کے لئے رحمت قرار دی گئی ہستی کے پیروکار ہیں۔
حضور پاک ﷺ کی تعلیمات مفاہمتی عمل پر مبنی ہیں۔اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے، وہی انسان او ر انسانی فطرت کا خالق ہے، اس نے اپنے بندوں کے لئے جو بہترین تحفہ انسانیت کے لئے چُنا ہے، وہ حضور اکرمﷺ کی آفاقی شخصیت ہے،اس وقت تمام مسلمانوں بالعموم اور ہم پاکستانیوں کو بالخصوص مفاہمتی عمل کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ،کیوںکہ آج علاقائی ، لسانی، گروہی، مسلکی اور مذہبی فرقہ بندی نے ہمیں پارہ پارہ کیا ہوا ہے۔
دوسری قومیںہماری اس کمزوری سے خوب فائدہ اُٹھا رہی ہیں ۔ وطن عزیز پاکستان میں علاقائی اور فرقہ وارانہ انتشار کے سبب عالمی قوتوں کوانتشار پھیلانے کا خوب موقع میسر ہوا ہے۔ غیروں کی کوشش یہی ہے کہ ہمارے حصے بخرے کرکے ہماری مفاہمتی قوت کو غیر موثر کیا جائے اور یوں ہم آپس میں لڑتے جھگڑتے ختم ہو جائیں،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات مفاہمتی حکمت عملی کی روشنی میں حل کرنے کی طرف توجہ دیں ۔
حضور اکرمﷺ نے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ۔مسلمانوں کی بقا اور سربلندی باہمی اتفاق اور مفاہمتی حکمت عملی میںمضمر ہے ۔ مسلمانوں میں مفاہمت کرانا عبادت سے بھی افضل عمل بتایا گیا ہے ۔