ارشادِ ربانی ہے:تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ کرو، اس اخلاقی درس کو ہرگز نہ بھولو،ہر جگہ اورہروقت اسے یاد رکھو‘‘۔ایک حدیث نبوی ؐ کے مطابق مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو۔اخلاق، خُلق سے ہے،خُلق کے لغوی معنی ہیں،عادت اور خصلت اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی، مروت، اچھا برتاؤ، اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں ۔اخلاق کی دو قسمیں ہیں:ایک عام اخلاق اور دوسرے اعلیٰ اخلاق ۔
اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیساکرے گا،میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا۔ یعنی جو شخص اس سے کٹے، وہ بھی اس سے کٹ جائے،جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے،جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لیے برا بن جائے، یہ عام اخلاق ہے۔
اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پروا کیے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔اس کا اخلاق اصولی ہو ،نہ کہ جوابی اور اس اخلاق کو وہ ہرجگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، وہ جوڑنے والا ہو ،حتیٰ کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے براسلوک کرے، اور وہ نظر انداز کرنے والا ہو، حتیٰ کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔
اگر انسان کی طبیعت اور عادت اچھی ہوگی تو کہا جائے گا اُس کے اخلاق اچھے ہیں اور اِسی کی تعلیم ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے دی۔ صحابۂ کرامؓ، صوفیائے عظام، اولیائے کرام جو کہ اتباعِ رسول ﷺکا عظیم پیکر ہیں۔
اُنہوں نے سنتوں پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاری۔روحانی زندگی کے ابتدائی زمانے میں نبی کریمﷺ کے اقوال پر عمل کیا اور روحانی زندگی کے درمیانی زمانے میں نبی کریمﷺ کے اعمال کی اقتداء کی، نتیجتاً اُن میں نبی کریم ﷺکے اخلاق جھلکنے لگے اور اُن کی شخصیت کو منور کرتے رہے۔
حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم لوگ امّعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ براکریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ برا سلوک کریںگے، بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں، تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ براسلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں، نبی کریم ﷺنے مجھ سے فرمایا: اے میرے فرزند! اگر تم سے ہو سکے تو تم صبح و شام ایسی زندگی بسر کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے خلاف میل نہ ہو۔ اِس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’یہی میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا، وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
اخلاق و عادات کی اصلاح اُسی وقت ممکن ہے، جب نفس کا تزکیہ یعنی صفائی کی جائے اور نفس کا تزکیہ اُسی وقت ممکن ہے ،جب شریعت کی قیادت کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔پیارے آقاﷺ کی سیرت مبارکہ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ نبی کریمﷺ کے اخلاق عالیہ کی نظیر پوری کائنات میں نہیں مل سکتی۔
آپﷺ کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی سائل کو انکار نہ فرمایا، آپﷺ سب سے زیادہ سخاوت فرماتے، کوئی درہم و دینار نہ رکھتے، سب تقسیم فرمادیتے، اگر رقم بچ جاتی اور کوئی ایسا نہ ملتا جسے رقم دے سکیں تو اُس وقت تک گھر جاکر آرام نہ فرماتے جب تک وہ تقسیم نہ فرمادیتے جو کچھ ہوتا سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے، کپڑوں میں پیوند لگالیتے، گھر والوں کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے عظیم اخلاق کے بارے میں خود قرآن پاک میں اعلان فرمادیا: وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیم۔یقیناً آپﷺ کے اخلاق عظیم الشان ہیں۔یعنی آپ ﷺ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ سورۂ النور میں تمثیلی پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے مشکوٰۃ (نبوت) کے لفظ سے آپ ﷺ کی مثال پیش کی ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدائی نور کے لئے خلق مجسم ہونے کی بناء پر دریچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح آپ کو واسطہ بنائے بغیر خدائی نور سے فیض یابی ممکن نہیں، اسی طرح آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنائے بغیر نورِ ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ سیرت پاک کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ ﷺ نے حق کی تبلیغ کےلیے خلقِ عظیم ہی کو اپنایا اور اسی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔
آپ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اخلاق حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ امام غزالی کی احیاء علوم الدین سے چند ایک ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! دین کیا ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔ آپ ﷺ سے سوال ہوا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ فرمایا: اچھا خلق۔نیز فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جنت میں صرف اچھے خلق والا ہی داخل ہو گا۔
مسند احمد کی ایک روایت میں تو آپ ﷺ نے ایمان کی تعریف بھی اچھے اخلاق سے کی۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا۔ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا: نرمی اور صبر۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:آپﷺ کا اخلاق قرآن کریم ہے۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ خُلق سے مراد یہاں یہ ہے کہ نبی کریمﷺ قرآن کریم کی عملی تفسیر ہیں۔ موطا امام مالک میں ہے ،نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میںحسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
حضرت ابو درداءؓ روایت کرتے ہیں۔حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :جو چیزیں (کل قیامت میں ) میزانِ عمل میں تولی جائیں گی ،ان میں اچھے اخلا ق سب سے زیادہ وزن والے ہوں گے۔ اس لیے کہ اچھے اخلاق والا شخص روزے دار اور نماز ی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی )
اسامہ بن شریک ؓ سے روایت ہے آنحضور ﷺنے ارشادفرمایا :اللہ کا (سب سے )پسندیدہ بندہ وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے۔(طبرانی)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ روایت کرتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔(صحیح بخاری )
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :اچھے اخلاق جنت کے اعمال ہیں ۔(طبرانی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : اچھے اخلاق دس ہیں ،جوبعض اوقات ایک انسان میں ہوتے ہیں لیکن اس کا بیٹا ان سے محروم ہوتا ہے اور بسااوقات بیٹے میں ہوتے ہیں، جبکہ اس کا باپ ان سے تہی دست ہوتا ہے ۔ کبھی غلام میں ہوتے ہیں لیکن اس کے مالک میں نہیں ہوتے (درحقیقت )اللہ تبارک وتعالیٰ ان (خوبیوں )کو اس کے لیے مقدّر فرماتا ہے جسے وہ نیک اور سعادت مند بنانا چاہے۔ (وہ اخلاق درج ذیل ہیں) گفتگو کی سچائی۔
فقرِ اختیاری۔ سائل کو عطاکرنا۔نیکی کرکے بدلہ اتارنا۔ امانت کی حفاظت۔ صلۂ رحمی(رشتے داری کو برقرار رکھنا اور عزیز واقارب سے حسن سلوک)۔پڑوسی اور دوست کے لیے (کسی خدمت میں )عارمحسوس نہ کرنا۔مہمان کی تکریم کرنا اور ان سب کی بنیادی بات شرم وحیاء ہے۔(بیہقی،شعب الایمان )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :جس کے اخلا ق اچھے ہوں وہ کامل ترین ایمان والا ہے اور تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہو۔(ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : اچھے اخلاق اللہ کی طرف سے ہیں، اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ،اسے اچھے اخلاق سے نوازتا ہے ۔ (طبرانی)
حسن اخلاق کی نعمت سے مالا مال شخص دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺکی محبت کا لازوال انعام بھی پاتا ہے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: تم میں سے مجھے سب سے اچھا وہ لگتا ہے جس کے اخلاق بہت اچھے ہوں، صرف یہی نہیں حسن اخلاق سے متصف خوش نصیب کو سرکارﷺ کی قربت بھی نصیب ہوگی۔
چناںچہ جامع ترمذی میں روایت ہے ،نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: تم میں سے مجھے وہ شخص زیادہ محبوب ہے اور قیامت کے دن وہ ہی میری مجلس کے زیادہ قریب ہوگا جس کے اخلاق بہترین ہوں گے۔ حسن اخلاق ایمان کے کمال اوربہترین انسان ہونے کی بھی دلیل ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے حسن اخلاق کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تین چیزوں کا نام اخلاق ہے :ملاقات کے وقت دوست ہویا دشمن، اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک سے کشادہ روئی،خندہ پیشانی اور خوش دلی سے پیش آنا ۔بخشش اور سخاوت کرنا۔ایذا رسانی سے باز رہے ۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ جب میں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور میں روانہ ہونے لگا تو پیارے نبیﷺ نے مجھے آخری وصیت اور نصیحت یہ فرمائی’’اے معاذ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنا‘‘ میرے آقاﷺ نے صرف حضرت معاذ بن جبلؓ ہی کو نہیں، بلکہ تمام امت کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا جائے،یقیناً آقا ﷺکی نصیحت بہترین نصیحت ہے اور اِس پر عمل کرکے ہم اچھے انسان بہترین مسلمان اور نبی کریم ﷺکے پیارے امتی بن سکتے ہیں۔