حضرت حسن بصریؒ کے عہد میں عتبہ اَلغُلام نامی ایک شخص تھا، جس کے ظلم وستم کی داستانیں مشہور تھیں،ایک دن وہ حضرت حسن بصریؒ کی محفل میں آیا، اُس وقت وہ قرآن مجید کی یہ آیت اقدس تلاوت فرمارہے تھے کہ کیا مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ سے ڈریں۔
آپ نے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے۔ عتبہ الغُلام نامی ظالم شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے بندۂ مومن!کیا مجھ جیسے فاسق و فاجر کی توبہ بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمالے گا ؟ آپ نے فرمایا: ’’بے شک ‘‘۔ جب عتبہ الغلام نے یہ بات سنی تو اُس کا چہرہ زرد پڑ گیا اوروہ کانپتے ہوئے چیخ مارکر بے ہوش ہو گیا۔
جب اُسے ہوش آیا تو حضرت حسن بصریؒ ؒنے اُس کے قریب آکراللہ کی رحمتوں اور بخشش پرمبنی دردناک اشعار پڑھے، جنہیں سن کرعتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہو گیا، جب ہوش آیا توکہنے لگا: حضرت! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ رب کریم قبول کر لے گا ؟حضرت حسن بصری ؒ نے کہاکہ درگزر کرنے والا رب،ظالم بندے کی توبہ بھی قبول فرما لیتا ہے۔
اُس وقت عتبہ نے سر اٹھاکر اللہ سے تین دعائیں کیں:’’ اے پروردگار! اگر تُونے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآن مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
اے پروردگار! مجھے ایسی آواز عنایت فرما کہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہو جائے اور اے پروردگار! مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تصور بھی نہ کر سکوں۔اللہ تعالیٰ نے عتبہ کی تینوں دعائیں قبول فرمالیں۔
اُس کا حافظہ اور فہم و فراست حیرت انگیزطورپر بڑھ گئی اور آوازمیں ایسی رقت پیداہوگئی کہ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا توہرسننے والا گناہوں سے تائب ہو جاتا اور اُس کے گھر میں ہر روز ایک پیالہ شوربے کا اور دو روٹیاںرزقِ حلال سے پہنچ جاتیں اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے ۔
اس حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کی مانند ہوتا ہے کیونکہ گناہ کی حقیقت ہے رب سے دوری اور توبہ کی حقیقت ہے رب سے قرب اورنزدیکی، لہٰذاجوشخص سچے دل سے توبہ کرلیتا ہے،وہ اللہ کے قریب ہوجاتاہے۔