• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باجوہ ڈاکٹرائن اور جوڈیشل ایکٹو ازم سے لے کر ایگزیکٹو کے محدود ہوتے دائرۂ اختیار تک

باجوہ ڈاکٹرائن اور جوڈیشل ایکٹو ازم سے لے کر ایگزیکٹو کے محدود ہوتے دائرۂ اختیار تک

اسلام آباد (تجزیہ: انصار عباسی) باجوہ ڈاکٹرائن فوج کے آئینی مینڈیٹ سے آگے بڑھ گیا ہے اور کبھی کبھار فاضل چیف جسٹس ثاقب نثار کی جوڈیشل ایکٹوازم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ دونوں سویلین حکومت کے دائرۂ اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں اور آخر الذکر کے موقف کا بھرپور انداز سے دفاع کرنا اس وقت مشکل ہوجاتا ہے جب ایگزیکٹو بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو جاتی ہے اور سیاسی حکمران کارکردگی نہیں دکھاتے۔ تاہم، تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کی وجہ سے پہلے سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے، جوڈیشل ایکٹوازم کو بھی مسائل کے حل اور ادارہ سازی میں ایگزیکٹو کی مدد کی بجائے توجہ کے حصول کیلئے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ جمہوریت یا منتخب حکومت کے دفاع میں ارتقائی عمل کے دلیل اس وقت مقبول معلوم نہیں ہوتی جب منتخب حکمران نظام میں واضح طور پر نظر آنے والی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ وہ ادارہ سازی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے، اصلاحات سے نفرت کرتے ہیں اور انتخابی منشور میں جو وعدے کرتے ہیں انہیں وفا کرنے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے۔ ایسے رویّوں کے ساتھ جمہوریت کا دفاع کرنا ممکن نہیں اور سویلین بالادستی تو بہت دور کی بات ہے۔ مثلاً، مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے بڑے منصوبوں، بجلی کی پیداوار اور دہشت گردی کی روک تھام کے معاملے میں تو اچھا کام کیا لیکن ادارہ سازی، سویلین بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے، تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے اور صحت کی سہولتیں مہیا کرنے ، قانونی اصلاحات اور سستے انصاف کی فراہمی، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر جیسے اداروں میں بہتری لانے کے معاملے میں کچھ نہیں کیا یا پھر بہت کم اقدامات کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا سطور میں بیان کی گئی ہر بات، جو ایک عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے اہم ہے، مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے انتخابی منشور کا حصہ تھی لیکن پارٹی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ ان باتوں پر دھیان دے۔ سیاسی حکومتوں کا ایسا رویہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کے مقدمے کو کمزور کرتا ہے، اور اس طرح اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشل ایکٹو ازم کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ ثابت طور پر اسٹیبشلمنٹ کی مداخلت معاملات کو مزید خراب کرتی ہے، صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہے اور اداروں کی بیماری میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ جو کچھ بھی پس پردہ کرتی ہے وہ غیر آئینی ہے لیکن اکثر اوقات اسے چیلنج بھی نہیں کیا جاتا۔ باجوہ ڈاکٹرائن میں شاید وضاحت کیلئے وجہ موجود ہو لیکن قانوناً اور آئینی لحاظ سے فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کو توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھنا چاہئے، اور سویلین معاملات اور سیاست میں دلچسپی لینے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم، ایگزیکٹو کو بہتر بنانے اور ادارہ سازی کیلئے عدلیہ قانون اور آئین میں وضع کردہ حدود سے تجاوز کیے بغیر اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس کی توجہ بھی غلط سمت میں مرکوز ہے۔ مثالیں کئی ہیں۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ کے ججوں نے نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر وغیرہ جیسے اداروں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن اپنے فیصلے میں ججوں نے حکومت کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی جس سے ان اداروں میں اصلاحات لائی جا سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں شریف فیملی کی مبینہ کرپشن کا معاملہ مانیٹرنگ جج کی نگرانی میں اسی غیر موثر اور نا اہل نیب کو بھیج دیا۔ مانیٹرنگ جج صرف شریف فیملی کے کیسوں کی نگرانی کرے گا لیکن نیب کے معاملات معمول کے مطابق ویسے ہی رہیں گے جیسے دیگر کیسز میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کو بلاتفریق احتساب کیلئے نیب کی اوور ہالنگ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ صرف اس بات میں دلچسپی تھی کہ نیب سپریم کورٹ کی دلچسپی کے مخصوص کیسز میں زبردست کارکردگی دکھائے۔ اس سے پہلے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نیب کے 100؍ عہدیداروں بشمول ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی، جو اس سے پہلے سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی کے رکن تھے، کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے۔ لیکن پاناما کیس کے فیصلے نے نیب اور ساتھ ہی حکومت کو منگی کیخلاف کارروائی سے روک دیا۔ بعد ازاں نیب میں مبینہ طور پر غیر قانونی بھرتیوں کا کیس بھی سست روی کا شکار ہوگیا۔ اور اب موجودہ چیئرمین نیب ادارے میں مبینہ طور پر غیر قانونی انداز سے بھرتی ہونے والے عہدیداروں کے ساتھ مل کر کرپٹ افراد کیخلاف مہم چلا رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان اگرچہ از خود نوٹس لیتے ہیں لیکن زیادہ تر معاملات میں یہ مداخلت انفرادی کیسز کے حوالے سے ہوتی ہے۔ انفرادی کیسز میں از خود نوٹس لینے کا اختیار اگرچہ نظام کی بہتری، اداروں کو بااختیار بنانے یا پھر عوام کے وسیع تر مفاد کیلئے نیا میکنزم تشکیل دینے کیلئے تو راہ ہموار کر سکتا ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں، اس وقت کے چیف جسٹس نے ایک کیس میں از خود نوٹس لیا تھا جو بعد میں انیتا تراب کیس کے نام سے پہچانا گیا۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے میرٹ کی بنیاد پر بیوروکریٹس کی تقرری کے حوالے سے تاریخی فیصلہ سنایا تھا اور ساتھ ہی ان کی مدت ملازمت کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسی فیصلے میں وفاقی اور ساتھ ہی تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ انیتا تراب کیس میں عدالت کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ فیصلے پر عمل ہوا اور نہ عدلیہ نے کبھی ایگزیکٹو سے پوچھا کہ اس کے تاریخی فیصلے کا کیا ہوا، اس فیصلے کو سویلین بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے معاملے میں اہم سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن اسی دوران عدلیہ نے ایک اور از خود نوٹس لے کر سندھ کے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کا تحفظ کیا تاکہ انہیں ان کی مدت ملازمت سے قبل نہ ہٹایا جا سکے۔ از خود نوٹسز کے ذریعے جوڈیشل ایکٹوازم اس صورت میں صورتحال میں تبدیلی لا سکتی ہے جب اس طرح کی مداخلت کے ذریعے ادارہ سازی کے اقدامات اور نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ بصورت دیگر، از خود نوٹسز چند لوگوں کو ہی مطمئن کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے مسائل اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تاہم، دلیہ کیلئے ایک از خود نوٹس کی اشد ضرورت عدلیہ کیخلاف بھی ہے جہاں عدالتی مقدمات اور کئی حکم امتناع (اسٹے آرڈرز) نے نہ صرف حکومت کی بالادستی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ عام لوگوں کے مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس کی ایک مثال پیمرا بھی ہے جس کے اختیارات یکے بعد دیگرے مختلف عدالتوں کی جانب سے خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کے حکم میں جاری کردہ حکم امتناع کی وجہ سے زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ایک ٹی وی اینکر پر تین ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی لیکن پیمرا کو قانون کے مطابق اپنا طے شدہ کام کرنے کیلئے با اختیار بنانے کے معاملے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ ایسے کئی اینکرز ہیں جو پابندی کا سامنا کرنے والے مذکورہ اینکر سے بھی زیادہ بد تر اقدامات کر رہے ہیں لیکن جب بھی پیمرا ان کیخلاف کوئی کارروائی شروع کرتا ہے ویسے ہی ادارے کا مذاق اڑاتے ہوئے عدالتی اسٹے آرڈر سامنے آ جاتا ہے۔

تازہ ترین