امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (IRI) کی تازہ سروے رپورٹ اور عمران خان کے نام تحریک انصاف سے استعفے پر مبنی شیریں مزاری کے طویل خط کو بھی کیا مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل یا حکومت پنجاب کے شعبہ تعلقات عامہ کی کارستانی قرار دے دیا جائے گا؟
آئی آر آئی کا تازہ سروے 10 جولائی سے 15 اگست کے درمیان کیا گیا۔ اس طرح کے سروے عموماً شہری علاقوں تک محدود ہوتے ہیں لیکن یہ سروے شہروں کے 33 فیصد اور دیہات کے 67 فیصد رائے دہندگان پر مبنی ہے۔ آئی آر آئی نے گزشتہ سروے فروری میں کیا تھا، تب مینارِپاکستان پر 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد کپتان کا سونامی زوروں پر تھا۔ Electables دھڑا دھڑا سونامی کی نذر ہو رہے تھے۔ بعض سیاسی مبصرین کے خیال میں اس میں خاصا حصہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل پاشا کا بھی تھا۔ چوہدری نثار علی خاں تو کھلم کھلا یہ بات کہتے تھے۔ گجرات کے چوہدری برادران کوئی ایسی بات نہیں کرتے جو اسٹیبلشمنٹ کی طبع نازک پر گراں گزرے بلکہ وہ تو عموماً اس کی خوشنودی کے طالب ہوتے اور اس کی سیاسی ضروریات کی تکمیل میں بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں (مثلاً مشرف دور میں قاف لیگ کا قیام) لیکن اب وہ بھی خاموش نہ رہ سکے، بڑے چوہدری صاحب نے راولپنڈی میں لانڈری پلانٹ کی بات کی، داغ دار لوگ جہاں سے صاف ستھرے ہو کر تحریک انصاف کا رُخ کررہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل کیانی سے ایک ملاقات میں چوہدری برادران نے اس حوالے سے بعض ٹھوس ثبوت بھی پیش کردیئے تھے۔ ان میں وہ فون نمبر بھی تھے جو اس کارِخیر میں رابطہ کے لئے استعمال ہورہے تھے۔ خود کپتان کا کالم نگار جنرل پاشا کی کپتان کے لئے پسندیدگی کا ذکر بڑے فخر سے کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جنرل کو صدر زرداری کے روبرو بھی کپتان کے لئے اپنی پسندیدگی کے اظہار میں کوئی عار نہیں ہوتی۔
کپتان تبدیلی کا دعوے دار تھا۔ پاکستان کو روایتی اور موروثی سیاست سے نجات دلانا اس کا بنیادی نعرہ تھا۔ اس کے لئے وہ نئی سیاست اور نئے چہروں کی بات کرتا۔ نوجوانوں کے لئے یہ بات بطور خاص باعث کشش تھی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کا طرزِ سیاست بھی بعض حلقوں میں سوالیہ نشان بن رہا تھا۔ مشرف کی 9 سالہ آمریت کے بعد ملک میں ایک بار پھر نئے جمہوری سفر کا آغاز ہوا تھا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) 80 اور 90 کی دہائی کی تصادم والی سیاست کے بجائے ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی۔ ناقدین نے جسے ”فرینڈلی“ کا نام دے دیا تھا۔ اس تاثر نے بھی کپتان اور اس کی تحریک انصاف کو متبادل کے طورپر ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 30اکتوبر کے سونامی کے بعد electables دھڑا دھڑ تحریک کا رُخ کرنے لگے تو تبدیلی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں میں اضطراب فطری تھا۔ اس کا اظہار خود تحریک انصاف کے اندر بھی بڑی شدت سے ہوا۔ تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ انقلاب برپا ہوا اور اس کے بعد مخالف عناصر کے ہاتھوں اغوا ہوگیا لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔ کپتان اسٹیٹس کو، کو توڑنے کی بات کرتا تھا لیکن یہاں اسٹیٹس کو کے جانے پہچانے چہرے تحریک میں در آئے تھے اور کپتان نے انہیں اہم مناصب پر فائز بھی کردیا تھا۔ اس پر پارٹی کے اندر احتجاج ہوا، ناقدین نے میڈیا میں سوالات اٹھائے تو کپتان کا جواب تھا، کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لاؤں۔ تحریک کی مجلس عاملہ میں شیریں مزاری کی یہ قرارداد کپتان نے ویٹو کر دی کہ 30اکتوبر کے جلسے کے بعد تحریک میں شامل ہونے والوں کو کوئی عہدہ مرکزی مجلس عاملہ کی منظوری کے بغیر نہ دیا جائے۔ تب تحریک کے دستور میں صدر اور وائس چیئرمین کا کوئی عہدہ موجود نہیں تھا لیکن ہمارے باغی بھائی کو صدر اور شاہ محمود قریشی کو وائس چیئرمین نامزد کر دیا گیا (اور جمہوریت کے دعوے داروں نے یہ نامزدگی قبول بھی کرلی)۔
اُدھر 30 اکتوبر کا سونامی مسلم لیگ (ن) کے لئے ویک اپ کال بن گیا۔ میاں صاحب سے قربت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ معاملات کو سر پر سوار نہیں کرتے، ان کا عمومی رویہ Easy Go والا ہوتا ہے، لیکن سر پر آن پڑے تو انہیں دن اور رات کی تمیز نہیں رہتی، تب وہ زبردست مہم جو کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ اب بھی یہی ہوا، میاں صاحب انگڑائی لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ادھر خادمِ اعلیٰ نے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز تر کردی، وہ اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی وقت دینے لگے۔ (ان کے طرزِ حکمرانی سے اختلاف کرنے والے بھی ان کے انتھک ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔) پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں کو رفع کرنے پر بھی توجہ دی گئی۔ گلی محلوں میں کارکنوں کو بھی متحرک کیا گیا اور یوں مسلم لیگ (ن) اپنی کھوئی ہوئی Space دوبارہ حاصل کرنے لگی۔ چنانچہ آئی آر آئی کے تازہ ترین سروے میں اگر تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں فروری کے سروے کی نسبت 22.6 فیصد کمی کی نشاندہی کی گئی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات؟ پنجاب، مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس ہے اور کپتان کا بنیادی ہدف بھی یہی ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق یہاں مسلم لیگ (ن) 43 فیصد جبکہ تحریک انصاف 18.2 فیصد کمی کے ساتھ 27 فیصد پر آگئی ہے۔ پیپلزپارٹی 22 فیصد کمی کے ساتھ 7 فیصد اور اس کی اتحادی قاف لیگ صرف 2 فیصد حمایت کی حامل ہے۔
اُدھر شیریں مزاری نے کپتان کے نام اپنے خط میں دو سطری استعفے کے بجائے ان وجوہات کا ذکر بھی ضروری سمجھا جو تحریک سے ان کی علیحدگی کا باعث بنے۔ اس میں تحریک پر وڈیروں، سرمایہ داروں اور بیورو کریسی کے ریٹائرڈ کل پرزوں کے قبضے کا ذکر بھی ہے اور پارٹی الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے لئے سرمائے کے بے دریغ استعمال کا بیان بھی۔ تحریک کے سوشل میڈیا کی طرف سے اس کے ناقدین کو جس طرح ہدف بنایا جاتا ہے، وہ پرانی بات ہو چکی لیکن اب خود شیریں کی صاحبزادی بھی اپنے ہی سوشل میڈیا کے ناروا رویئے کا شکار ہوئے بغیر نہ رہی۔ تحریک کی اکنامک پالیسی کو شیریں نے آئی ایم ایف کی خواہشات کی عکاس قرار دیا۔ انہیں عمران خان کی دیانت پر شبہ نہیں لیکن ان کی مایوسی کا سبب یہ ہے کہ پارٹی کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ اجتماعی قیادت کا نام ہوتی ہے اور تحریک کی اجتماعی قیادت میں اب وہی لوگ غالب ہیں، قومی سیاست کو جن سے نجات دلانے کا نعرہ لے کر عمران خان سیاست میں آئے تھے۔