اَسماء صدیقہ
اگلے ماہ ثروت کی فرسٹ کزن کی شادی تھی، اس پر ہونے والے اخراجات کا سوچ کر اُسے ہول اُٹھ رہے تھے، نئے پارٹی وئیر ملبوسات کا انتظام، تحائف، سلامی اور آمدو رفت کے اخراجات ،کوئی ایک مسئلہ نہیں تھا،کم سے کم بھی پانچ سےچھ ہزارروپے کا خرچہ تو ہونا ہی ہے۔ دونوں بچّوں کے کپڑوں کا تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا ابھی کئی جوڑے نئے بنے تھے،کچھ کپڑےاُن کے ددھیال ،ننھیال سے آئے تھے،کئی ریڈی میڈ سوٹ رکھے تھے ۔
اصل مسئلہ تو اُس کا تھا، پارٹی وئیر ملبوسات کافی عرصے سے نہیں بنائے تھے کہ استعمال میں آتے ہی کب ہیں، عید بھی گرمیوں کی شدّت میں آئی تھی لہذا لان کے ایمبرائیڈڈ سوٹ بنا لیےتھے ۔لیکن یہ تو خاندان کی شادی ہے، ہر روز جانا تو لازمی ہے۔ اس کے میاں نے خالی جیب کا شکوہ کرکے مجبوری ظاہر کردی تھی، ویسے بھی مرد حضرات کو خواتین کی نزاکتوں کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔حالانکہ اس کے اثرات بڑے بھاری پڑ جاتے ہیں اور تادیر قائم رہتے ہیں۔
اِدھر بہنوں کے حالات سے بھی وہ واقف تھی، سوچ بچار کے بعد آخر اس کو سکینہ باجی کا خیال آیا، جو ذراآگے اسی اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں۔’’کیوں نہ ان سے قرض لے لوں، آہستہ آہستہ واپس کردوں گی‘‘ وہ زیر لب بولی آئیڈیا بُرا نہیں تھا، پانچ سےچھ ہزار کی تو بات ہے، دواہم دن کے لئے تو سوٹ لینا ہی ہیں باقی دنوں میں پہلے کے رکھے سوٹ چل جائیں گے۔ اُسے اب تک قرض لینے کا تجربہ نہیں تھا۔
سکینہ باجی کے گھر وہ اسی شام چلی گئی اور اپنامدّعا یہ کہتے ہوئے سامنے رکھ دیا کہ بچوں کی اسکول فیس اور یوٹیلیٹی بلز کی وجہ سےکچھ بچاتاہی نہیں ،اوپر سے موبائل کا پیٹ بھی کچھ نہ کچھ بھرنا ہی پڑتا ہے، خاندان کی شادی ہے سج دھج نہ کروں تو میاں کی عزّت کا سوال ہے۔ ساری بات سن کر سکینہ باجی نے قرضہ دینے سے معذرت کرلی، مگر مایوس پھر بھی نہیں کیا ،اٹھیں اور الماری سے گٹھر نکال کر سامنے رکھ دیئے۔
’’لو یہ کلیکشن دیکھ لو، خالصتاً سلک ہے ،ذرا احتیاط سے رکھنا۔
وہ نفیس کا مدار ، بنارسی ساڑیاں اور سوٹ دکھارہی تھیں ،ہر اک عمدہ اور اعلیٰ تھی۔ ’’واقعی باجی، کیا عمدہ کپڑا ہے اور یہ پیازی کلر پر کام کتنا نفیس اور دلکش ہے‘‘ وہ سراہے بنا رہ نہ سکی اور ایک ساڑی اس نے منتخب کرلی۔
’’ یہ دیکھو فیروزی جارجٹ پہ ریڈ ایپلک کے ساتھ گولڈن کڑھائی کا سوٹ، ایک اور تقریب نمٹ جائے گی‘‘انہوں نے آرام سے مسئلہ حل کردیا۔
’’ارے یہ لو پرل کی میچنگ جیولری بھی لے لو ساڑی پہ بہت اٹھے گی ،دیکھو جھمکے ساڑی پہ نمایاں ہوتے ہیں‘‘وہ واقعی اس پہ بہت مہربان تھیں یا اس کی دعاقبول ہوگئی تھی۔’’میں بہت دھیان کے ساتھ استعمال کروں گی اور جلد ہی لوٹا دوں گی، آپ نے قرض کے بجائے میرا مسئلہ کیسے حل کردیا۔
اللہ آپ کو خوش رکھے‘‘۔ وہ نہال ہورہی تھی ،واقعی ایک، دو یا تین بار کے بعد ایسی چیزیں الماری کی بجائے عاریتاً ہی سہی، کسی ضرورت مند کو دے دیںتو فضول خرچی اور قرض دنوں سے بچت ہوجاتی ہے۔
رافعہ، بچّوں کو اسکول اور شوہر کو آفس بھیج کر ماسی سے کام کروارہی تھی، ابھی اُسے دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی کرنا تھی کہ اچانک اس کے بیٹے حمّاد کے اسکول سے فون آگیا کہ حمّاد کو سر میں چوٹ لگی ہے، فوراً آئیں یا اُس کے والد کو بھیجیں، مگر شوہر آفس میں تھے اور آفس کافی دور تھا، آفس میٹنگ کی وجہ سے Cellبند جارہا تھا۔ اس نے اپنی کزن کو کال کی جو دو گلی چھوڑ کر ہی رہتی تھی اور درخواست کی کہ وہ ساتھ چلے،جو اس نے قبول کرلی۔
اسکول سے فوری ٹریٹ منٹ کے لئے حمّاد کو اسپتال بھیج دیاگیا تھا،اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی،اس ایمرجنسی میں کزن رافعہ اور اس کے بچّے کے لئے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئی۔
میرے رسکی اور میجر آپریشن کو دس ہی روز گزرے تھے ،ابھی ٹانکے کٹنے میں دو دن باقی تھے کہ رات سے ہی درد سے برا حال تھا، ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں ،وہ رات بے بسی سے تڑپتے گزری، شوہر شہر سے باہر تھے امّی کی ایسی حالت نہیں تھی کہ اتنی دوراسپتال لے جائیں، میں نے ایک نئی شناسا خاتون کو کال کی، جو قریبی کلینک میں دو تین بار ہی مجھےملی تھیں۔
وہ فوری طور پر آئیں کسی طرح ٹیکسی کرکے اسپتال لے گئیں۔ انجیکشن لگوایا، ٹانکے کٹ گئے پھر ٹیکسی میں لے کر گھر تک آئیں۔ کتنی بے بسی تھی، مگر اللہ وسیلے بناتا ہے اور ایسے وقت میں عورت ہی عورت کے کام آتی ہے۔
بہر حال لمحے خوشی کے ہوں یا دُکھ درد کے، قدم قدم پہ ماں یابہن جیسی ، دوست یا ہمسائی کی ضرورت رہتی ہے ،مگر اس کا کیا کیجیے کہ ایک نعرہ اور اس کا عملی اظہار چاروں جانب سنائی دے رہا ہے وہ یہ کہ ’’عورت ہی عورت کی دشمن ہے‘‘۔
بہت ساری جگہوں پر عورت ہی عورت کی دشمن قرار دی جارہی ہے اور اس حقیقت کو آپ جھٹلا بھی نہیں سکتے کہ واقعی ایسا ہے مگر زمینی حقائق ذرا غور سے دیکھئے تو دو عورتوں کے مابین دشمنی کے پیچھے مرد ہے، جس پہ حق جتانے کے چکّر میں حسد اور رقابت پنپ رہی ہے اور کسِی دن بالآخر دھماکہ ہوجاتا ہے ،یوں عورتیں باہم متنفّر ہوجاتی ہیں۔
بعض اوقات مرد کبھی Divide and Rule پہ عمل کرکے بے چارہ بننے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے مگر فائدہ ان کو بھی کچھ نہیں ہوتا ۔مرد بہر حال صنف آہن ہیں، اُنہیں لچک کے ساتھ کُھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
مرد کی قو ّامیت کو تسلیم کرنا اس کے برعکس نظام کا سلسلہ ہے اس میں عورتیں ہمیشہ اپنی دنیا بناتی ہیںاپنے معاملات مل جل کر سمیٹ لیتیں ہیں، اس ماحول کا اپنا رنگ ڈھنگ ہوتا ہے ،دُکھ سُکھ میں سانجھی ، ایک ٹیم اور گروپ کی صورت میں کئی کام نمٹالیتی ہیں۔ نوک جھونک ،شکوے شکایات بھی چلتے ہیں ۔ صلح صفائی بھی کوئی عورت ہی کرواتی ہے کہ یہ عورتیں کے باہمی تعلقات ہیں مردوں کو درمیان میں آنے کی ضرورت نہیں۔
مگر جوں جوں مخلوط سوسائٹی کا اثر بڑھتا جارہا ہے، عورت ،عورت سے دُور ہوگئی ہے بلکہ کی جارہی ہے۔ عورت ہی عورت کو تحقیر آمیز انداز سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے کہ یہ ہے کیا؟ میرے جیسی عورت، بس! (گویا آپ خود بے قیمت ہیں) مگر اپنی اور اپنی ساتھی کی قیمت کو جانیں!
کبھی دوپٹہ بدل بہنوں کی کہانی سُنی تھی جہاں رنگ نہیں دل میچ کرتے تھے۔کہیں پڑوسن ہفتہ بھر بعد ہی سالن یا کوئی پکوان بدلی کرتی تھی ،کبھی ساس بہو کے لئے بیٹے کو سمجھایا کرتی تھی کہ گھربنارہے، اس لئے کہ سارا سارا دن ان سب کو ساتھ رہنا ہوتا ہے، مرد تو معاش کے سلسلے میں باہر ہوتے ہیں۔
مگر اب عورت ایک سایے سے محروم ہورہی ہیں پھر اپنے خانگی مسائل سے عاجز در عاجز ہوکر نامحرم مردوں کو ہم راز بنانے ،کم از کم بہتری کے لئے مشورہ لینے کے لئے ہی مجبور ہیں۔
8مارچ عالمی یومِ خواتین کے موقعے پرسیمینار، مذاکرے اور واک نجانے کیا کیا پروگرامز ہوتے ہیں مگر خواتین کے حالات بدل کے نہیں دیتے ۔ واقعی وہ بنیادی حقوق کی پامالی کا عذاب بھگت رہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ اس صنف کی آپس میں ہم آہنگی کا فقدان بھی ہے، اس دوری سے مرد اور عورت کے درمیان دوستی کا آغاز ہونے لگتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی جو کہ غیر فطری ہے۔
عورت کے لئے اپنی جیسی عورت کتنی اہم ہے، عورت چاہے گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ، ایک تلاش میں ہے، مسلسل اپنے ہی سائے کے لئے زبان حال سے پُکار رہی ہے ’’میری جیسی، میرا سایہ، تم کہاں ہو… آئو! ہاتھ ملائو… مت روٹھو، مان جائو‘‘۔