• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین مارچ کا نعرہ ’’خودکھانا گرم کرلو ‘‘

خواتین مارچ کا نعرہ ’’خودکھانا گرم کرلو ‘‘

غزالہ خالد

جی ہاں مردوں سے کہا گیا ہے کہ’’خود کھانا گرم کرو‘‘ ،اس مرتبہ خواتین کے عالمی دن کے موقعے پرایک ریلی نکالی گئی جسے ’’ عورت مارچ‘‘ کا نام دیا گیا ، اس 'عورت مارچ 'میں ان خواتین نے شرکت کی جو صورت، شکل ، انداز ،طور اطوار ، لباس سے غرض کہیں سے بھی مظلوم نہیں لگ رہیں تھیں ، ان خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ،جن پر مختلف نعرے اور خیالات کے ساتھ ساتھ مردوں سے کچھ فرمائشیں بھی درج تھیں، جس میں سےدونعرے بہت مشہور ہوئے،دوسرے کا تذکرہ میں آخر میں کروں گی،تاہم پہلا یہ تھا کہ ’’خود کھانا گرم کرو ‘‘۔

یہ درست ہے کہ شوہر کو بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہئے ، اپنا کام خود کرنے کی عادت ہونی چاہئےاور اگر بیوی ورکنگ وومین ہو توپھر تو گھر کے کاموں میں حصہ ڈالنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہےکیونکہ دونوں میاں بیوی نو سے چھ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ کی ملازمت کرکے ساتھ ساتھ ہی گھر پہنچتے ہیں، عموماً کھانا پکانا بیوی کی ہی ذمے داری ہوتی ہے، اس لئے کھانا گرم کرنے کا تصور لے کر اس بینر کو تخلیق کیا گیا لیکن آج بھی کتنے کام ایسے ہیں، جو صرف شوہر ہی کرتا ہے، جن میں زیادہ تر گھر سے باہر کے کام یا سخت مشقت والے کام شامل ہیں، جو صنف نازک چاہتے ہوئے بھی نہیں کر سکتی اگر کبھی ’’ مرد مارچ‘‘ کے نام کی ریلی بھی نکالی گئی تو سوچا جاسکتا ہے کہ اس میں کس قسم کے نعرے درج ہوں گے،مثلاً ’’خود گاڑی کو دھکا لگاؤ‘‘، ’’خود جنریٹر کی ڈوری کھینچو‘‘ ،’’خود دہی لاؤ‘‘، ’’خود گوشت ،مرغی لاو‘‘، ’’ خود پانی کاٹینک صاف کرو‘‘ وغیرہ وغیرہ، اگر یہ سب کام کچھ خواتین کرتی ہیں تو خود کھانا گرم کرنے والے حضرات بھی کم نہیں ہیں ، بات در اصل یہ ہے کہ برابری ہو ہی نہیں سکتی، مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہیں ، ایک دوسرے کا مددگار بننا ہے۔

میرے ذاتی خیال میں اگر ایک عورت گھر میں رہتی ہے اپنی ذمےداریاں نبھا تی ہے اور اس کا شوہر سارا دن آفس میں مغزماری کرنے کے بعد تھکا ماندہ شام ڈھلے گھر پہنچتا ہے تو بیوی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے تھکے ہوئے شوہر کے کھانے پینے کا خیال رکھے بالکل اسی طرح اگر شوہر گھر آنے کے بعد دیکھے کہ اس کی بیوی بیمار ہے، تھکی ہوئی ہے یا بچوں کے کاموں میں مصروف ہے تو اسےانتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف اپنا ہی نہیں بیوی کے لئے بھی کھانا خود گرم کرلینا چاہئے ۔ 

یہ چھوٹے موٹے کام کوئی مسئلہ ہی نہیں ہیں، نہ ہی انہیں عورت کے حقوق میں کوئی بڑی اہمیت حاصل ہے ۔میرا خیال تو یہ ہے کہ ان خواتین کو اپنے حقوق کا پتہ ہی نہیں، ایک طرف ’’لیڈیز فرسٹ ‘‘بھی چاہئے، دوسری طرف بے معنی پلے کارڈز کو عورت کے حقو ق کا نام دے کر سڑکوں پر نکل آئیں اور جن خواتین کو اصل میں مارچ کرنا چاہیے تھا، انہیں اپنے بنیادی حقوق کا ہی نہیں معلوم، یہ ہمارے، آپ کے گھر وںمیں کام کرنے والی خواتین ہیں، جو صبح گھر سے نکلتی ہیں تو رات کو گھر میں داخل ہوتی ہیں ،گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر آتی ہیں گھروں کو واپس جاکر پھر اپنے گھر کی ذمے داریاں نبھاتی ہیں ،ہر سال بچے پیدا کرتی ہیں ،سیرو تفریح کے نام سے بھی ناواقف ہوتی ہیں ، بیمار ہوجائیں تو دوا دارو بھی نہیں ملتی ،زیادہ سے زیادہ کسی مولوی سے دم کروا دیا جا تا ہے،اگر لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جائیں تو دوبارہ محنت مشقت میں جت جاتی ہیں اور ان کے نوے فی صد مرد گھروں میں بیٹھ کر چرس کے سٹے لگاتے ہیں یا پھر اپنی بیوی کی محنت کی کمائی جوئے میں اڑاتے ہیں ۔’’عورت مارچ ‘‘ میں ان عورتوں کو لایا جاتا تو قابل ذ کر بات ہوتی ، مغرب سے متاثر ہوکر ہم اپنے حقوق متعین نہیں کرسکتے ،مغرب کی عورت شوہر کے شانہ بشانہ ملازمت کررہی ہے تو وہ یہ فرمائشیں کرنے میں حق بجانب ہوگی لیکن ہمارے جیسے ملک میں جہاں ابھی عورتوں کے ملازمت کرنے کا گراف نہایت کم ہے ان چیزوں کو اتنا ابھارنا میری سمجھ سے با لا تر ہے۔ میرے خیال میں پلے کارڈز کچھ اس قسم کے ہونے چاہئیے تھے، ’’خود محنت کرو‘‘ ، ’’ہمارے خرچے پورے کرو ‘‘، ’’جہیز مانگنا منع ہے ‘‘ ، ’’بچے تمہارے بھی ہیں‘‘، ’’گورا رنگ نہیں تعلیم و تربیت دیکھو‘‘،’’عورت ،عورت پر ظلم بند کرے ‘‘، ’’ظاہر نہیں باطن دیکھو‘‘ ’’ تیزاب خود پی لو‘‘۔ ہمارے ملک کی خواتین کو مغرب کی عورتوں والے حقوق نہیں چاہئیں ۔مردوعورت دونوں انسان ہیں اور اللہ تعالی نے دونوں کو یکساں حقوق دیئے ہیں۔ 

ہمیں تو صرف وہ حقوق ہی مل جائیں جو ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں دیے ہیں تو کیا ہی بات ہو ۔ یہاں تو شادی کرتے وقت لڑکی سے اس کی مرضی ہی پوچھ لی جائے تو بڑی بات ہوگی ۔آخر میں ایک اہم بات یہ کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو قرآن میں ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے ،یہ بات تسلیم کرتے ہوئے ایک دوسرے کا خیال کرنا ، خوامخواہ برابری کرنے سے گریز اور پیار اور محبت کی فضا میں اپنے بچوں کو پروان چڑھانے میں ہی مرد اور عورت دونوں کی بہتری ہے۔

رہ گئی دوسرے پلے کارڈ کی مشہور ہونے والی عبارت ’’ چادر اور چار دیواری گلی سڑی لاش کے لئے ہے ‘‘ تو اس عبارت کے لئے تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو سورۃ نور اور سورۃ احزاب کی آیات آپ کے سامنے ہیں کہ چادر اور چار دیواری ایک پارسا عورت کی نشانیاں ہیں یا گلی سڑی لاش ہونے کا ثبوت ہیں۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے لاشیں تو کفن بھی پہنتی ہیں پھر تو کپڑے پہننا بھی ضروری نہیں رہے گا ۔آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین