• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک کے تناظر میں بیرونی سرمایہ کاری اوراس کے مضمرات

سی پیک کے تناظر میں بیرونی سرمایہ کاری اوراس کے مضمرات

تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستان 90ارب ڈالر کا قرض دار ہو چکا ہے۔ 5سالوں میں 50ارب ڈالر سود کی سروس کر چکا ہے۔ 60ارب ڈالر چینی قرض کتنا ہے اور سرمایہ کاری کتنی ہے، معلوم نہیں؟ ملکی بینکوں سے 22ہزار ارب روپے کا قرض لیا جا چکا ہے۔ برآمدات 21.5ارب ڈالر سے آگے نہ جا سکیں۔ 

بین الاقوامی تجارت میں خسارہ 33ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ گردشی قرضے بجلی کے حوالے سے1974ارب روپے پہنچ چکے ہیں۔ پی آئی اے اور اسٹیل مل کا خسارہ 500ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ بجلی کے بلوں میں بجلی کی جنریشن کی قیمت سے زائد سیلز ٹیکس سمیت کئی ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں۔ 

بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے آپٹما (ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن) کا کہنا ہے کہ لاگت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ عالمی مقابلے سے باہر ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں زراعت کی شرح نمو منفی میں چلی گئی تھی۔ 

آئی پی پی سے مثلاً 100روپے کی بجلی حاصل کرنے کا معاہدہ ہوا تھا، لیکن 60روپے کی بجلی لے رہے ہیں، کیونکہ سسٹم پوری بجلی اٹھا نہیں سکتا۔ 40روپے کا خسارہ بھی عوام اٹھا رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر، جو قرضوں سے تشکیل پائے ہیں، وہ تین ماہ کےلیے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کا مربی دینے والا ادارہ آئی ایم ایف انتباہ کر رہا ہے کہ معیشت کی مالیاتی حالت بہت خراب ہے۔ 35لاکھ مالدار ترین لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 

ٹیکس سسٹم نہایت ناکارہ اور کرپشن زدہ ہے اور یہ حکومتِ وقت کو علم ہے کہ سرمایہ داری نظام ٹیکسوں کے بغیر نہیں چل سکتا اور ٹیکسوں کو درست استعمال کرنا ترقی کی علامت ہے، لیکن ملک میں بالواسطہ ٹیکس 85فیصد ہیں، جو سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ اور ڈیوٹیز وغیرہ عوام پر بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ 

 ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک بڑا ریستوران، جس کی 5لاکھ روپے کی روزانہ کی سیل ہے، اس کا روزانہ 75ہزار روپے سیلز ٹیکس بنتا ہے، لیکن وہ سالانہ سیلز ٹیکس دو لاکھ روپے ادا کرتا ہے۔ 

عوام سے ٹیکس لیا ہوا بھی دو نمبری مالدار ،سیلز ٹیکس کھا جاتے ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت پر رموز بیٹھ رہی ہے اور موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ اس قدر بربادی ہو جائے کہ کوئی حکومت کا کام نہ کر سکے اور جب ہم اقتدار سے جائیں تو ہماری روانگی یاد آئے۔ 

چند سو مالدار ترین پاکستانیوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ آدھی بھی لے لی جائے اور پاکستان کی اگر حکومتیں اچھی ہوں تو پاکستان فوڈ پاور بن سکتا ہے، لیکن یہاں تو پانی کی قلت کا مسئلہ بھی ہے ، پھر84فیصد عوام کو شفاف پانی پینے کو میسر نہیں ہے۔ سڑکیں، پل اور میٹرو سب قرضوں پر بن رہی ہیں۔ 

90روپے کا ٹکٹ 20روپے میں دیا جا رہا ہے، اس طرح یہ خسارہ کون ادا کرے گا۔ شرح نمو 5.6فیصد بتائی جا رہی ہے زیادہ شرح نمو کےلیے ’’کیش فلو‘‘ نہیں ہے۔ ایڈوانس ٹیکس اور ری فنڈ واپس کرنا دشوار ہے تو پھر جان بوجھ کر معیشت کو کیوں تباہ کیا جا رہا ہے اورکیوں غلط شرح نمو بتائی جا رہی ہے ۔ 

10ارب ڈالر منی لانڈرنگ اور دیگر ذرائع سے باہر جا رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے گیارہ سو ارب روپے کی دبئی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے منصوبے چین لگا رہا ہے، جبکہ اس کوئلے کے کار بن نے چین کے ایک شہر کو برباد کر دیا ہے۔ 

چین میں 103کوئلے کے منصوبے بند کر دیئے گئے ہیں، اب یہ منصوبے پاکستان، بنگلا دیش اور انڈونیشیا میں لگ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ رضا ربانی جو بہت محنت کر کے اسمبلی اور سینیٹ میں آتے تھے، انہوں نے بھی یہ سوال بجلی اورپانی کے وزیر سے نہیں پوچھا، اس لیے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جس ملک میں انسانی وسائل کو تربیت یافتہ نہ بنایا گیا ہو اور ملک ترقی کی کسی منزل پہ نہ ہو، کاروبار کرنے کی آسانیاں 147نمبر پر ہوں، ہر طرف خسارے ہوں تو پھر وہ بیرونی سرمایہ کاری میں برابری کی بنیاد پر کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ 

جبکہ سب کچھ قرضوں پر چل رہا ہو، پاکستان کی ایکیویٹی انوسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی نمو کا انحصار خارجہ منڈیوں پر ہو چکا ہے، جب کہ ترقی پذیر ممالک کی معاشی نمو، داخلی منڈیوں پر انحصار رکھتی ہے۔ پاکستان کی داخلی منڈی بھی جدید خطوط پر استوار نہیں ہے، جس ملک میں حکومت دودھ کی قیمت طے نہ کر سکتی ہو، شفاف پانی کا انتظام نہ کر سکتی ہو، جرائم پیشہ افراد مزے کرتے ہوں، ایسا ملک بیرونی سرمایہ کاری سے فائدہ تو کجا داخلی منڈی پر قبضہ ہی کرا سکتا ہے۔ 

گوادر پورٹ میں پاکستان کا حصہ 9 فیصد ہے، اس سے کہیں زیادہ چینی قرضوں پر سود کی ادائیگی ہو جائے گی تو پھر فائدہ کہاں سے ہو گا؟ درآمدات، برآمدات کے عدم توازن سے احتیاجی معیشت جنم لیتی ہے، ادائیگیوں کے عدم توازن پیدا ہوتے ہیں، قرضوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اورترقی پذیر معیشتیں دبائو میں آجاتی ہیں۔ ان کے صنعتی ارتقا میں میں آزاد مقابلے کے حالات ختم ہو جاتے ہیں ۔ کیا پاکستان کاکوئی ذی فہم معیشت دان ان باتوں سے انکار کر سکتا ہے؟ سب کو علم ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں۔ 

کون جھوٹا ہے اور کون ملک کو تباہ کر رہا ہے، یہ بھی معلوم ہے ۔سی پیک کے تناظر میں دیکھیں تو تازہ ترین خبر یہ ہے کہ 2025تک پاکستان کے چینی قرضے 3.3-3ارب ڈالر سے لے کر 14.5ارب سالانہ بڑھتے رہیں گے۔ یہ دسویں سالانہ رپورٹ، جو معاشی حالت پر شائع ہوئی ہے، جس کا ٹائٹل ’’چین پاکستان اکنامک راہداری کا ریویو اور تجزیہ ہے‘‘ اسے شاہد جاوید برکی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی ایٹ نیٹ سول نے پیش کیا ہے، جب یہ رپورٹ شائع ہوئی اور اس کی نقاب کشائی تقریب گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے کی تووہ بھی کوئلے کے پلانٹوں کے بارے میں کچھ نہ بولے اور تقریب میں دوسرے احباب بھی تھے، جو معیشت کے بارے میں ادراک رکھتے تھے، خاموش رہے، البتہ رپورٹ میں یہ سفارش کی ضرورکی گئی کہ سی پیک کی شفافیت اور اس کی استعداد کار کے لیے ایک مخصوص سی پیک یونٹ بنایا جائے ،جو کونسل آف کامن انٹریسٹ کے تحت ہواور سی پیک کی شفافیت کی نگرانی کرے۔

پالیسی سازوں کو اس کی افادیت میں جست لینے کےلیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ سب سے زیادہ زور صوبائی اور وفاقی ریونیو میں اضافے پر دیا گیا، پھر ان لوگوں نے ٹیکس سسٹم کی بھی بات کی،جو کہ اس قدر ناکارہ ہے کہ یہ پاکستان کو دیوالیہ حالت پرلے آیا ہے۔

اہم چیز یہ ہے کہ عوام کو ووکیشنل تربیت دی جائے اور ہزاروں لوگوں کو چین تربیت کےلیے بھیجا جائے، ورنہ بی اے، ایم اے والے، سندیں لے کر گلی گلی گھومتے پھریں گے، جہاں تعلیم فروخت ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے سرکاری شعبوں کی لاگت کم کی جائے اور نقصانات پر قابو پایا جائے۔ 

فنڈز کو نہایت ذی فہمی سے استعمال کیا جائے، جو سرمایہ کاری قرضوں پر ہو رہی ہے، اس سے مکمل طور پرفائدہ اٹھایا جائے، تاکہ قرضے واپس ہوں اور سرمایہ کاری پر منافع جائز واپس ملے، یہ نہ ہو کہ جیسے ملتان میٹرو میں چین کے مطابق 75کروڑ روپے کی سرمایہ کاری پر تین ارب روپے کا منافع ہوا ، یہ معاملہ بھی گول کر دیاگیاکیوں؟۔ 

نیز یہ کہ چین پاکستان کی سرحدوں سے بے تحاشا اسمگلنگ کو روکا جائے۔ پسماندہ علاقے، جو سی پیک کے دائرے میں ہیں، اُن کی پس ماندگی کے بجائے ترقی کو اَپ لفٹ کیا جائے، ورنہ اس راہداری کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ کالونی بننے کے امکانات ہمیں خوف میں مبتلا کر تے رہیں گے۔ 

اس وقت دو اقسام کے اکنامک زونز بنائے جا رہے ہیں، ایک تو 9اکنامک زونز چین بنا رہا ہے،لیکن ابھی تک ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہاں کہاں بنائے جا رہے ہیں، ان میں پاکستانی ہنرمند کتنے لیے جائیں گے اور پاکستان ان زونز کو کیا سہولتیں فراہم کرے گا۔ یہ بھی علم نہیں کہ پاکستان کے بے روزگاروں کو ان زونز اور دیگر کاموں میں کوئی روزگار میسر آیا ہے۔ 

گوادر پورٹ پر کتنے پاکستانی کام کر رہے ہیں اور پورٹ کے اردگرد اراضی پر کتنا سٹہ چل رہا ہے اور کیوں اب تک ڈی سیلینیشن پلانٹ شفاف پانی کےلیے نصب نہیں کیا گیا؟ ادھر پاکستان میں بھی بورڈ آف انویسٹمنٹ نے سات اسپیشل اکنامک زونز بنانے کی منظوری دی ہے، پہلے بھی جو ایکسپورٹ پروسیسنگ زون موجود ہے، اس میں محنت کشوں کی حالت زار بہت خراب ہے ۔ محنت کش اور ان کی فیملیز وہیں رہتی ہیں اور باہر جانے کےلیے اجازت لینی پڑتی ہے۔ ایسے دنیا میں کئی ممالک میںزونز بنائے گئے ہیں۔ 

بقول معروف صحافی اور رائٹر نائومی کلائن کے مطابق ’’اس وقت ان زونز میں ساڑھے تین کروڑ محنت کش غلاموں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں جو اکنامک زونز بن رہے ہیں، خاص طور پر پنجاب اور کے پی کے میں ان کو یہ فائدہ سی پیک سے پہنچ سکتا ہے، ان کو روڈ نیٹ ورک مل سکتا ہے،لیکن اندیشہ ہے کہ اس سے بھی فائدہ چینی فیکٹریاں اٹھائیں گی۔ ان کی ایکسپورٹ بہت زیادہ ہے اور اب تو گوادر پورٹ ان کے لیے جنت کا سماں ہے، جو از حد قریب ہے۔ پاکستان کے صنعت کار تو مینو فیکچرنگ لاگت کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ڈر ہے کہ پاکستانی انڈسٹری خدانخواستہ ڈمپ ہی نہ ہو جائے۔ صوبوں میں کاروبار کرنے والے متحرک ہوں حکومت لتھارجی سے باہر نکلے اور انڈجنس پیداوار میں اضافے کی کوشش کرے۔ 

ٹیکنالوجی کو متعارف کرائے، ورنہ سب چین ہی چین ہو گا۔ کے پی کے کی خواہش ہے کہ مجوزہ زونز پس ماندہ علاقوں میں تعمیر کیے جائیں، اس مقصد کو پورا کرنا آسان نہیں، کیونکہ پس ماندہ علاقوں میں نہ تو انفرااسٹرکچر ہے اور نہ ہی ہنر مند انسانی وسائل ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ 70سال تک حکمرانوں کی عیاشی ہی ہوتی رہی ہے۔ انسانی وسائل کو کب اثاثہ بنایا گیا ۔ کب قدرتی وسائل کو استعمال میں لایا گیا۔ ہم تو کچرا اٹھانے کے قابل نہیں رہےہیں، کیسے مثبت پہلوئوں پر لکھیں۔ 

یہ بورڈ آف انوسٹمنٹ کی ستم ظریفی ہے کہ ان زونز میں مخصوص انڈسٹری لگانے کی اجازت ہو گی۔ دیکھتے ہیں کہ مائننگ، ماربل اور فروٹ کی پروسیسنگ کے بارے میں کیا اعلان ہوتا ہے۔ اس قسم کے اقدامات کا اعلان ہر حکومت نے کیاہے، لیکن حکومتوں کو علم ہے کہ بیوروکریسی پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ لوگ ہی سیاست دانوں کو کرپشن کا راستہ دکھاتے ہیں، جیسے اکثر چارٹرڈ اکائونٹنٹ، مالداروں کو ٹیکس چوری کے راستے دکھا کر ملی بھگت سے اکائونٹ کی کتابیں بناتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے کیسے عوام کار آمد بنائے جا سکتے ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کےلیے ملک میں بڑی زبردست معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے ووکیشنل تربیت، نئی صنعتوں کا اجرا، کاٹیج انڈسٹری کا فروغ سروسز انڈسٹری سے زیادہ زراعت، لائیو اسٹاک، اینیمل ہسبنڈری، فی کس پیداوار میں اضافے کی طرف توجہ دی جائے۔ یہ یورو لینڈ، اسٹاک مارکیٹس، منی مارکیٹس، سٹہ بازی، ٹی 20 میچز ترقی کے راستے نہیں ہیں۔ ٹیکس نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے، اِن پٹ اور آئوٹ پٹ پر ٹیکس کا نفاذ درست رہنا چاہیے۔ کسٹم کے سسٹم درست کرنا ضروری ہے۔ 

سیلز ٹیکس پرنظرثانی کی جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ صوبے یا وفاق کے اختیار میں یہ ٹیکس ہو گااور اس کی وصولی درست ہونی چاہیے۔ انڈسٹریل زونز میں پاکستانی صنعت کاروں سے مشورہ لیا جائے، ان کو بھی روایتی کام کے طور طریقے ختم کرنے ہوں گے، اگر یہ سب کچھ نہ ہوا تو بیرونی سرمایہ کاری درد سر بن سکتی ہے۔ 

تازہ ترین