• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے 2دنوں سے ’’کالے قول ‘‘ ہاتھ میں اور میں ’’جہانِ حَسن کے حُسن میں گم ‘‘، یہ تو سنا تھا کہ فلاں نے دریا کوزے میں بند کر دیا، یہ تجربہ اب ہو رہا کہ جس کوزے سے ڈھکن ہٹاؤ، دریا بلکہ سمندر نکلے اور اوپر سے لفظوں کے یہ دریا اور جملوں کے یہ سمندر ایسے کہ عین ممکن غیرت میں آکر تیراکی سے نابلد بھی ہردریا پار کر جائے اور یہ بھی ممکن کہ بڑے سے بڑا ماہرِ تیراک شرم سے چلو بھر پانی میں ہی ڈوب مرے، ذرا ملاحظہ کریں !
کچھ اور نہیں تو بھوک ہی برابر بانٹ دی جائے
’’اُمت ‘‘ کے خواب دکھانے والے بازی گر خود محلہ کی سطح پر بھی متحد نہیں
نظریۂ ضرورت نے نظریہ پاکستان کو زندہ نگل لیا ۔اور
ان کا ’’صوفی ‘‘ سائنسدان سیب کو نیچے گرتا دیکھ کر کششِ ثقل دریافت کرتاہے جبکہ ہمارا مولوی سیب کو نیچے دیکھ کر اسے دھوئے بغیر اپنے جبے کے ساتھ رگڑ کر کھانے کے بعد لمبا ڈکار مارتا ہے اور کہتا ہے ۔۔۔ شکرالحمد للہ ۔
یقین جانیے چینی یادداشتوں اور جاپانی معدوں والے پاکستان کے علاوہ کہیں بھی تبدیلی یا انقلاب کیلئے یہ ’’کالے قول ‘‘ ہی کافی، لیکن بدزبانی و بدکلامی سے ترقی کر کے ’’جُتیوجُتی ‘‘ہوئی سیاست، بدہضمی کے ڈکار وں میں خالی دماغ راج کرتے رہنما، اندھی، بہری، گونگی جمہوریت اورفاقوں، ناکوں، دھماکوں میں لڈیاں ڈالتی جمہور۔۔ یہاں اگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا تو حیرانی اس لئے نہیں ہوتی کہ جہاں ’’کالے کرتوت‘‘ فخریہ پیشکش، وہاں ’’کالے قولوں ‘‘ نے کیا بگاڑ لینا، یہی بات استادکچھ یوں سمجھائیں !
ہم دو نمبر کاموں میں ایک نمبر قوم ہیں
ہم میں سے ہر ایک کا ہاتھ کسی دوسرے کی جیب میں ہے
عوام طاقت کا سرچشمہ ضرور ہیں لیکن ۔۔۔سوکھا ہوا چشمہ
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں، یہ تو سب کو ہی معلوم کہ استادوں کے استاد حسن نثار سپر ہیوی ویٹ کالم نگار، برف کو آگ لگا دینے والے مقرر، چلتی پھرتی تاریخ، کل اور آج کا حسین امتزاج، دوستی اور دشمنی میں قبر تک پیچھاکرنے والے، نفرت و محبت میں ہر ریا کاری سے پاک، اوّل تا آخر پاکستانی اور اندر باہر سے ایک مگراستاد نے کچھ چیزیں اپنے کھردرے لہجے، کڑوے کسیلے انداز اور چہرے پر سجائے غم وغصے میں بڑی کامیابی سے چھپا رکھیں، جیسے بظاہر ہٹلر نظر آنے والے استاد اندر سے نرم دل ایسے کہ انسان اتنی انسانوں کی کیئر نہ کریں جتنا خیال یہ پرندوں اور جانوروں کا رکھیں، جیسے سو شلسٹ، کمیونسٹ اور نجانے کیا کیا دکھائی دینے والے استاد اند ر سے نہ صرف اللہ کو ماننے والے بلکہ اللہ کی ماننے والے اور نبی ؐ سے تو ایسی محبت کہ رشک آئے، جیسے بظاہر ایسے موڈی مشہور کہ ہاتھ کیا ملانا، سلام کا جواب نہیں دیتے، لیکن حقیقت یہ کہ بندہ بندے کا پتر ہو توپہلی ملاقات میں ہی جھپیو جھپی اور جیسے عام خیال کہ استاد محفلوں، مجلسوں اور بیٹھکوں سے دور بھاگنے والے تنہائی پسند لیکن صورتحال یہ کہ استاد کی محفل روزانہ لگے اور ایسی لگے کہ بند ے کو اپنا ہوش رہے اور نہ وقت کا، یہ میری خوش نصیبی کہ ایسی ہی بیٹھکوں میں لائل پور سے لاہور تک، اسرار الحق سے حسن نثار تک، دھنک سے جنگ تک، نصرت فتح علی خان سے سنتوش،درپن تک، اداکارہ آسیہ کی شیو کہانی سے، اداکارہ رانی کے ساتھ ڈرائیو تک، فلم اسٹار ننھا کے ادھار سے علاؤالدین کے گھر مار دھاڑ تک، بابا چشتی سے ملاقاتوں سے اللہ وسائی المعروف نورجہاں کی باتوں تک، فلموں کے گانوں، کہانیوں سے فلمی اسٹوڈیوز میں سیاست تک، دہی بھلوں کی دکان سے سعودی کاروبار تک اور صحافت سے سیاست تک استاد سے کیا کیا نہ سنا اور یقین جانئے جو جو سنا بے مثال اور لاجواب۔
یہ بھی سن لیں کہ استاد کمال کے شاعر بھی، یہ تو انہوں نے بڑی محنت سے اندر کے شاعر کو ادھ موا کر رکھااور ہاں یاد آیا استاد ایک کلاسیکل جملے باز بھی، جیسے ایک دفعہ موٹے صحافی کو جب میں پتلا ہونے کے طریقے بتانے میں لگا ہوا تھا تو یہ بولے ’’ ایہہ پتلا تاں ہی سو سکدا اے جے خوشامد چھڈ دیوے، ایدے جسم وچ اونی چربی نئیں جنی خوشامد اے ‘‘، مجھے وہ سہ پہر بھی یاد جب مسلسل کھاتے ایک بڑے صاحب ملک وقوم کی فکر میں گھلے جارہے تھے تو اچانک استاد سنجیدہ ہو کر بولے ’’ ماشاء اللہ جتنا آپ کو کھانے کو ملے اگر اس سے آدھا قوم کو مل جائے توہمارے ملک کے 50فیصد مسائل ویسے ہی ختم ہو جائیں ‘‘، اور وہ شام جب میں اپنے ملک کے ایک سپر ا سٹار کی جی بھر کر تعریفیں کر چکا تو بولے ’’ ایہہ سپر سٹار تے ہوگیا، پراپنے اندر دا میراثی نئیں مار سکیا‘‘، دوستو! میرا ماننا ہے کہ اگر ہماری صحافت سے استاد کو نکال دیاجائے تو باقی وہی کچھ بچے گا جو غالب کو نکالنے کے بعد اُردو ادب میںبچے اور اگر استاد کا لکھا، کہا صحافت میں نہ ہوتو باقی لکھے، کہے میں وہی کچھ رہ جائے جو بھٹو صاحب کو نکال کر یا زرداری صاحب کو ڈال کر پی پی میں رہ جائے ، مجھے چونکہ ان سے محبت، اس لئےمیر ی باتیں تو کبھی ختم نہیں ہوں گی لیکن آج چونکہ آپکو استاد کے قصے نہیں انکے قول سنانے، لہٰذا ذکر دلدار،حسن نثار پھر کبھی سہی، پڑھیے ’’کالے قول‘‘۔
مہنگائی نے اس طرح مجنوں بنایا کہ ہر قیس کو اپنی لیلیٰ بھول گئی
اب کسی بھوکے بے روزگار کو برتن دھونے والے صابن کی ضرورت نہیں
غیروں نے کائنات میں نئی زمین ڈھونڈلی ۔یہاں آئین ہی دکھائی نہیں دیتا
اسامہ بن لادنی، صدامی اور ملاعمری کے نتائج بھگتنے کے باوجود ابھی تک کچھ عقل کے اندھوں کو سمجھ نہیں آئی کہ مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟
مسلمانوں کو کسی ماہر ترین ’’فزیو تھریپیسٹ ‘‘کی ضرورت ہے جس سے فارغ ہو کر انہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس جانا ہوگا
عوام کالی رات میں کالے چشمے پہن کر کالے کمرے میں کالی بلی ڈھونڈ رہے ہیں
ایک اچھا پاکستانی نہ نماز چھوڑتا ہے نہ عمرہ چھوڑتا ہے نہ حج چھوڑتا ہے نہ روزہ چھوڑتا ہے اور ۔نہ حرام چھوڑتا ہے نہ جھوٹ چھوڑتا ہے نہ خوشامد چھوڑتا ہے نہ منافقت چھوڑتا ہے نہ کام چوری چھوڑتا ہے نہ ملاوٹ چھوڑتا ہے
جتنا بڑا ’’نشان ‘‘ اسکے ماتھے پر ہے ۔۔۔اس سے کہیں بڑا گہرا اور سیاہ نشان اس کے دل پر ہے
یہ بے حس منرل واٹر پی کر عوام کیلئے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے بناتے ہیں
یہ بدمعاش اپنے بچے کو مہنگے ترین ا سکول میں ڈراپ کرنے کے بعد ’’تعلیمی پالیسی ‘‘ پرمیٹنگ کیلئے روانہ ہوتے ہیں ۔
یہ منافق بیش قیمت ائیر کنڈ یشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر ’’پبلک ٹرانسپورٹ ‘‘ کی ’’بہتری ‘‘ پر غور کرتے ہیں
عدالت ہے انصاف نہیں، اسپتال ہے علاج نہیں، مزدور ہے مزدوری نہیں، منہ ہے نوالہ نہیں، الیکشن ہے جمہوریت نہیں، مولوی ہے دین نہیں، ملک ہے آئین نہیں، واپڈا ہے بجلی نہیں، واسا ہے پانی نہیں ۔۔یہ ہے ہمارا پاکستان
پاکستان اسلام کا قلعہ نہیں ۔۔۔قلع قمع ہے
کچھ لوگ خود اپنی ذات کی تعمیر میں بھی گھٹیا اور ناقص میٹریل استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں کہ چلو بچت ہوگئی
میں 50جملے لکھتا ہوں ۔۔کوئی حکمران اور سیاستدان ان کے بغیر صرف 5منٹ بول کر دکھائے
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو پیدائش کے وقت کوئی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگایا گیا
جہاں دودھ او ردوا تک خالص نہ ہو۔۔۔وہاں دعا بھی خالص نہیں رہتی
جنازوں پر نہیں ۔۔۔جہالت پر گریہ کرو
اگر نعروں، بڑھکوں اور بددعاؤں کی کوئی قیمت ہوتی تو ہم دنیا کی دولت مند ترین قوم ہوتے
لوگ گاڑیوں میں بیٹھے صوفیانہ کلام سن رہے ہوتے ہیں مگر چیختی ہوئی ایمبولینس کو رستہ نہیں دیتے
خواص مل اونر۔۔۔عوام بل اونر
معجزے عوام دکھائیں ۔۔۔مو جیں کچھ منحوس اڑائیں
کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو مشرقی پاکستان کون سی شریان تھا؟
قریب المرگ معاشرہ کی پہچان یہ ہے کہ وہاں مایوسی اور مبالغہ کا غلبہ ہوتا ہے
لیڈر ہی نہیں ووٹر تک کرپٹ ہے
اگر کسی کی پگڑی پھاڑ کر کسی ننگے کی ستر پوشی ہوسکتی ہے تو یہ کسی عبادت سے کم نہیں
یہاں پولیو زدہ پہلوان بن جاتے ہیں، چوہے ڈائنا سور کا روپ دھار لیتے ہیں، چندے پر پلنے والے چاند مانگ لیتے ہیں
ہمارے حکمرانوں نے اپنے رویوں سے ’’جمہور یہ ‘‘کو تقریباً ہر شعبہ حیات میں ’’ناسوریہ ‘‘بنا دیا ہے
گدھوں پر بیٹھ کر ڈربی نہیں جیتی جاسکتی
یہ ’’ہر دلعزیز ‘‘اکثر ہر دل غلیظ ہوتے ہیں
ہم نے 70سال سے خیالی پلاؤ کی دیگیں چڑھار کھی ہیں اور احمقوں کی جنت میں دسترخوان بچھائے بیٹھے ہیں
عوام حکمرانوں کو دیکھ کر صبرکرتے ہیں اور حکمران ان ’’ باشعوروں ‘‘ کو دیکھ کر شکر ادا کرتے ہیں
میں چاہتا ہوں کہ عوام، عوام کے خلاف جلوس نکالیں
جھوٹے کی سچائی بھی جھوٹ ہوتی ہے
دنیا بھر کا کپڑا جہالت کی ستر پوشی نہیں کر سکتا
ہم نے صرف بھگتنا ہے ۔۔۔سمجھنا نہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین