• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر مہذب اور قبائلی دشمنیوں سے بھرے سماج میں یہ دشمن کے لئے بھی غلط ہی کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو اس جگہ ماروں گا جہاں اس کو پانی بھی نہیں ملے گا‘‘ یا ’’ ہمارا کاٹا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا‘‘۔
لیکن نہ جانے اس اکسیویں صدی میں بھی سندھ کی موجود ہ حکومت کو سندھ کے عوام سے کیا دشمنی ہے؟ جبکہ اکثر عوام ان حکمرانوں اور ان کی پارٹی کے ہی ووٹر ہیں اس کے باوجود عوام کی اکثریت کو گندااور بہت سی جگہوں پر انسانی فضلے سے کثیف پانی مہیا کیا جا رہا ہے جو اب پانی پر تحقیقاتی رپورٹ میں ثابت ہوچکا ہے۔
واٹر سپلائی کے مراکز جوہڑوں اور سوکھے تالابوں میں کب کے بدل چکے ہیں۔ کروڑ ہا روپے سے امپورٹ کی ہوئی مشینری کباڑیوں کو اسکریپ میں بیچ کر اپنی ’’جون بدل بھی چکی‘‘۔ سندھ کے لوگ ہیں کہ صحرا میں ’’العطش العطش‘‘ کی صدا بن چکے ہیں۔ ہر روز سندھ کے لوگوں کے ساتھ ایک نئی کربلا ہے۔ مجھے اس موقع پر قتیل شفائی کا شعر یاد آر ہا ہے:
میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
اُس شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے
اکیسویں صدی کے یزید تو پراری واٹر پی رہے ہیں۔ فرانس سے امپورٹ شدہ، لیکن یہاں سندھ کے عوام کو ایسا پانی پلایا جا رہا ہے جو کہ انسانی فضلے یا ہیومن ویسٹ سے بھرا ہوا ہے۔ اور پھر غضب یہ کہ اس پر سندھ کے حکمرانوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’پنجاب میں کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟‘‘۔ نہیں بہہ رہی ہو نگی لیکن سندھ کے ارباب اختیار تم سے زیادہ گئے گزرے حالات بھی ابھی نہیں ہوئے۔ مبارک ہو کہ کم از کم پانی میں تو آپ تخت پنجاب کے ہم عصر نکلے۔
پینے کا صاف پانی تو ہر انسان کا حق ہے اور یہ امر ایک عالمگیر بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح زندگی کا حق۔ لیکن زندگی کا حق تو سندھ اور ملک کے لوگوں کو رائو انوار جیسوں کی صورت میں سول و غیر سول حکام نے یقینی بنایا ہوا ہے۔ ایک رائو انوار کیا اس جیسے کئی ہیں۔ چار سو چوالیس سر صرف اسی کے کھاتے میں آتے ہیں۔ لیکن سندھ کے عوام پینے کے صاف پانی سے محروم۔ جیسے گزشتہ ہفتے پانی کے عالمی دن کے حوالے سے ایک انگریزی اخبار کی سرخی تھی پانی کے عالمی دن کے موقع پر سندھ کے لوگوں کے پاس اس کے منانے کو کچھ بھی نہیں۔
میرے پیارے، سندھ کے لوگوں کے پاس منانے کو سمندر کے پانی جیسے کھارے آنسو ہیں اور بہت سے ہیں۔ سمندر کی لہریں جس طرح گنی نہیں جاسکتیں اس ہی طرح سندھ کے لوگوں کے آنکھوں کے آنسو بھی انگنت ہیں۔ یہ کوئی ڈائیلاگ نہیں تلخ حقیقت ہے۔ جیسے گندا پانی سندھ میں ایک حقیقت ہے۔ سندھ کو واقعی کالے پانی کی سزا ہے۔ یہ ان کو اپنے ہی ووٹوں کی سزا ہے۔ پتہ نہیں۔ کالا باغ بننے سے پہلے ہی سندھ کے لوگوں کو سبز باغوں کی سزا۔
آنسوئوں پر یاد آیا ہے کہ پچھلے دنوں خیرپور میرس کی تحصیل فیض گنج کے ایک گائوں میں پولیس نے ایک شخص فتاح شر کو دوڑا دوڑا کر گولیاں مار کر قتل کیا۔ وہ مقتول شخص جس کیلئے پولیس نے کہا کہ وہ قتل کے مقدمے میں مطلوب تھا اور پولیس سے مقابلے میں ماراگیا۔ لیکن فتاح شر کی بہنوں، ماں باپ اور علاقے والے ایک سندھی نیوز چینل پر کہہ رہے تھے کہ اسے جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ میں نے فتاح شر کی والدہ کو ٹی وی نیوز چینل پر کہتے سنا کہ انہوں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے اسے دوڑا دوڑا کر گولیاں ماریں۔ وہ گرا ہوا تھا اور وہ پانی مانگ رہا تھا اور پولیس اس کے منہ پر تھوک رہی تھی۔ فتاح شر کی ماں اور بہن چینل کے نمائندے کو بتا رہی تھیں۔ اس کی ماں کہہ رہی تھی کاش میں اپنے ساتھ پانی لے جاتی۔
اے گورکنو! قبر کا دے کر مجھے دھوکا
تم نے تو خلاؤں میں مجھے گاڑ دیا ہے
قتیل شفائی کی اسی غزل کا ایک اور بند ہے۔
یہ وہ سندھ ہے جس کی منچھر جھیل کیلئے صحیح یا غلط دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ منچھر جھیل ایشیا کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ اب جس کا پانی زہریلا ہوئے بھی دہائیاں بیت گئیں۔
پانی کے بہتے جوہڑ میں زینب کی طرح جنسی دہشت گردی کا شکار ہوئے ایک بچے شیراز کی لاش ملی اور یہ بھی خیرپور میرس میں۔ کئی دن سے غائب شیراز عامر کو دہشت گردوں نے درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرکے اس کی لاش پانی کے جوہڑ میں پھینک دی۔ایک اورٹیلی وژن چینل پر آپ نے عمر کوٹ میں اسپتالوں کی حالت زار پر پروگرام دیکھا ہوگا۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کوئلہ نکل رہا ہے۔ تھر کے اسپتالوں میں بچے مریں تو کیا۔ کوئلہ تو نکل رہا ہے نہ! گوڑانو ڈیم میں زہریلا پانی چھوڑا جائے تو کیا۔ کوئلے سے ہم سب اپنے چہرے، دماغ، دل، ہاتھ، روشن کرلیں گے۔ کالا ہیرا بر آمد ہورہا ہے۔ نوجوان اور ٹین ایج بچے اور عورتیں کالا پتھر کھا کر خودکشیاں کریں تو کیا۔ حق والوںکا حق مل رہا ہے۔ ہمیں اس سے کیا کہ دیوار برلن کے ٹوٹنے کی ایک وجہ سابقہ مشرقی جرمنی میں کوئلے کی تباہ کن صنعت بھی تھی۔ جس سے سانس اور پھیپھڑوں کی کئی بیماریاں اور ایک طرح کا ماحولیاتی ہولوکاسٹ ہوا تھا۔ ماحولیاتی مہاجرین بن کر لوگ پہلی دفعہ نکلے لیکن سینی ٹوریم بنائے ہوئے تھے جہاں مشرقی برلن والے استھیما کے مستقل مریض کا کامریڈ امام علی نازش علاج کیا کرتے تھے۔ اب میں ایسا مشرقی جرمنی تھر کو بنتے دیکھ رہا ہوں۔ یعنی کہ سندھ کے عوام ایسے جلے کہ نہ کوئلہ بنے نہ راکھ۔ حکمراں مشرقی جرمنی کے ہونیکر کی طرح بن گئے۔
سندھ میں ہر تیسرا چوتھا، چھٹا پانچواں شخص ہیپاٹائٹس سی جیسی بیماری کا شکار ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ پانی ہے۔ ہر طرح کی کثافت سے بھرپور پانی۔ ارباب اختیار سندھ تمہیں بس چلو بھر پانی درکار ہوگا۔ کیا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین