• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شیزوفرینیا‘‘ حقیقت سے لاتعلقی کی ذہنی بیماری

’’شیزوفرینیا‘‘ حقیقت سے لاتعلقی کی ذہنی بیماری

ابتدائی علامات

یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے مریض حقیقت سے بالکل لاتعلق ہو جاتا ہے۔ مردم بیزاری سے مریض کسی انسان سے بات چیت سے نفرت کرتا ہے بلکہ جارحانہ رویہ رکھتا ہے اس کی سوچ میں لایعنی اور غیرمنطقی باتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، بے ربط گفتگو کرنے لگتا ہے۔ کردار بے ہنگم ، کبھی بہت غصے میں ، کبھی ہنسنے لگتا ہے مختصراً اسے وہم اور خبط کی بیماری بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اس مرض کی اہم ترین علامتیں ہیں۔ شیزوفرینیا خطرناک اور معذورکن ذہنی مرض ہے۔

اسباب کے متعلق ماہر ین نفسیات کی مختلف آرا

اگر ابتدا ہی سے اس کا علاج نہ ہو تو مرض بے قابو ہو جاتا ہے اور اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر معالج ایسی ادویات استعمال کراتے ہیں جو مریض کو سلا دیتا ہے۔ شیزوفرینیا کے بارے میں اور اس کے اسباب سے متعلق ماہر نفسیات کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے ایک گروپ نے تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا ہے اگر ایک شخص کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو 50فیصد صورتوں میں اس کے ساتھ ہر وقت دوسرا رہنے والا شخص بھی اس مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات پین روز کا خیال ہے کہ خارجی ماحول کی قوتوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود انتہائی منفی سوچوں کی وجہ سے اس بیماری میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ 

بابائے ماہر نفسیات فرائڈ کا کہنا ہے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کی قوت حیات خارجی ماحول کی اشیاء سے کنارہ کشی کرکے ذات سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ مرض ’’ایگو‘‘ کی مکمل تباہی ہے اور شدید مراجعت اور مایوسی اس مرض کا سبب قرار دیا ہے۔ مراجعت کے معنی واپسی کے ہیں۔ یعنی ماضی کی طرف دھیان رہتا ہے اسے نسٹلجیا بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ماضی میں کھوئے رہنا اور حال میں کچھ نہ کرنا۔ ایک ماہر نفسیات کسینن نے فرد کی عزت نفس کو زک پہنچانے والے صدمات کو اس کا باعث بتایا جاتا ہے جب کسی انسان کو اتنا ذلیل کیا جائے تو اچانک غصے میں آکر قتل بھی کردے یہ اس بیماری کا فوری ردغمل ہے۔ 

غلاموں کے ساتھ ظلم اور زبردستی کی جاتی تھی تو ان میں یہ مرض پھیل جاتا تھا اور آقا سمجھتے تھے کہ اس نے بغاوت کردی۔ اور ایک ماہر نفسیات بائسن کا خیال ہے کہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا نہ سیکھنے والے لوگ ا س مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شیزوفرینیا کے مریضوں میں پیدائشی اور عضویاتی خامیاں سبھی موجود ہوتی ہیں اور نفسیاتی طور پر بھی پوری طرح نشوونما یافتہ نہیں ہوتے۔

سادہ شیزوفرینیا

اس کی علامات میں جسم اور لباس سے بے نیازی ، اخلاقی گراوٹ ، بچوں کی سی حرکتیں کرنا اور جذباتی طور پر کبھی کبھار بے حس ہو جاتا ہے اور دنیا سے بالکل لاتعلق ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں اور ان کی دل چسپیوں کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔ مریض تعمیری کام نہیں کرتا ، توڑ پھوڑ بھی کرتا ہے اس فکر پراگندہ اور گفتگو احمقانہ ہوتی ہے۔

کیسٹے ٹونک شیزوفرینیا

یہ مرض عام طور پر پندرہ سے پچیس برس کے درمیان لاحق ہو جاتا ہے اس کا حملہ ایک دم اور اچانک ہوتا ہے۔ مریض دیکھنے اور سننے میں خلل محسوس کرتا ہے اسے کچھ کا کچھ دکھائی یا سنائی دیتا ہے۔ مریض پژمردگی ، اضمحلال یا انتہائی مایوسی اور جنونیت کے دورے پڑنے لگتے ہیں ایسا شخص خودکشی بھی کرسکتا ہے ایسا مریض توڑ پھوڑ اور تشدد پر اتر آتا ہے۔ اس مرض کی ایک اور خصوصیت مریض کی جسمانی حرکات وسکنات کی تبدیلی ہے یہ لوگ طویل عرصے تک ایک ہی انداز میں بیٹھے یا کھڑے رہتے ہیں اور جسم اکڑا لیتے ہیں۔

ہیپی فرینک شیزوفرینیا

اس قسم کا مریض شدید وہم اور اوہام کا شکار ہو جاتا ہے وہ اپنے جسم کے بعض حصوں کو اپنا تسلیم کر لینے سے انکار کر دیتا ہے- اس مرض کے شکار لوگوں میں جنسی اعضا کی نمائش کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔

پیرا نائیڈ شیزو فرینیا

احمقانہ، غیر منظم اور مستقل قسم کے ضبط اور وہم اس مرض کی بنیادی علامتیں ہیں۔ مریضوں کو طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور لوگ نظر آتے ہیں اسے یہ خبط ہوتا ہے کہ کوئی عظیم ہستی ہے اور یہ کہ دنیا اسے ختم کرنے کے چکر میں ہے۔اس قسم کے مریض بعض اوقات خدائی کا دعوی بھی کر سکتے ہیں اپنے نادیدہ دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے یہ لوگ تشدد لور قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔

علاج بذریعہ ادویات

جذباتی عدم توازن کے علاج کے لئے دوائوں یا کیمیائی اشیاءکا استعمال نسبتاً نیا طریقہ علاج ہے۔ اگرچہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جن سے پتہ چلا ہے کہ تیس صدیوں قبل ایسی ادویات ہندوستانی طبیب واطبا کرتے تھے ،نفسیاتی یاذ ہنی معذوریوں کے علاج کے لئے جو ادویات آج کل استعمال میں لائی جاتی ہیں ان میں سے نونے فیصد ادویات 1950سے اب تک جاری ہیں ان میں مختصر سی تبدیلی کی گئی ہے۔ ان دوائوں میں سے پہلی دوا جسے عمومی طور پر پسند کیا جاتا ہے وہ ٹراینکولائز Tranqulizerہیںان ادویات کے استعمال سے مریض خود کو پرسکون محسوس کرنے لگتا ہے۔ 

اور اس کے اشتعال اور جارحیت میں کمی آ جاتی ہے ایک اندازے کے مطابق ان ادویات جن میں اینٹی ڈیپریسنٹ بھی شامل ہیں ایک اندازے کے مطابق اسے اب تک 7کروڑ مریضوں سے زائد کے لئے استعمال میں لایا گیا ہے۔شیزو فرینیا کا مرض کسی حد تک ادویات سے کنٹرول ہو جاتا ہےلیکن زندگی بھر مریض کسی کام کے قابل نہیں رہتا ہے۔ ان ادویات پر امریکا میں سب سے زیادہ اخراجات کئے جاتے ہیں پاکستان میں بھی پس ماندہ اور مالداردونوں طبقات میں یہ مرض پایا جاتا ہے لیکن اس کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ابھی تک یہ شواہد نہیں ملے کہ یہ موروثی بیماری ہے۔

تازہ ترین