عکاسی اسرائیل انصاری
کراچی پریس کلب کو پاکستان کا پہلا پریس کلب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، تو یہ بھی کہ وہ اپنے قیام کے اوّل روز ہی سے جمہوری قوّتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ پھر ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ مُلک میں سب سے زیادہ مظاہرے اسی کلب کے سامنے ہوتے ہیں اور شاید اس کی ایک وجہ وہ عوامی اعتماد ہے کہ یہاں سے وابستہ صحافی کسی دبائو میں آئے بغیر عوامی آواز متعلقہ حلقوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
کراچی کے مصروف ترین علاقے، صدر کے سرور شہید روڈ پر واقع، پریس کلب، اپنے محلِ وقوع کے لحاظ سے بھی خوش قسمت واقع ہوا ہے، کیوں کہ سندھ اسمبلی، سندھ سیکریٹریٹ، ہائی کورٹ، آرٹس کونسل یہاں سے پیدل مسافت پر ہیں، تو اخباری دفاتر بھی قریب ہیں، جس کی وجہ سے صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی میں بھی سہولت رہتی ہے۔
پانچ ہزار ایک سو مربع فٹ کے اس وسیع پلاٹ کے درمیان میں ایک دو منزلہ قدیم عمارت ہے، جو کتب خانے، کارڈ روم، کمیٹی روم، عُہدے داران کے دفاتر اور مختلف ہالز پر مشتمل ہے۔ اس عمارت کے سامنے وسیع لان ہے، جہاں عموماً صحافی ٹولیوں کی شکل میں تبادلۂ خیال کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ ایک طرف کینٹین تو دوسری طرف مسجد ہے۔ عمارت کے پچھلی جانب کار پارکنگ، ایک بڑا اسپورٹس کمپلیکس اور کے یو جے کا دفتر ہے۔
قیام اور عمارت کا حصول: کراچی پریس کلب کے قیام کے لیے 1957 ء میں کوششیں شروع کر دی گئی تھیں اور اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کے کنوینئر، آئی ایچ برنی تھے۔ اُس کمیٹی نے کلب کا دستور بنایا، جس کی روشنی میں دسمبر 1958 ء میں پہلے الیکشن ہوئے، جس میں اقبال حسن برنی کو صدر منتخب کیا گیا۔ پریس کلب کے دو بار صدر اور پانچ بار سیکرٹری رہنے والے سینئر صحافی، حبیب خان غوری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ ایم اے شکور پریس کلب کے قیام کے اصل محرّک تھے، جب کہ منہاج برنا، اقبال حسن برنی، خواجہ احتشام، امیرالدّین، مظہرالحسن اور اویس وغیرہ کو بھی بانی ارکان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
چھاپرا صاحب پرنس کریم آغا خان کا نام بھی بہ طورِ سرپرست لیتے ہیں، جب کہ دیگر سینئر صحافی رہنما، احمد علی خان، ایم اے زبیری، کاؤس جی اور اشتیاق اظہر کو بھی پریس کلب کے ابتدائی ارکان میں شمار کرتے ہیں، لیکن بانی ارکان کے ناموں پر بہ ہرحال خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔
پریس کلب کے لیے عمارت کیسے حاصل کی گئی، اس سوال پر مسلسل پانچ بار صدر منتخب ہونے والے بزرگ صحافی، عبدالحمید چھاپرا کا کہنا ہے کہ’’ انگریزوں نے یہ پلاٹ 26 پارسی خاندانوں کو فی گز چار آنے کے حساب سے الاٹ کیا تھا۔ یہ پارسی کاؤس جی کے رشتے دار تھے۔
پھر اسے آغا خان ٹرسٹ نے لے لیا، اسی لیے وہ ٹرسٹ صحافیوں کی جانب سے کرایہ بھی ادا کرتا رہا۔‘‘ حبیب خان غوری کا کہنا تھا کہ ’’صحافی پہلے لائٹ ہاؤس کے سامنے واقع، امیرالدّین کے گھر پر اجلاس کیا کرتے تھے۔ موجودہ عمارت میں ایکسپورٹ، امپورٹ کے ایک کاروباری ادارے کا دفتر تھا، جس کے مینیجر، معروف صحافی محبوب جمال زاہدی کے والد تھے اور وہ اسی عمارت کے ایک حصّے میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتے بھی تھے۔
اُن کے ایک بیورو کریٹ، نقوی صاحب سے تعلقات تھے، جنھوں نے صحافیوں کو یہ جگہ دلوائی۔ پہلے صرف وہ جگہ صحافیوں کے استعمال میں تھی، جہاں اب ابراہیم جلیس ہال ہے۔
جب زاہدی خاندان اور دیگر فیملیز یہاں سے کہیں اور منتقل ہوئیں، تو پھر پورا پلاٹ صحافیوں کے پاس آگیا۔ پریس کلب کا باقاعدہ افتتاح، جنرل اعظم خان نے کیا تھا۔‘‘ نام وَر سینئر صحافی اور مختلف تحریکوں کے روحِ رواں، احفاظ الرحمٰن کراچی پریس کلب کو’’ کراچی یونین آف جرنلسٹس‘‘ کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔
اُن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’2 اگست 1950ء کو ایک کنونشن میں صحافیوں کی مُلگ گیر تنظیم کے قیام کا فیصلہ ہوا، جس میں سندھ یونین آف جرنلسٹس کے نمایندے بھی شریک تھے۔ بعدازاں، ایس یو جے کا نام، کراچی یونین آف جرنلسٹس سے بدل دیا گیا اور اُس نے پریس کلب کی موجودہ عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنالیا۔
کچھ عرصے بعد پریس کلب کے قیام کا فیصلہ ہوا، تو یہ عمارت کلب قرار پائی۔‘‘ مگر پریس کلب کے موجودہ سیکرٹری، مقصود احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ’’ یہ عمارت ایک پارسی کی ملکیت تھی، جس سے قیامِ پاکستان کے بعد گورنر جنرل، قائد اعظم محمّد علی جناح کے اے ڈی سی کے لیے کرائے پر حاصل کی گئی۔
بعد ازاں، دفاتر نئی عمارتوں میں منتقل ہوئے، تو یہ عمارت ایک اور ادارے نے کرائے پر لے لی، جس کے ایک بریگیڈئیر رینک کے افسر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ کراچی کے چند صحافیوں کی اُن سے دوستی تھی اور وہ اکثر شام کو اُن کے پاس گپ شپ کے لیے آیا کرتے تھے۔ جب اُس ادارے نے بھی عمارت خالی کی، تو اُسے ان صحافیوں نے کرائے پر لے لیا اور پریس کلب کی صُورت دے دی۔‘‘
عمارت پر تنازع: پریس کلب کی موجودہ عمارت تنازعات کی زد میں بھی رہی ہے اور صحافیوں کو یہاں اپنی پیشہ ورانہ خدمات جاری رکھنے کے لیے قانونی جنگ بھی لڑنا پڑی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک روز پارسی مالک نے اچانک اس عمارت کو عبدالغنی سایا نامی شخص کو فروخت کردیا، جس نے کچھ ہی دنوں بعد صحافیوں کو عمارت خالی کرنے کا نوٹس جاری کردیا، جس پر معاملہ عدالت چلاگیا۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک عرصے سے یہاں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اس لیے قانونی طور پر اُنھیں یہ حق حاصل ہے کہ پہلے اُنھیں یہ عمارت خریدنے کا موقع دیا جائے۔
بہ ہرحال، اب صحافیوں نے کرایہ عدالت ہی میں جمع کروانا شروع کردیا، جو اُنہیں آغا خان فائونڈیشن کی جانب سے دیا جاتا تھا۔ بہ ہرحال، طویل عدالتی جنگ کے بعد، 1997ء میں ایک معاہدے کے تحت یہ معاملہ حل ہو ہی گیا۔ اس حوالے سے سینئر صحافی اور پریس کلب کے اُس وقت کے سیکرٹری، مظہر عبّاس نے بتایا کہ’’ اس معاملے کا ایک سہ پارٹی معاہدے کے ذریعے حل نکالا گیا، جس کے تحت عبدالغنی سایا کو مولوی تمیز الدّین روڈ پر واقع، کے ایم سی کے دو بنگلے دیے گئے، جس پر اُنہوں نے عمارت پریس کلب کو گفٹ کردی۔ یہ معاہدہ کروانے میں فاروق ستار کا بھی اہم کردار رہا۔
اس موقعے پر پریس کلب میں ایک خصوصی تقریب بھی ہوئی، جس میں اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ، لیاقت جتوئی نے کاغذات صحافیوں کے حوالے کیے۔‘‘ عمارت تو مل گئی، مگر پھر بھی کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ مقصود احمد یوسفی کہتے ہیں’’ ہوا یہ کہ عمارت تو صحافیوں کو مل گئی، مگر لیز کا معاملہ معلّق ہوگیا۔ مالک کو چاہیے تھا کہ وہ کنٹونمنٹ بورڈ سے این او سی حاصل کرتا، مگر اُس نے ایسا نہ کیا اور صحافیوں کا بھی اس طرف دھیان نہیں گیا۔ معاہدے کے تحت مالک کو تو دو بنگلے مل گئے، لیکن ہمارے حصّے میں آنے والی عمارت کی لیز نہیں ہو پارہی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے پاس جاتے ہیں، تو جواب ملتا ہے کہ این او سی اصل مالک ہی لے سکتا ہے، لیکن اب اُسے کہاں سے لائیں، کیوں کہ وہ تو مدّتوں پہلے انتقال کرچکا۔ اُس کا بیٹا ہے، لیکن اُسے اس معاملے سے کوئی دِل چسپی نہیں۔
ہم نے متعلقہ اداروں سے مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی ہے اور حکومتِ سندھ نے بھی تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔‘‘ چوں کہ پریس کلب کی عمارت خاصی قدیم ہے، اس لیے بعض حصّے ایک عرصے سے ضروری مرمّت کے متقاضی رہے ہیں۔
اس حوالے سے پہلی بار چار، پانچ برس قبل مرمّتی کام اُس وقت شروع ہوا، جب حکومتِ سندھ کے ہیریٹیج ڈپارٹمنٹ نے مرمّت کی ذمّے داری لی اور اس محکمے کی وزیر، سسّی پلیجو نے کام کا افتتاح بھی کیا، مگر بات افتتاح سے آگے نہ بڑھ سکی۔
اب حکومتِ سندھ’’ سندھ انڈومنٹ فنڈ‘‘ کے ذریعے، جس کے چیئرمین حمید ہارون ہیں، اس عمارت کی تزئین و آرائش کا کام کررہی ہے۔ یہ فنڈ، قدیم عمارتوں کو اُن کی اصل حیثیت میں بحال کرنے کے لیے ہی قائم کیا گیا ہے۔
کئی بار ایسے مواقع بھی آئے، جب پریس کلب کو موجودہ مقام سے کسی اور جگہ منتقل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ اس حوالے سے عبداللہ شاہ دورِ حکومت کا واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ سینئر صحافی، احفاظ الرحمٰن نے، جن کا اس معاملے سے گہرا تعلق تھا، بتایا کہ’’ ایک روز پریس کلب گیا تو پتا چلا کہ آج کے اخبارات میں پریس کلب کی کوئنز روڈ کے ایک بنگلے میں منتقلی کی خبر شایع ہوئی ہے، جہاں باقاعدہ بورڈ بھی آویزاں کردیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ، سیّد عبداللہ شاہ ایک دو روز میں افتتاح کرنے بھی آ رہے ہیں۔
یہ سب کام پریس کلب کی اُس وقت کی گورننگ باڈی کی منظوری ہی سے ہوا تھا۔ بہ ہرحال، مَیں نے عبدالحمید چھاپرا اور دیگر سینئر ارکان سے مل کر اس منتقلی کے خلاف آواز اٹھائی اور کلب کے آئین کے مطابق، ستّر ارکان کے دست خطوں سے جنرل باڈی اجلاس بلوالیا۔ جس کے بعد ضمیر نیازی کی سربراہی میں ایک نو رُکنی کمیٹی قائم کی گئی، جس کا پہلا اجلاس اُنہی کے گھر پر ہوا۔ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ پریس کلب کی منتقلی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔‘‘
چوں کہ کراچی پریس کلب ہمیشہ آمروں کو کھٹکتا رہا ہے، اس لیے بعض ادوار میں اسے تقسیم کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ حبیب غوری کے مطابق’’ ضیاء دورِ حکومت کے سیکرٹری اطلاعات، جنرل مجیب الرحمٰن نے ایک معروف صحافی کو اسلام آباد بلوا کر واٹر بورڈ( موجودہ سپریم کورٹ رجسٹری) کی عمارت میں کچھ کمرے دینے کی پیش کش کی، تاکہ نیا پریس کلب بن سکے، مگر اُنھوں نے صاف انکار کردیا۔‘‘ بعدازاں، جمہوری ادوار میں بھی اس طرح کی کوششیں کی گئیں، مگر اُنھیں بھی پزیرائی حاصل نہ ہو سکی۔
بجٹ: ابتدائی دنوں میں پریس کلب کسی قسم کی حکومتی گرانٹ قبول نہیں کرتا تھا، مگر پھر اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈونیشن کے ساتھ، حکومتی گرانٹ بھی لینے کا آغاز ہوا، لیکن یہ گرانٹ برائے نام ہی رہی ہے۔ مقصود یوسفی کا کہنا ہے کہ’’ دراصل حکومتی گرانٹ کا انحصار وزیرِ اعلیٰ کے مُوڈ ہی پر ہوتا تھا۔
کبھی 50لاکھ دینے کا اعلان ہوا، تو کبھی 10لاکھ ہی ہاتھ میں تھما دیے گئے، مگر جب مُراد علی شاہ، وزیرِ خزانہ بنے، تو اُنہوں نے پریس کلب کے لیے مناسب گرانٹ مقرّر کرکے اُسے باقاعدہ بجٹ کا حصّہ بنانے کا وعدہ کیا اور پھر وزیرِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے پر وہ وعدہ پورا بھی کردیا۔ گزشتہ برس سے پریس کلب کے لیے سالانہ ڈھائی کروڑ کی گرانٹ کو بجٹ کا حصّہ بنادیا گیا ہے۔‘‘
انتظامی ڈھانچا، ممبرز :5عُہدے داروں اور 7گورننگ باڈی کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم، پریس کلب کے معاملات کو چلاتی ہے، جن کا کلب ممبرز ہر سال خفیہ ووٹنگ کے ذریعے انتخاب کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے کم ہی ادارے ہیں، جہاں کراچی پریس کلب کی طرح انتخابی روایت مستحکم ہو، کیوں کہ اس کلب میں پہلا الیکشن 1958ء میں ہوا اور پھر اُس کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا کہ الیکشن نہ ہوئے ہوں۔ صرف ایک بار، جب بے نظیر بھٹّو کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، تو الیکشن کی تاریخ کو 10روز کے لیے آگے بڑھایا گیا، مگر اُن حالات میں بھی الیکشن ہوئے۔ ابتدائی دنوں میں ہر برس جون میں الیکشن ہوتے تھے، پھر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مارچ میں ہونے لگے اور اب ایک اور ترمیم کے بعد سے دسمبر میں الیکشن ہوتے ہیں۔
بعض سینئر ارکان نے اس دستوری شق کی جانب بھی توجّہ مبذول کروائی ہے، جس کے مطابق کوئی بھی رُکن مسلسل دو بار سے زاید، صدر یا سیکرٹری کے عُہدے پر نہیں رہ سکتا۔ اُن کے مطابق’’ اس ترمیم کی روح یہ تھی کہ اہم عُہدوں پر فائز رہنے والے افراد کم از کم ایک سال کے وقفے کے بعد بڑے عُہدے کی دوڑ میں شریک ہوں، مگر اب ہو یہ رہا ہے کہ دو بار صدر رہنے والا شخص، تیسرے الیکشن میں سیکرٹری کے عُہدے پر آجاتا ہے اور اسی طرح سیکرٹری رہنے والا، تیسرے سال صدر بن جاتا ہے۔‘‘ سینئر ارکان کے مطابق، اس رویّے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دستور کی متعلقہ شق پر اُس کی روح کے مطابق سختی سے عمل درآمد کروایا جانا چاہیے۔
کراچی پریس کلب کے ممبرز تین اقسام میں منقسم ہیں۔ (i)کاؤنسل ممبرز، ایسے صحافی، جن کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ صرف صحافت ہو، اُنہیں کاؤنسل ممبر بنایا جاتا ہے اور صرف یہی ممبرز، انتخابات میں حصّہ لینے کے اہل ہوتے ہیں۔
اِس وقت کاؤنسل ممبرز کی تعداد، 1185ہے۔ (ii) ایسوسی ایٹ ممبرز، مختلف اداروں کے مارکیٹنگ اور شعبۂ تعلقاتِ عامّہ سے وابستہ افراد کو یہ ممبر شپ دی جاتی ہے۔ (iii) اعزازی ممبر شپ ان نمایاں افراد کو پیش کی جاتی ہے، جن کی مُلک و قوم کے لیے خدمات ہوں۔
جیسے فیض احمد فیض، حبیب جالب، جوش ملیح آبادی، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ائیر مارشل (ر) نور خان، کائوس جی، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر عبدالسّلام، پرنس کریم آغا خان، حنیف محمّد، عمران خان، اقبال بانو، جاوید میاں داد، جہانگیر خان، جسٹس درّاب پٹیل، فخر الدّین جی ابراہیم، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ضمیر نیازی اور گزشتہ برس قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان، سرفراز احمد کو اعزازی ممبر شپ دی گئی۔
پریس کلب کی ممبر شپ پالیسی تنقید کی زَد میں بھی رہی ہے، مگر بہت سے ارکان اس پالیسی کا دفاع کرتے ہیں، البتہ خود کلب کے کئی ایک سینئر ارکان کا، جو اہم عُہدوں پر بھی رہے ہیں، کہنا ہے کہ’’ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ممبرز کی بجائے ووٹرز بنانے کو ترجیح دی گئی ہے، جس سے کلب کے ماحول اور کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔‘‘
کوئی سرکاری ملازم پریس کلب کا کاؤنسل ممبر نہیں بن سکتا، اسی لیے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ صحافیوں کو کلب کی رکنیت نہیں دی جاتی۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل’’ صفائی مہم‘‘ بھی چلائی گئی، جس کے دَوران ایسے 50افراد کی رکنیت ختم کی گئی، جو صحافت کے ساتھ، سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے۔
قبل ازیں، ٹی وی جرنلسٹس کو پریس کلب کی رکنیت نہیں دی جاتی تھی، مگر بعدازاں ایک آئینی ترمیم کے بعد اُنھیں بھی رکنیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم ابھی تک یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے کہ آیا ٹی وی جرنلسٹس کو رکنیت ملنی چاہیے تھی…؟؟ مُلک کے باقی کلبز نے کراچی پریس کلب کے بعد ہی ٹی وی جرنلسٹس کو رکنیت دینے کا آغاز کیا۔
ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ’’ ٹی وی جرنلسٹس کو پریس کلب کی رکنیت دینے کے لیے سابق گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد نے لابنگ کی تھی۔‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ’’ مَیں خود اُس اجلاس میں شریک تھا، جس میں عشرت العباد نے ٹی وی جرنلسٹس کو رکنیت دینے پر اصرار کیا اور پھر کچھ روز بعد ہی کلب کے آئین میں ترمیم ہو گئی۔‘‘
صحافی تنظیموں کا عمل دخل: اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی پریس کلب نے’’ کراچی یونین آف جرنلسٹس‘‘ کے بطن ہی سے جنم لیا، مگر اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تنظیم، ان دنوں تین دھڑوں میں تقسیم ہے اور یہ تینوں ہی پریس کلب میں سرگرم ہیں۔ یہ تینوں گروپس پریس کلب کے انتخابات میں بھرپور حصّہ لیتے ہیں اور اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہیں۔
اس دَوران قدرے کشیدگی بھی دیکھنے میں آتی ہے، تاہم انتخابات کے بعد صُورتِ حال معمول پر آجاتی ہے۔ اپنے اپنے نظریات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر بحث مباحثے تو چلتے رہتے ہیں، لیکن وہ اختلافات صرف الیکشن کے روز تک ہی ہوتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ان صحافی تنظیموں کے دَم ہی سے کلب میں رونق ہے۔ اس ضمن میں احفاظ الرحمٰن کا کہنا ہے کہ’’ ایک زمانے میں صحافی تنظیموں کو کلب پر فوقیت دی جاتی تھی، یہی وجہ ہے کہ صحافی رہنما کلب کی بجائے ،کے یو جے کے عُہدے دار بننے کو ترجیح دیتے۔ ابتدائی دنوں میں کلب نہیں، بلکہ کے یو جے کے کارڈ پر سرکاری سہولتیں ملتی تھیں اور کراچی میں صحافیوں کو سب سے پہلے الاٹ ہونے والے پلاٹس بھی کے یو جے ہی کو ملے تھے۔
پریس کلب تو صرف سوشل کلب کی مانند تھا اور اس کے عُہدے دار بھی ایک لحاظ سے نمائشی ہی ہوتے تھے، حکومتی عُہدے داران وغیرہ سے رابطے کے یوجے ہی کرتی تھی۔ دراصل، کے یوجے ایک لحاظ سے پریس کلب کا نگران یا سرپرست ادارہ تھا، لیکن جب اس میں دھڑے بندیاں ہوئیں اور سینئرز کی بجائے نئے آنے والوں کا غلبہ ہوا، تو اُس کا وہ نگران کا کردار بھی شدید متاثر ہوا۔
جس کے بعد پریس کلب کے نام سے جلسے ہونے لگے اور مطالبات سامنے آنے لگے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ صحافیوں کے جملہ حقوق پریس کلب کے نام ہو گئے ہیں۔‘‘بہ قول مظہر عبّاس’’ یونین کے رہنماؤں کی بہت مضبوط کمٹمنٹ ہوتی تھی اور پروفیشنلی بھی وہ آگے ہوتے تھے، جس کا پریس کلب پر بھی اچھا اثر پڑتا تھا، مگر اب وہاں بھی اس طرزِ عمل کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صحافی تنظیموں سے منسلک ادارے بھی زوال کا شکار ہیں۔‘‘
ارکان کے لیے سہولتیں: پریس کلب کا بنیادی مقصد تو صحافیوں کو تبادلۂ خیال اور دیگر صحافتی سرگرمیوں کے لیے مناسب جگہ فراہم کرنا ہے، تاہم اس سے ہٹ کر بھی کلب اپنے ارکان اور ان کی فیملیز کو کئی طرح کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہاں کی معیاری کینٹین سے ارکان اور اُن کے مہمان سَستے داموں کھانا کھا سکتے ہیں، تو سندھ حکومت کے تعاون سے ایک ڈسپنسری بھی قائم کی گئی ہے، جہاں شام 5بجے سے رات9بجے تک ایک ماہر ڈاکٹر موجود رہتا ہے۔
ارکان کو ادویہ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ نیز، مختلف اداروں کے تعاون سے وقتاً فوقتاً طبّی کیمپس بھی لگائے جاتے ہیں، جب کہ بعض لیبارٹریز نے پریس کلب ارکان کے لیے ڈسکائونٹ اسکیم بھی رکھی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں، عارف حبیب گروپ کے تعاون سے ارکان کے لیے ہیلتھ کارڈ کا بھی اجرا کیا گیا ہے، جب کہ اسی گروپ کے تعاون سے ایک تعلیمی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے، جس سے اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند ارکان کی مالی مدد کی جاتی ہے۔
اس مقصد کے لیے مخصوص پروفارما پر درخواست دینا ہوتی ہے، جس کا پریس کلب کے عُہدے داران دست یاب فنڈز کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مقصود یوسفی کا کہنا ہے کہ’’ عموماً تمام درخواستیں منظور کرلی جاتی ہیں۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ پریس کلب میں ایک اسپورٹس کمپلیکس بھی تعمیر کروایا گیا ہے، جہاں ارکان کو اِن ڈور گیمز کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، جب کہ کئی ایکسر سائز مشینز بھی رکھی گئی ہیں، تاکہ ارکان خود کو فِٹ رکھ سکیں۔
اس کے علاوہ، پریس کلب اپنے ارکان کے لیے مختلف کورسز بھی کرواتا ہے۔ نیز، مختلف قومی دنوں اور تہواروں کی مناسبت سے بھی پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ارکان اور ان کی فیملیز بڑی تعداد میں شرکت کرتی ہیں۔‘‘ پریس کلب کے صدر، ملک احمد خان نے بتایا کہ’’ حکومتِ سندھ کے تعاون سے کلب کے ارکان کو ہیلتھ کارڈ جاری کیے جا رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ کراچی کے ستّر اسپتالوں میں علاج معالجہ کروا سکیں گے۔‘‘
ہائوسنگ سوسائٹی: پریس کلب کی جانب سے ایک عرصے سے صحافیوں کے لیے پلاٹس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، جو بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دَور میں پورا ہوا۔ پہلے مرحلے میں لیاری ڈویلمپنٹ اتھارٹی کی جانب سے ہاکس بے میں پلاٹ ملے اور پھر ایم ڈی اے نے پلاٹ دیے۔ بنیادی طور پر یہ کوئی ایسی صحافی کالونی نہیں ہے، جیسی مختلف کمیونٹیز کی ہوتی ہیں۔
اس میں پریس کلب کا کردار صرف اتنا ہے کہ کلب کی جانب سے ان اداروں کو اپنے ارکان کی فہرست فراہم کی گئی اور پھر ان اداروں نے قرعہ اندازی کر کے پلاٹس الاٹ کیے۔ باقی سارے معاملات کو ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے ہی دیکھتی ہے، البتہ، چوں کہ ان رہائشی اسکیمز میں صحافیوں کے پلاٹس ہیں، اس لیے پریس کلب وہاں تعمیر و ترقّی کے معاملات میں دل چسپی لیتا ہے۔
ماضی اور حال…چند تجاویز
کراچی پریس کلب ماضی میں سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، تو یہاں کلچرل سرگرمیاں بھی کچھ کم نہیں ہوتی تھیں۔ اس حوالے سے احفاظ الرحمٰن کا کہنا ہے کہ’’ پہلے ممبرشپ پالیسی بہت سخت تھی، گویا خردبین سے معاینے کے بعد ہی رکنیت ملتی تھی، بڑے بڑے لوگ ممبرشپ کے لیے ترستے تھے۔
پھر یہ کہ بڑے پڑھے لکھے لوگ یہاں آتے تھے، جنھیں اپنے پروفیشن کے تقاضوں کا علم تھا اور وہ اس کا خیال بھی رکھتے تھے، مگر اب ایسا نہیں رہا۔ ‘‘ بتایا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں سینئر ارکان کے سامنے جونیئر سگریٹ تک نہیں پیتے تھے۔ نواب انور حسین (انو بھائی) کئی سال کلب کے صدر رہے، وہ لان میں بیٹھ جاتے تو مجال ہے کوئی ایسی ویسی حرکت کرتا۔
سینئرز گروپس کی شکل میں لنچ کرنے آتے، لیکن اب کم کم آتے ہیں۔ ہر کوئی میٹ دی پریس میں مہمان نہیں ہوسکتا تھا، باقاعدہ غور ہوتا کہ کسے اور کیوں بلایا جائے۔ یہ ایک ایسا پریس کلب تھا کہ جس کے ارکان سے لے کر کھانے کی کوالٹی تک، پاکستان ہی نہیں، دہلی، نیویارک اور لندن میں بھی مثالیں دی جاتی تھیں۔ وکلا، مزدور، خواتین اور دیگر طبقات کی نہ جانے کتنی تحریکوں کی بنیاد یہیں پڑی۔
حبیب غوری بتاتے ہیں کہ’’ اب تو اعزای ممبر شپ بہت آسان کر دی گئی ہے، پہلے بہت غوروخوض ہوتا تھا، حبیب جالب کو ایک بار یہ ممبر شپ دینے کا فیصلہ ہوا، تو اعتراضات ہوگئے، پھر دوبارہ اُن کے نام کی منظوری ہوئی۔‘‘ سوال قدرے سخت ہے، مگر پوچھا جانا بھی ضروری تھا کہ وہ ماضی کا پریس کلب کہاں کھو گیا....؟ اس سوال پر مظہر عبّاس کہتے ہیں کہ’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم ممبرز بنا رہے ہیں یا کہ ووٹرز۔ سب کو کلب کے آئین اور ڈسپلن کا پابند ہونا ہوگا۔
اگر میری گاڑی پر مخصوص اسٹیکر نہ ہونے پر چوکیدار روکتا ہے، تو اُس سے الجھنے اور بدتمیزی سے قبل مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ غلطی تو میری اپنی ہے۔‘‘
حبیب خان غوری کی رائے ہے کہ’’ یہاں پہلے صرف کلچرل سرگرمیاں ہی ہوتی تھیں، جیسے بیٹھ کر چائے پی لی یا تاش وغیرہ کھیل لیا۔ 70 ء کی صحافیوں کی ہڑتال سے اس کا کردار تبدیل ہوا۔ اب پورے سال الیکشن مہم چلتی ہے، جو بہ ہرحال کلب کی بہتری کے لیے نہیں ہوتی۔
پھر یہ بھی کہ کلب کے باہر ہونے والے احتجاج کے اوقات اور طریقۂ کار کو بھی کسی قاعدے قانون کا پابند بنایا جانا چاہیے، یہ کیا بات ہوئی کہ لوگ چھے چھے ماہ تک یہاں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح کے احتجاج سے لوگ پریشان ہوتے ہیں اور اس سے کلب کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔
کلب کے اصل کلچرل رول کو بحال کیا جائے اور صرف اہم معاملات ہی میں حصّہ لیا جائے، تو اس سے کلب کا وقار بڑھے گا۔‘‘ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ تمام گروپس ہر الیکشن میں ایک یا دو سینئر صحافیوں کو بلامقابلہ منتخب کروانے کا کوئی رسمی یا غیر رسمی معاہدہ کرلیں۔ کیوں کہ اب سینئرز کے لیے’’ صحافی سیاست‘‘ میں کوئی کردار ادا کرکے عُہدہ حاصل کرنا ممکن نہیں رہا، مگر پریس کلب کی ساکھ اور مفاد میں یہی مناسب ہے کہ سینئرز کی سرپرستی کو ہر صُورت برقرار رکھا جائے۔
اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہر ماہ کسی ایک سینئر کے ساتھ شان دار طریقے سے شام منائی جائے، تاکہ نئے آنے والے کلب کی روایات سے روشناس ہو سکیں۔ پریس کلب کے سابق صدر، غازی صلاح الدّین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ ایک زمانے میں صحافت سے وابستہ تقریباً تمام بڑے ناموں کا پریس کلب سے تعلق تھا اور وہ پابندی سے وہاں جایا کرتے تھے، مگر اب سینئرز نے خود کو اس سے الگ سا کرلیا ہے۔
اب کلب جائیں، تو ایک ہجوم سے سامنا ہوتا ہے، جس میں ٹی وی جرنلسٹس کو ممبرشپ دینے کے بعد اضافہ ہوا، پھر یہ بھی کہ کلب کے باہر جس طرح احتجاجیوں نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں، اس نے بھی پریس کلب کی اصل شناخت کو دھندلا دیا ہے۔‘‘
پریس کلب کے موجودہ صدر، ملک احمد خان ماضی اور حال کے پریس کلب میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ کراچی پریس کلب آج بھی ماضی کی طرح قانون کی حکم رانی کا علم بَردار اور جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے۔
نیز، اپنے ارکان کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے پورے خلوص سے سرگرم ہے اور اس ضمن میں کئی کام یابیاں بھی حاصل کی ہیں۔‘‘
تاریخ کو مرتّب کرنے کی ضرورت
کراچی پریس کلب کے بانی ارکان کون تھے…؟؟ کلب کیسے وجود میں آیا اور اس کے لیے موجودہ عمارت کیسے حاصل کی گئی…؟؟ یہ اور اسی طرح کے دیگر بنیادی نوعیت کے سوالات کے جواب میں ایسی کوئی ٹھوس اور متفقہ دستاویز پیش نہیں کی جا سکتی، جو تسلّی بخش جواب دے سکے۔ ان سوالات پر سینئرز بھی تقسیم ہیں اور ہر ایک کی رائے دوسرے سے مختلف ہے۔
اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پریس کلب کی تاریخ کو مستند حقائق کی بنیاد پر محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی ذوق رکھنے والے صحافیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے، جو کم سے کم وقت میں دیے گئے ٹاسک کو پورا کرے، کیوں کہ ابتدائی دَور کے چند ہی صحافی اِس وقت چراغِ آخر شب کی مانند ہمارے درمیان موجود ہیں۔
آمریت کے خلاف اور صحافی حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد
کراچی پریس کلب ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد کا مرکز رہا ہے اور اس نے ہر موقعے پر جمہوری قوّتوں کا ساتھ دیا۔ پریس کلب میں وردی والوں کا داخلہ ممنوع رہا ہے اور ایسا بھی ہوا کہ ایک بار ایک وردی پوش کو کلب میں مدعو کرنے پر صدر کو عُہدے ہی سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔
ایوب دَور میں پریس کلب پر اپوزیشن کو نہ بلانے کے لیے سخت دبائو تھا، مگر اس نے اپنی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا۔ سینئر صحافی، احفاظ الرحمٰن نے کلب کے اس تاریخی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ’ بھٹو صاحب پریس کلب آنے کی شدید خواہش رکھتے تھے اور وہ کلب کو کچھ دینا بھی چاہتے تھے، مگر چوں کہ اُن کے دَور میں اخبارات پر پابندی تھی، اس لیے شرط رکھی گئی کہ پہلے اخبارات سے پابندی ہٹائی جائے، پھر کلب آئیں۔‘‘ ایم آر ڈی کے قیام کے سلسلے میں اپوزیشن کا پہلا اجلاس، کراچی پریس کلب ہی میں ہوا تھا، جس میں نصرت بھٹّو اور نواب زادہ نصراللہ خان بھی شریک تھے۔
پھر ایم آر ڈی کی تحریک چلی، تو یہ کلب ایک طرح سے اپوزیشن کا گڑھ بن گیا۔ یہاں مولانا شاہ احمد نورانی نے بڑا جلسہ کیا۔ اسی لیے اُس وقت کے سیکرٹری اطلاعات، جنرل مجیب کراچی پریس کلب کو ’’اینیمی ٹریٹیری‘‘ کہتے تھے۔ اُس دَور میں پارٹی سربراہوں کو ہی’’ میٹ دی پریس‘‘ میں بلایا جاتا تھا، جس پر حکومت سخت ناراض اور پریشان تھی اور وہ میٹ دی پریس کا سلسلہ روکنا چاہتی تھی، جس میں اُسے کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور حبیب جالب پر پابندیاں لگیں، تو پریس کلب نے اُنہیں اپنی اعزازی رکنیت سے نوازا۔ حبیب خان غوری بھی ان ادوار کے عینی گواہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’ ضیاء مارشل لاء میں پریس کانفرنسز پر طرح طرح کی پابندیاں عاید کردی گئی تھیں، جس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں اور دفاتر میں بھی پریس کانفرنس کرنے سے ڈرتے تھے، لیکن ہم نے کسی خوف کو خاطر میں لائے بغیر پریس کلب کو اوپن کردیا۔ لوگ آتے اور پریس کانفرنسز کرتے۔
اُس دَور میں پریس کلب کے اندر بھی مائیکرو فون استعمال کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا پڑتی تھی، لیکن ہم نے کبھی پرمیشن نہیں لی، اس پر نوٹس بھی جاری ہوئے اور دھمکایا بھی گیا۔ اُس وقت کراچی پریس کلب مُلکی منظرنامے پر چھایا ہوا تھا، غیر مُلکی خبر رساں ادارے بھی اسی کلب پر فوکس رکھے ہوئے تھے، کیوں کہ پورے مُلک میں یہی واحد جگہ تھی، جو’’ ہائیڈ پارک‘‘ بنی ہوئی تھی۔‘‘ صحافیوں سے متعلق معاملات کے حوالے سے بھی کراچی پریس کلب نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
1970 ء کی صحافیوں کی مُلک گیر ہڑتال ہو، یا 1974ء اور 1978 ء کی تاریخی تحریکیں، کراچی پریس کلب ان سب تحاریک کا مرکز رہا۔ یہیں پر صحافیوں کے اجلاس ہوتے، تو پُرجوش جلسوں کا مقام بھی یہی تھا اور اسی کے باہر احتجاجی کیمپس بھی لگتے رہے۔
پھر پریس کلب کے باہر ہی کھڑے ہو کر احتجاج کرنے کی بجائے، ریگل چوک یا برنس روڈ پر گرفتاریاں پیش کرنے کا فیصلہ ہوا، تب بھی تحریک کا’’ کنٹرول روم‘‘ یہی کلب بنا رہا۔ اُس تحریک کے دَوران کراچی کے درجنوں صحافیوں نے ریگل چوک پر گرفتاریاں پیش کیں۔
اس حوالے سے معروف صحافی، احفاظ الرحمٰن کی کتاب’’ سب سے بڑی جنگ‘‘ میں کراچی پریس کلب کے اُس تاریخی اور مثالی کردار کی جھلکیاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں بھی جب کبھی میڈیا کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں، کراچی پریس کلب صحافیوں کی سب سے توانا آواز بن کر سامنے آیا۔
ماضی میں کئی بار اخبارات کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ہر موقعے پر کراچی پریس کلب اُن اخبارات اور صحافیوں کی پشت پر کھڑا ہوا۔ ایسا بھی ہوا کہ جب کسی اخبار پر پابندی لگی، تو جب تک صحافی بحال نہ ہو جاتے، کلب اُنہیں مفت کھانا فراہم کرتا۔
اس حوالے سے مظہر عباس نے بتایا کہ’’ الطاف حسین مرحوم( ایڈیٹر، ڈان) صحافی یونینز اور پریس کلب کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور وہ اپنے عملے کو ان اداروں میں جانے سے بھی منع کرتے، لیکن جب ڈان پر بُرا وقت آیا، تو پریس کلب ہی آگے بڑھا، جس پر اُن کا ذہن بدلا۔‘‘
مختلف ادوار میں پریس کلب کے صدور اور سیکریٹریز
صدور
محمّد عاشر( 59، 60 ،61)، ضمیرالدین احمد(62)، جعفر نقوی(63)، صفدر علی قریشی(64 ،65 )، سلطان احمد(66) ، کے ایم احسان اللہ(67)، ابرار حسن صدیقی( 68 ، 73)، صفدر برلاس(69)، انور حسین(70، 71، 72)، ہمدان امجد علی( 74، 75)، نصیر بروہی(76)، اشفاق بخاری(77 ، 79،)، حضور بخش شاہ(78، 89)، عبدالحمید چھاپرا(80، 81، 82، 83، 84)، محمود علی اسد( 85، 87، 88)، آفتاب سیّد(86)،صلاح الدین حیدر( 90، 94) ،سلیم عاصمی(91 ،92)، حسن عابدی(93)، ایم ایس غوثی(95، 2002 ،2003، 2005، 2007)، حبیب خان غوری( 96 ،97)، اظہر عادل لاری( 98)، علی اقبال( 99)، خورشید تنویر (2000، 2001)، نظام الدین صدیقی( 2004)، غازی صلاح الدین(2006)، نجیب احمد(2008 )، امتیاز خان فاران( 2009، 2010، 2013، 2014)، طاہر حسن خان(2011، 2012)، فاضل جمیلی( 2015، 2016)، سراج احمد(2017)، ملک احمد خان(2018)
سیکریٹریز
اقبال حسن برنی( 59)، ایس منظور الحسن(60، 61) ، زوار حسن(62)، اشہب نقوی(63)، اصغر ایچ رضوی(64)، حلیم احمد(65)، حضور احمد شاہ(66)، ایس ایم اشرف(67)، ایس ایم افضل(68، 69)، ہمدان امجد علی(70)، مرزا اسماعیل( 71، 72، 75)، محمّد جامی( 73، 74)، حبیب خان غوری( 76، 77، 78، 79، 82)، ظفر قریشی(80)، منظور صدیقی(81)، مجاہد بریلوی( 83، 84)، علیم الدین پٹھان(85)، ایم ایس غوثی(86)، طاہر نجمی( 87، 88، 92)، مظہر عباس( 89، 97، 98)، الطاف صدیقی(90، 91)، طاہر حسن( 93، 94)، عامر ضیاء(95)، یوسف خان(96، 99)، ولی رضوی(2000)، نجیب احمد(2001،2002، 2005، 2006)، خورشید عباسی(2003، 2004)، امتیاز خان فاران( 2007، 2008)، اے ایچ خانزادہ( 2009، 2010، 2015، 2016)، موسیٰ کلیم( 2011، 2012)، عامر لطیف (2013، 2014)، مقصود احمد یوسفی(2017، 2018)