• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دن صبح سویرے لندن میں مقیم پاکستانی صحافی آصف سلیم مٹھا نے فون کرکے کہا کہ ’’آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان اس لئے بنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ جھوٹ نہیں بولتے تھے، وقت کی قدر کرتے تھے، وہ ہر کام وقت پر کرتے تھے، انہیں تاخیر پسند نہیں تھی مگر افسوس کہ آج کے پاکستان میں سیاسی رہنما بڑے آرام سے جھوٹ پہ گزارا کرتے ہیں، ان کیلئے وقت اہم نہیں ہے پاکستانی لیڈر وقت کی ناقدری کرتے ہیں‘‘ کچھ دنوں بعد مجھے آصف سلیم مٹھا کی یاد اس وقت بڑی شدت سے آئی جب پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سترسالہ کہانی پر تنقید کررہے تھے، سرکاری پنجاب ہائوس میں چند رہنمائوں اور کارکنوں کے درمیان بیٹھ کر انہوں نے بڑے بڑے انکشافات کئے انہوں نے سترسالوں کے بارے میں فرمایا کہ سترسالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے ،جس کے باعث ہم پیچھے رہ گئے ہیں ایک طرح سے انہوں نے ناکامیوں کی داستان بیان کی۔اسی دوران میاں صاحب نے ایک بڑا انکشاف یہ کیا کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں پہلے وہ نظریاتی نہیں تھے مگر اب وہ پوری طرح نظریاتی ہو گئے ہیں’’نظریاتی ‘‘ کا رتبہ پاتے ہی انہوں نے محمود خان اچکزئی کے حق میں نعرے لگوائے اس مرحلے پر خود محمود خان اچکزئی حیران تھے کیونکہ اس ’’نظریاتی‘‘ منزل سے پہلے ان کے حق میں کبھی اسلام آباد میں نعرے بازی نہیں ہوئی تھی۔ان ’’نظریاتی ‘‘ نعروں سے پہلے جو سترسالہ کہانی بیان کی جا رہی تھی اس میں پتہ نہیں میاں صاحب کو اپنے 35سال کیوں یادنہیں آرہے تھے ۔انہیں سیاست میں اپنی آمد اور ترقی کی منازل بھی بیان کر دینی چاہئے تھیں۔انہیں یہ پوری داستان بیان کرنی چاہئے تھی کہ وہ کیسے ’’ضیاء الحقی‘‘ نظریئے سے ہو کر ’’اچکزئی ‘‘ نظریاتی منزل پر پہنچے ہیں۔لگے ہاتھوں وہ کم از کم اپنے کارکنوں ہی کو بتا دیتے کہ انہوں نے کس طرح لندن میں فلیٹس حاصل کئے، کس طرح سعودی عرب میں اسٹیل مل لگائی ،کس طرح بیرونی ملکوں میں جائیدادیں بن گئیں۔یہ تمام باتیں گُر کی باتیں تھیں اگر وہ یہ ’’فیض‘‘ اپنے چاہنے والوں کو منتقل کر دیتے تو اس طرح ان کے حامی راضی ہو جاتے ۔انہیں اس بات کی منطق بھی سمجھا دینی چاہئے تھی کہ کیوں اپنے افراد کا علاج بیرون ملک کروانا ضروری ہے، کیوں اپنے علاج کے لئے اپنے ملک میں اسپتال بنوانا ضروری نہیں ہے؟ انہیں یہ بھی بتا دینا چاہئے تھا کہ ’’نظریاتی‘‘ منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنے لڑکوں کیلئے دوسرے ملک کی شہریت لینا کیوں ضروری ہے ؟سب سے بڑھ کر انہیں یہ بھی ضرور بتا دینا چاہئے تھا کہ کیوں اقتدار سے جانے سے پہلے ملک کو قرضوں تلے دبانا بڑا ضروری ہے؟میاں صاحب جب دل کی باتیں کرنے پر اتر آئے تھے تو بتا دیتے کہ انہوں نےگزشتہ 35سالوں میں کس طرح اداروں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا، کیسے تعلیمی نظام برباد ہوا، کس طرح اسپتال خراب ہوئے، کس طرح شہروں میںٹریفک بے ہنگم ہوئی، کیسے کھیت برباد ہوئے، مزدور اورکسان کیوں رونے پہ اتر آئے، کیوں ملک پر ایسا کرشماتی وزیر خزانہ مسلط ہوا جو درآمدات کے بڑھنے پر خوش تھا جو برآمدات کے کم ہونے کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے، تجارت کے نام پر اپنے ہی ملک کا نقصان کیسے ہو گیا؟
خواتین و حضرات! چلو ہم سترسالہ سفرکو دو حصوں میں بانٹ لیتے ہیں، دو حصوں میں بانٹ کر حکمرانی کا جائزہ لیتے ہیں کہ ستر سالہ دور کے دو حصوں میں واضح فرق کیوں آیا ؟ آپ کو یاد ہو گا کہ میاں صاحب 80ء کے ابتدائی برسوں میں ایک ’’نظریاتی‘‘ چھتری تلے اقتدار کا حصہ بنے تھے لہٰذا ہم سترسالوں کو اس طرح بانٹ لیتے ہیں کہ 80ء سے پہلے کا پاکستان ایک طرف اور 80ء کے بعد کا پاکستان دوسری طرف کرلیتے ہیں ۔80ء سے پہلے جس پاکستان کی ابتداء ہوئی تھی اس کے پہلے حکمران کا حال یہ تھا کہ وہ قوم کے پیسے کو قوم کی امانت سمجھتا تھا ۔وہ تو کابینہ کے اجلاسوں میں قوم کے پیسے سے چائے ،کافی کو بھی جائز نہیں سمجھتا تھا،اس کے ہوتے ہوئے جتنے بھی اجلاس ہوئے ان اجلاسوں میں صرف سادہ پانی رکھا جاتا تھا ۔جب گورنر جنرل ہائوس کے لئے ساڑھے اڑتیس روپے کا سامان آیا تو اس نے حساب منگوالیا، اس سامان میں سے جو چیزیں فاطمہ جناحؒ یا ان کے اپنے لئے تھیں اس کے لئے حکم دیا کہ یہ ہمارے اکائونٹس سے پیسے لئے جائیں۔جب برطانوی بادشاہ کے بھائی پاکستان آئے تو برطانوی سفیر کی درخواست کو مسترد کرنے والے قائد اعظم ؒ نے برطانوی سفیر سے بڑی دلیری کے ساتھ کہا تھا ’’اگر میں آپ کی درخواست پر برطانوی بادشاہ کے بھائی کا استقبال ایئرپورٹ پر کرنے چلا جائوں تو کیا جب میرا بھائی لندن جائے گا تو برطانوی بادشاہ استقبال کیلئے آئے گا‘‘ قائد اعظم ؒنے اپنے بھائی سے ملنے سے انکار محض اس لئے کیا تھا کہ ان کے بھائی نے وزیٹنگ کارڈ پر لکھوایا ہوا تھا کہ ’’برادر آف گورنر جنرل‘‘ یاد رکھیئے قائد اعظم ؒکہا کرتے تھے کہ غریب ملک کے حکمران کو عیاش نہیں ہونا چاہئے۔ملک کے پہلے گورنر جنرل نے تو اپنے لئے کھلوائے گئے پھاٹک کو بند کرواتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جب میں ہی قانون کا احترام نہیں کروں گا تو پھر کوئی اور کیوں کرے گا‘‘ میاںصاحب نے مشرقِ بعید کے چند ملکوں کی ترقی کے حوالے دیئے۔آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ ساٹھ کی دہائی میں یہ ملک ہمارے ملک سے قرضے لے رہے تھے، ترقی کے ماڈل حاصل کر رہے تھے۔اس میں جاپان اور سنگا پور دونوں ہی شامل ہیں۔ساٹھ کی دہائی میں ہمارا جی ڈی پی ڈبل فگرز میں تھا، ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ہاں ڈیمز بن رہے تھے ، دیگر ترقیاتی منصوبے پروان چڑھ رہے تھے، ساٹھ میں ہم تیزی سے ترقی کرنیوالے ملکوں میں شامل تھے، سترکی دہائی میں ہمارا ایٹمی پروگرام بن رہا تھا ،پاکستان میں نئی یونیورسٹیاں بن رہی تھیں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل مل لگ رہی تھی،ساٹھ کی دہائی میں امریکی صدر، پاکستانی صدر کو جھک کر ملتا تھا، ستر کی دہائی میں بڑے بڑے ملکوں کے حکمران محض مشورہ لینے کیلئے بھٹو کے پاس آیا کرتے تھے ۔یہ تو 80ء سے پہلے کا زمانہ تھا پھر اس کے بعد میاں صاحب کے سیاسی استاد نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، ساتھ ہی میاں صاحب کا سفر شروع ہو گیا ۔80ء کے بعد کیا ہوا، 80ء کے بعد کوئی نیا ڈیم نہ بن سکا، اس عہد میں ریلوے کو کھانا شروع کر دیا گیا، مفادات کی سیاست شروع ہو گئی ، سرمایہ دار ایسے سیاست میں آئے کہ ملک سے سرمایہ اڑنا شروع ہو گیا ، ہمارے ادارے تباہ ہوتے گئے، ملک مقروض ہوتا گیا، میاں صاحب کی تجربہ کار ٹیم نے ہمارا یہ حال کر دیا کہ آج افغانستان کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ مضبوط ہے، آج 75افغانی کا ایک ڈالر ملتا ہے جبکہ 120روپے کا ایک ڈالر ہے ۔
میاں صاحب !مان جائیں ہم نے 80ء سے پہلے ترقی کا سفر کیا اور جب آپ آئے تو ہماری تنزلی کا سفر شروع ہو گیا، اسی تنزلی کے سبب آج ہم تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں، آج اداروں کا احترام نہیں، آج قانون کا احترام کون نہیں کر رہا، آپ کو پتہ تو ہو گا کہ کس نے قوم سے خطاب میں پھر ایوان میں اور اس کے بعد عدالت میں مختلف موقف اپنائے ۔صرف یہ یاد رکھیئے کہ ہمارا پہلا گورنر جنرل وقت کا احترام کرتا تھا، قانون کا احترام کرتا تھا، قوم کے خزانےکو واقعتاً قوم کی امانت سمجھتا تھا، جھوٹ نہیں بولتا تھا، کیا آج کے حکمران ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں ؟
آج تو حالت یہ ہے کہ ایک لڑکی ملالہ یوسفزئی 28مارچ سے 2اپریل تک کا دورہ پاکستان ترتیب دیتی ہے تو اس کا شیڈول بنتا ہے، اس شیڈول میں وزیر اعظم سے ملاقات بھی شامل ہے، سول سوسائٹی سے ملاقات اور میڈیا بریفنگ بھی شامل ہے یہ سب کیا ہے ؟کیا یہ پاکستان کی ترقی کی علامت ہے ؟ذرا سوچئے ہم کیا سے کیا ہو گئے بقول پروفیسر راشدہ ماہین ملک ؎
بات جب ان کہی سی رہتی ہے
آنکھ میں کیوں نمی سی رہتی ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین