آپؒ کی زندگی قرآن وسنّت کی ترویج و اشاعت اور علوم ِنبویؐ کی خدمت میں بسر ہوئی
سرورِکونین،رحمۃ لّلعالمین،امام الانبیاء،سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’اگر علم ثریا کے پاس ہو تو فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر لیں گے‘‘۔سرکار دو عالمﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق عام طور پر علمائے کرام نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کو قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں:’’ابو حنیفہؒ اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔‘‘امام شافعیؒ فرماتے ہیں:’’النّاسُ عیال لابی حنیفۃ فی الفقہ‘‘ بعد کے سب آنے والے فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے خوشہ چیں ہیں۔‘‘
امام اعظم ابو حنیفہؒ بیک وقت محدّث، فقیہ، مفسر، مجتہد ہونے کے ساتھ زہد و تقویٰ اور خشیّتِ الٰہی کے پیکر تھے۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت سرکارِ دو عالم ﷺ کو پردہ فرمائے ہوئے ستّر برس ہو چکے تھے۔ امام اعظمؒ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد صحابۂ کرامؓکی زیارت کی اور ان کی صحبت سے سرفراز ہوئے،جو اس وقت حیات تھے۔ بے شک، اللہ والوں کی صحبت آدمی کو ولایت کے درجے پر پہنچا دیتی ہے، پھر صحابۂ کرامؓ کی صحبت جو دربارِ رسالت ﷺ سے فیض یاب ہوئے ہوں،ان کے متعلق کیا کہنا۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ ؒ کو دیگر ائمہ پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپؒ نے صحابۂ کرامؓ کی ایک کثیر تعداد کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کیا،جن میں حضرت انس بن مالکؓ،حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت عبداللہ بن اوفیٰؓ، حضرت واثلہ بن اسقعؓ وغیرہ شامل ہیں۔حضرت امام جعفر صادقؒ سے بھی آپؒ کا رشتہ انتہائی عقیدت و احترام کا تھا،آپؒ کے تلامذہ میں حضرت فضیل بن عیاضؒ،حضرت ابراہیم بن ادہمؒ،حضرت بشر حافیؒ اور حضرت دائود طائیؒ جیسے صاحبِ علم و عمل اور اپنے وقت کے امام و ولی شامل ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ والد کے انتقال کے بعد آپ پر کاروباری بوجھ بڑھ گیا اور تجارت میں مشغول ہو گئے،مگر امام اعظمؒ کے دل میں تحصیلِ علم کی لگن تھی۔یہ جذبہ اگر سچا ہو تو کامیابی حاصل کرنا دشوار تو ہو سکتا ہے،مگرناممکن نہیں۔اخلاص شامل ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔
امام اعظمؒ حصولِ علم کی منازل طے کرتے ہوئے عظیم مقام پر پہنچے۔آپ نے جن اساتذہ کی صحبت اختیار کی اور علمی فیض حاصل کیا،ان میں وقت کے فقہاء اورمحدثین شامل تھے کہ’’جن کی ایک نظر ہی طالب علم کو عالم بنا دے‘‘۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ حقوق العباد کے معاملے میںاللہ سے بے حد ڈرنے والے تھے۔ زہد و تقویٰ اسی کا نام ہے،اور یہ وہ مقام ہے کہ جسے اختیار کرنے والا اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔
ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنا دستِ اقدس حضرت سلمان فارسیؓ کے شانے پر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان یا علم ثریا (کہکشاں) کے پاس بھی ہوا تو کچھ لوگ یا ایک شخص اہل فارس (فارسی نسل) کے لوگوں میں سے اسے ضرور حاصل کرلے گا۔(بخاری و مسلم)اس بات میں کوئی شک نہیںکہ امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں کوئی بھی شخص آپ جیسا علمی مقام و مرتبہ نہیں رکھتا تھا، بلکہ آپؒ کے شاگردوں کے مبلغ علم کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکا اور یہ نبی کریمﷺ کا کھلا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی بات کی حقیقت پر مبنی خبردی۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ بلاشبہ مینارہ علم و کمال تھے اور حدیث مبارکہ ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے،اسے دین کی فقاہت اور سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ آپ پر پوری طرح صادق آتی ہے ۔اللہ عزوجل نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو انتہائی فہم و فراست سے نوازا تھا۔ امام صاحب نے جب یہ دیکھا علم ایک جگہ یا ایک فرد کے پاس نہیں ہے اور وہ اطرافِ عالم میں منتشر ہو چکا ہے،اب ضرورت ہے کہ اسے یک جا کیا جائے، ورنہ وہ ضائع ہو جائے گا یا پھر اس کی اصل صورت بدل جائے گی۔
امام ابوحنیفہؒ کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ ایک صدی میں بڑا تغیّرواقع ہو چکا ہے اور آئندہ ادوار میں یہ تغیّر رک نہیں سکتا، اس لیے اس علم کو یک جا کرنا چاہیے، قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ایسا دستورالعمل مرتّب کرنا چاہیے جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو، اس لیے اسلامی قانون کی تدوین اور اس کے اصول متعین کرنا ضروری ہوا۔
امام ابو حنیفہؒ کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ آج سے پہلے جو اہلِ علم و فضل تھے، وہ آج نہیں ہیں اور زمانہ تیزی سے انحطاط کی طرف جا رہا ہے، آج دنیا میں جو اہلِ علم وفضل ہیں، ان سے استفادہ کرنا چاہیے، جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کے آثار سے استفادہ کرنا چاہیے اور اسے اصول و ضوابط کے تحت مرتّب کرنا چاہیے۔
امام ابو حنیفہؒ نےاپنی درس گاہ اس نہج پر ترتیب دی اور فقہِ اسلامی کی تدوین کا کام شروع کر دیا۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے تدوین کا کام رکا بھی،لیکن پھر پابندی سے اس کام کو جاری رکھا اور بالآخر اس کام کی تکمیل ہوئی اور امّت مسلمہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ علم و عمل محفوظ ہوا۔
امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے اپنا فقہی مسلک اپنے اصحاب اور نام ور حنفی فقہاء کے درمیان مشاورت کے ذریعے مدوّن کیا تھا۔امام ابوحنیفہؒ کی قائم کردہ اس فقہی کمیٹی یا مجلسِ بحث و تحقیق کی تعداد چالیس بتائی جاتی ہے۔ یہی اجتماعی اجتہاد اور شورائیت،فقہِ حنفی کا امتیاز اور اس کی خصوصیت ہے، جس کی وجہ سے اسلامی دُنیاکی اکثریت اس کی اتباع کرتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کو تدوینِ فقہ اور اسلامی دستور کی باقاعدہ تشکیل میں اوّلین راہی کا مقام حاصل ہے اور ائمہِ اسلام کے تمام فقہی ذخیروں میں صرف اور صرف فقۂ حنفی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ کسی شخصی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ چالیس علما کی جماعت شوریٰ کی ترتیب دادہ ہے اور حنفی مسلک، گویا شورائی مسلک ہے۔
اس میں شک نہیں کہ فقہ حنفی کا اصل سرچشمہ وہ فقہی ذخیرہ ہے، جو حضرت حمادؒ نے حضرت ابراہیم نخعیؒ سے ورثے میں پایا، مگرحضرت حمادؒ کی شاگردی کے باوجود امام ابوحنیفہؒ دوسرے اساتذہ سے بھی استفادہ کرتے رہے، حضرت حمادؒ کی وفات کے بعد بھی امام اعظمؒ نے پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں کیا،بلکہ ہمیشہ اسلاف کے اس قول پر عمل کیا۔’’جب تک آدمی طلبِ علم جاری رکھتا ہے، تو وہ عالِم بنا رہتا ہے اور جب اپنے آپ کو عالِم تصور کر نے لگتا ہے، تو جاہل بن جاتا ہے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے مجلسِ تدوین فقہ انتہائی غور و خوض کے بعد کوفہ میں قائم کی، کیوںکہ کوفہ میں عربی و عجمی تہذیبیں موجود تھیں اور قسم قسم کے مسائل وہاں اٹھتے رہتے تھے، اہلِ علم بھی بہت تھے۔جب کہ عرب کے دوسرے شہروں کی تہذیب خالص عربی اور سادہ تھی۔ ایک قانون ساز کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کی تہذیبوں کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور ان سے پیدا شدہ مسائل و ضروریات کے لیے معمولی باتوں کو بھی نظرانداز نہ کرے۔
امام صاحبؒ نے فقہ کی تدوین کے لیے ایک مجلسِ شوریٰ جو مجلسِ مباحثہ تھی،مرتّب فرمائی، امام صاحب نے اپنے مسلک کو مشورے پر رکھا اور مجلس سے کٹ کر فقہ کو اپنی ذات پر موقوف نہیں رکھا۔
آپ نے تدوینِ فقہ کے لیے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس ماہرِ فن اشخاص منتخب فرمائے،یہ سب وہ حضرات تھے جو درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے اور پھر ایک خصوصی مجلس قائم تھی جو عمومی مجلس کے کام کو دوبارہ جانچتی۔ اس خصوصی مجلس کے اراکین میں امام ابویوسفؒ،امام زفرؒ، دائود طائیؒ، احمد بن عمروؒ، یوسف بن خالدؒ، یحیٰی بن زائدہؒ، امام محمدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ اور خود امام ابوحنیفہؒ شامل تھے۔
وکیع بن الجرّاح جو اپنے وقت کے مشہور و معروف محدّث تھے،امام صاحب کی مجلس تدوین فقہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں،امام ابوحنیفہؒ کے کام میں کس طرح غلطی باقی رہ سکتی تھی ،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ان کی مجلسِ تدوین فقہ میں ابو یوسف، زفر، محمد جیسے لوگ جو ماہر قیاس و اجتہاد ہیں، موجود ہیں اور یحیٰی بن زکریا بن زائدہ، حفص بن غیاث، حبان بن علی، مندل بن علی جیسے ماہرینِ حدیث ان کے ساتھ تھے۔
قاسم بن معین جیسے لغت اور عربی کے ماہر موجود تھے اور دائود بن نصیر طائی، فضیل بن عیاض جیسے صاحبِ زہد و تقویٰ موجود تھے۔ جس مجلس کے ایسے اراکین ہوں گے،وہ غلطی نہیں کر سکتے، کیوںکہ غلطی کی صورت میں صحیح امرکی طرف یہ لوگ لانے والے تھے۔
امام ابوحنیفہؒ کی پوری زندگی قال اللہ اورقال الرسولﷺ کہتے گزری،اپنے اعمال و اقوال میں انہوں نے اللہ کے احکام اور سنتِ رسول ﷺ کی پابندی کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔یہی وجہ ہے کہ ہردور کے علما ، محدثین اور اہل علم و دانش نے آپ کی جلالت شان کا اعتراف کیا ہے۔