صوبہ سندھ کےمختلف محکموں میں بدعنوانی کی شکایات عام ہیں۔ ان میں سے بعض محکموں خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوںمیں کرپشن کی کہانیاں روزانہ ہی اخبارات کے توسط سے منظر عام پر آتی رہتی ہیں،جس کے بعدایجنسیاں حرکت میں آجاتی ہیں، کرپٹ عناصر کی گرفتاری ہوتی ہے، مقدمات درج ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس ناسور کا مکمل طور سے سدّباب نہیں ہوپاتا۔
گزشتہ دنوں ضلعی ہیڈ کوارٹر میں محکمہ تعلیم میں بھاری رقوم کے عوض نوکریاں فروخت کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، محکمے کے بعض افسران مبینہ طور سے پیسے لے کر محکمہ تعلیم میں ملازمت کے آرڈر جاری کرتے تھے، جو بعد میں جعلی ثابت ہوئے۔ اس خبر کے شائع ہوتے ہی کے سلسلے میں شکایات میڈیا میں آنے کے بعد محکمہ کے افسران میں کھلبلی مچ گئی۔
دوسری جانب باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ضلع کی چار تحصیلوں، خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ، جوہی اور دادو میں 2007ء میں بھرتی کیلئے گئے سیکڑوں پرائمری اساتذہ نے اپنی بلا جواز بر طرفی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے، جس پر عدالت عالیہ نے ذمہ دار افسران سے رپورٹ طلب کرلی۔
دوسری جانب نمائندہ جنگ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، ایلیمنٹری،عبدالعزیز چاچڑ اور آفس سپرنٹنڈنٹ مرتضیٰ کھوسوکے درمیان نوکریوں کی فروخت کے سلسلے میں ہونے والی گفتگو خفیہ طور سے ریکارڈ کرلی گئی تھی، جس کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعداعلی حکام کی جانب سے سخت اقدام کیا گیا ہے۔
ڈی ای او عبدالعزیز چاچڑ کے دستخط سے مذکورہ آرڈر جاری کیے گئے تھے جب کہ آفس سپرنٹنڈنٹ، مبینہ طور سے ان کے شریک کار تھے۔صوبائی سیکریٹری تعلیم اقبال درّانی نے اس واقعے کا نوٹس لے کر دونوں افسران کو فوری طور سے معطل کرکے سندھ سکریٹریٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے اورنوکریاں فروخت کرنے کے الزامات کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دونوں افسران نے چارج چھوڑ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، مذکورہ افسران کے خلاف کارروائی کی خبر ملتے ہی وہ افراد جنہوں نے ٹیچر کی اسامی کے تقرری کے آرڈرز کے عو ض معطل ہونے والےافسران کو 5 سے 7لاکھ روپے ادا کیے تھے اور جوائننگ آرڈر کے لیے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگا رہےتھے، اب حکام سے اپنی رقم کی واپسی کے لیے منت سماجت کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں نمائندہ جنگ کے رابطہ کرنے پر ای ڈی او ایلیمنٹری عبدالعزیز چاچڑ نے کہا کہ انہوں نےملازمت کا کوئی بھی آرڈر جاری نہیں کیا ہےاور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی رقم لی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آفس سپرنٹنڈنٹ نے میری لاعلمی میںرقم لے کر میرے جعلی دستخط کرکےمذکورہ آرڈز جاری کیے ہوں۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر دادو ،شاہ زمان کھوڑو نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوںسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ای ڈی او ایلیمنٹری غلط بیانی کررہے ہیں، انہوں نے بذات خود جعلی بھرتیوں کے آرڈز جاری کیے ہیں ۔ ان شکایات پر میں نے سیکریٹری تعلیم کو رپورٹ کی تھی۔ ہم نے صرف مروجہ قانون کے تحت فوتی کوٹہ پر متوفیان کے ورثاء کی بھرتی کے لیے ڈی ای او کوہدایت کی تھی، لیکن انہوں نے جعلی اسامیوں کے بھرتی آرڈرز جاری کیے۔
دوسری جانب اینٹی کرپشن دادوکے سرکل آفیسر غلام علی بوزدار نے کہا ہےکہ ای ڈی او کے دستخطوں سے ملازمت کےسیکڑوں جعلی آرڈرز فروخت کرنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان کے خلاف کرپشن کے دو مقدمات کے سلسلے میں تحقیقات جاری ہے اور بہت جلد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔