اسلام آباد (طارق بٹ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جارحانہ مزاج نہیں رکھتے لیکن مخالفین کو ان کا جواب الجواب بڑا نپا تلا ہوتا ہے۔ انہوں نے غیر معمولی طور پر جارحانہ موقف اختیار کیا اور اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اپنے مخالفین کی جانب سے انگلیاں اٹھائے جانے کی انہیں پرواہ نہیں۔ انہوں نے اپنی روش اور لہجہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد سیاست میں شائستگی اور پاکیزگی لانا ہے۔ عام طور پر ٹھنڈے مزاج کے حامل وزیر اعظم سرگودھا میں اپنے ریمارکس کے دوران بڑے محتاط رہے۔ وہ جواب دینے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ پہلے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملک کے لئے ایک فریادی کی حیثیت سے ملے۔ ملنے کی وجہ سیاسی یا ذاتی فائدہ اٹھانا نہ تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس کو حکومت چلانے میں درپیش مشکلات سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے بھی عدالتی کارروائی کے دوران اپنے ریمارکس کی وضاحت کر کے درست کیا۔ بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو فریادی نہیں کہا۔ سربراہ حکومت کی حیثیت سے وہ ان کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملا قا ت پر بہت سیاسی شور اٹھا۔ جس پر حکومت کے مخالفین کی جانب سے بڑے تبصرے ہوئے اور منفی ردعمل سامنے آیا۔ وزیراعظم نے اپنے پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے ہر بات کا جواب دیا۔ مخالفین کہتے ہیں کہ اداروں کے درمیان مکالمہ ہونا چاہئے۔ جب ایسا ہو تو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس کے ساتھ اپنی ملاقات پر توقع ظاہر کی کہ یہ ثمرآور ثابت ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ وزیراعظم نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ جہاں نواز شریف اور ان کے بچوں پر مقدمہ چل رہا ہے۔ تیسرے سینیٹ اور اس کے چیئرمین کے انتخاب کے بعد وزیراعظم نے بارہا کہا کہ انتخاب میں پیسہ چلا اور ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ ایک موقع پر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ صادق سنجرانی کی جگہ نیا چیئرمین سینٹ منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے اسلام آباد مارچ کی دھمکی کی وزیراعظم کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ چوتھے وزیراعظم عباسی نے آصف زرداری اور عمران خان کو سینیٹ انتخابات کے دوران ہیرا پھیری میں ملوث قرار دیا۔