• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو گرانا مشکل ہے،وزیر اعلٰی کے پی پرویز خٹک کا اظہار خیال

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو گرانا مشکل ہے،وزیر اعلٰی کے پی پرویز خٹک کا اظہار خیال

پینل انٹرویو:

ارشد عزیز ملک

‘ سلطان صدیقی ‘ گلزار محمد خان

عکاسی : تنزیل الرحمن بیگ

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو گرانا مشکل ہے،وزیر اعلٰی کے پی پرویز خٹک کا اظہار خیال

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا شمار ملک کے سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے، طویل عرصہ تک اقتدارکی غلام گردشوں اور حزب اختلاف کی پرخار وادیوں میںرہنےکے بعد ایک سیاسی کارکن سے ایک سیاسی رہنما میں تبدیل ہو چکے ہیں ،پرویز خٹک یکم جنوری1950ءکو ضلع نوشہرہ کے گاؤں مانکی شریف میں پیدا ہوئے، ان کے والد استم خان معروف سرکاری ٹھیکیدار تھے جن کی تعمیراتی کمپنی استم کنسٹرکشن نے قیام پاکستان سے قبل بھی کئی معروف عمارتیں تعمیر کیں، پرویز خٹک نے مانکی شریف میں ابتدائی تعلیم کے بعد چوتھی جماعت میں ایچی سکول اینڈ کالج لاہور میں داخلہ لیا ،1967ءمیں سینئر کیمبرج اور1969ءمیں ایف اے کرنے کے بعد اسلام آباد منتقل ہوئے جہاںگورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ، پرویز خٹک نے 1983ءمیںضلع کونسل نوشہرہ کا رکن منتخب ہوکر عملی سیاست کا آغاز کیا،1993ءمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر آبپاشی منتخب ہوئے،1996میں دوسری مرتبہ صوبائی اسمبلی کا انتحاب جیتا، طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کیساتھ وابستہ رہنے کے بعد جب آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پیپلز پارٹی (شیر پاؤ) کے نام سے الگ پارٹی بنائی تو اس کے صوبائی صدر بنے ، 2001ءسے 2005ءتک ضلع ناظم نوشہرہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں،2008ءکے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بنے ، صوبہ میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد آپ کو آبپاشی کی وزارت دی گئی تاہم دسمبر2011ء میںحکومت پر کرپشن کے الزامات عائد کرکے وزارت اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا،15دسمبر 2011ءکوعمران خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا بعد ازاں تحریک انصاف کے صوبائی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، 11مئی 2013ءکے عام انتخابات میں این اے5اور پی کے13سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، عمران خان نے 13مئی کو انہیں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نامزد کیا ۔تحریک انصاف کی جانب سے بائیکاٹ کے باوجودپچھلے دنوں ’’جنگ‘‘ نے انٹرویوکیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے فوراً ہاں کردی‘ طویل نشست میں ملکی سیاست ‘صوبائی حکومت کی کارکردگی اور انتخابات کی حکمت عملی پر گفتگو ہوئی ’’جنگ فورم‘‘ میں تلخ و تندو تیز سوالات کا اتووں نے بڑے تحمل اور بردباری سے جواب دیا جو قارئین کیلئےپیش خدمت ہے ۔صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان بھی انٹرویو کے دوران موجود رہے اور بعض معاملات پر حکومتی موقف دیتے رہے ۔

جنگ: اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہورہی ہے اور انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں‘ ایک بار پھر احتساب اور ٹیکنوکریٹس حکومت کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، کیا آپ کو انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں؟

پرویز خٹک: دیکھیں جی !یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہیں، ملک میں ہرگز ایسے کوئی حالات نہیں کہ انتخابات نہ ہوں، انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے، آئین میں کسی قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا ہم نے جمہوریت کیخلاف کوئی فیصلہ کیا ہے نہ ہی اسے سپورٹ کرینگے۔ملک میں بروقت انتخابات ہونے چاہئیں جس پر کوئی دو رائے نہیں۔

جنگ: سیاستدان الزام تراشی کرکے ایک دوسر ے کو بدنام کررہےہیں‘ کیا یہ مناسب رویہ ہے اس روش سے بعض قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ؟

پرویز خٹک : ایک طرف سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اور دوسری جانب میڈیا سب کو مرغا بناکر لڑوا رہا ہے ،ہر کوئی اپنی جگہ محترم ہے ‘ہر کسی کی اپنی عزت ہے، ایک دوسرے پر الزمات لگانے کی بجائے اگر ملک و قوم کی بہتری کی بات کی جائے اور ایک دوسرے کو چور چور نہ کہا جائے، میرے پاس بڑی شکایات آتی ہیں کہ فلاں پیسے لے رہا ہے ‘فلاں منسٹر یہ کر رہا ہے اور فلاں افسر ایسا ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر ثبوت لا سکتے ہو یا گواہی دے سکتے ہو تو بات کرو، ورنہ جھوٹ تو نہ بولو، ویسے الزامات نہ لگائو بدقسمتی سے ہمارے پاس سسٹم کوئی نہیں رہا‘ ہر کوئی دوسروں پر الزام تو لگاتا ہے مگر خود احتسابی کیلئے تیار نہیں ‘میں الزام تراشی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اس روش کو بدلنا ہوگا اپنے منشور اور اہداف کی بات کی جائے تو بہتر ہوگا ۔

جنگ: میاں نواز شریف کیخلاف تاحیات پابندی کے فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

پرویز خٹک : میں سمجھتا ہوں نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ در اصل اللہ تعالیٰ کی پکڑ ہے کیونکہ انسان میں اگر غرور ہو اور دولت ہو تو پھر اسے باقی لوگ کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں یہ جو کچھ ہوا اس سے زیادہ بہت کچھ ہونا چاہئے تھا۔

جنگ: لیکن صرف اقامہ کی بنیاد پر اتنی سزا کیوں ‘عمران نے بھی اس پر تنقید کی ہے ؟

پرویز خٹک :شواہدپر وقت لگ رہا ہے اور اقامہ سامنے ہے، اگر ایک سال انہوں نے غلطی سے ظاہر نہیں کیا تو دوسرے سال ظاہر کرتے، آپ دیکھیںکہ اقامہ ہوتا کس لئے ہے یہ بزنس کا راستہ ہے، ویزہ کیساتھ یہ پیسہ ٹرانسفر کرنے کی راہداری ہے، یہ زیادہ تر غیر قانونی کام کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں کہ اس کیلئے راستے کھل جائیں،میں بھی اگر ایسا کروں تو مجھے بھی سزا ملنی چاہئے یہ فیصلہ میں پھر کہونگا کہ اللہ کی پکڑ ہے جس پوزیشن میں آج میں ہوں وزیراعلیٰ کے پاس بہت اختیارات ہوتے ہیں، روزانہ سو، سو فائلوں پر دستخط کرتا ہوں‘ گھر جا کر اللہ سے دعا مانگتا ہوں کہ یا اللہ میری عزت بچا ،کیا پتہ کہاں غلطی ہوئی ہو، کرپشن ہمیشہ جان بوجھ کر کی جاتی ہے‘ اگر کہیں تکنیکی غلطی ہو تو وہ الگ بات ہے اس کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے ۔

جنگ: وفاق میں کس کی حکومت بنے گی ؟ کیا اس مرتبہ عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ سکیں گے ؟

پرویزخٹک : یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی گہری جڑیں ہیں لیکن تحریک انصاف کیلئے بھی پنجاب میں بہت زیادہ سکوپ ہے، عمران خان خود تو پنجاب کو توجہ دے رہے ہیں لیکن اصل ذمہ داری پنجاب میں صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی و تحصیل قیادت کی بنتی ہے کہ اگر وہ عوام تک پہنچ کر گراس روٹ لیول پر رابطے کریں ‘عمران خان کا پیغام عوام تک پہنچائیں اور اچھے امیدوار کھڑے کریں تو کوئی مشکل نہیں اس وقت پارٹی کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کے ووٹ ہیں اور وہ کیش کرلیں گے لیکن انہیں خود بھی سخت محنت کرنی پڑے گی۔پنجاب میں مسلم لیگ کو گرانے کیلئے محنت کی ضرورت ہے پارٹی اجلاسوں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے رہنما اورکارکن کام نہیں کرینگے تو معاملات بہتر نہیں ہونگے ۔

جنگ: خیبر پختونخوا میںآئندہ کس کی حکومت دیکھ رہے ہیںکیا تحریک انصاف دوبارہ حکومت بناسکے گی ؟

پرویز خٹک : مجھے یقین ہے کہ ہم دوبارہ اقتدار میں آئیں گے، ماضی میں جتنی پارٹیاں اقتدار میں آئیں ‘ہر ایک نے اپنا منشور دیا کسی نے پختون کاز کا نعرہ لگایا، کسی نے اسلام کا اور کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا مگر کسی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور پر عمل نہیں کیا اور ویسے وقت گزارا ہم نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا ہم اس پرعمل کرنے میں سو فیصد کامیاب نہیں ہوئے ہونگے لیکن ہم نے اپنے منشور کو بھلایا بھی نہیں‘ ہم نے ہر محکمے میں اصلاحات اور تبدیلی کا آغاز کیا ہےہم دوبارہ حکومت میں آئیں گے اور تبدیلی کے ایجنڈے کو پورا کرینگے ہم نے کہا تھا کہ ہم لوگوں کو جواب دہ ہیں اور آج عوام بھی ایسا سمجھ رہے ہیں اس لئے وہ ہمیں سیاست کے نام پر گند مچانے والوں سے بہتر سمجھتے ہیں ہم میں بھی اچھے برے ہونگے مگر پھر بھی ماضی والوں سے بہترہیں میں عوام کی نبض دیکھ رہا ہوں اور بہتری محسوس کر رہا ہوں اس دفعہ صوبے کے عوام بہترین فیصلہ کرینگے جو انشاء اللہ ہمارے حق میں ہو گا۔

جنگ:2018ءکے انتخابات میں کسی جماعت کیساتھ انتخابی اتحاد کرینگے یا پھر سولو فلائٹ کرینگے ۔

پرویز خٹک :ہمارا کسی بھی جماعت کیساتھ انتخابی اتحاد نہیں ہوگا ہم تنہا الیکشن لڑیں گے انتخابی اتحاد عوام کو دھوکہ دینے کیلئے کئے جاتے ہیں صرف ووٹ کیلئے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے ۔

جنگ:نگران سیٹ اپ کا وقت قریب آرہا ہے نگران وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟

پرویز خٹک : اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر کیساتھ ابتدائی رابطہ کیا ہے لیکن باضابطہ مشاورت شروع نہیں ہوئی ، اپریل میں باقاعدہ مشاورت شروع کرینگے، نگران وزیراعلیٰ کے حوالے سے ابھی دماغ زیرو ہے کوئی نام سامنے نہیں آرہا ۔

جنگ: سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے کتنے ارکا ن چمک کا شکار ہوئے؟ان کیخلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟

پرویز خٹک : ہم شک و شبہ کی باتوں پر نہیں جانا چاہتے، ہم نے اپنے ارکان کو ایک فارمولہ اور مخصوص کوڈ دیا تھا، ہم اس پر ریسرچ کر رہے ہیں تاکہ اصل افرد سامنے آئیںجب شواہد سامنے آئیں گے ،ان کو ہم عوام کے سامنے بھی لائیں گے اور بکنے والے ارکان کیخلاف کارروائی کرینگے ۔

جنگ: پارٹی ٹکٹ نئے یا پرانے لوگوں کو دیں گے ؟ ناراض اور سینٹ میں ووٹ فروخت کرنے والوں کا کیا بنے گا؟

پرویز خٹک :پارٹی سے ناراض کوئی بھی نہیں ‘پانچ ارکان کو ہم نے خود پارٹی سے نکال دیا‘ ہر ضلع کا مجھے پتہ ہے ہم کام کر چکے ہیں ہم بہترین امیدوار لائیں گے ۔2013ء میں ہم نے 35 سیٹیں جیتیں تھیں ،موجودہ ارکان میں سے جس کی پوزیشن اپنے حلقے میں کمزور ہوگی ہم ان سے مکالمہ کرینگے انہیں قائل کرینگے اور وہاں نئے لوگوں کو موقع دینگے جہاں موجودہ ارکان کی پوزیشن بہتر دیکھیں گے وہاں پرانے امیدواروں کو دہرائیں گے۔

جنگ:تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ اچانک کیا ‘کس بناء پر عمران کو اپنا لیڈرتسلیم کیا ؟

پرویز خٹک : اچھے لیڈرز تو بہت ہیں مگر میری زندگی میں تبدیلی عمران خان لے کر آئے ہیں ، ایک وقت ایسا تھا کہ میںروایتی سیاست سے تنگ آچکا تھا اور اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کہ یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر کوئی کرپشن میں مصروف ہے سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں فیصلہ کرنے والا تھا کہ اس سے بہتر ہے کہ سیاست چھوڑ دوں لیکن عمران خان کی سیاست، سوچ اور اقدامات نے حوصلہ دیا کہ نہیں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اگر ایمانداری سے کام کیا جائے‘اسی بناء پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ۔

جنگ:آپ نے مولانا سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ کو خطیر فنڈز دیئے اس پر کافی تنقید ہورہی ہے ‘کیا دوسرے مدارس کا کوئی حق نہیں انہیں بھی فنڈز ملنے چاہئیں ؟

پرویز خٹک :دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ایک عام مدرسہ نہیں بلکہ مدارس کی ایک جامعہ(یونیورسٹی) ہے، یہ ایک بہت بڑا مدرسہ اور حقیقت میں مدارس کی ایک چین ہے ‘یہاں سے مدارس کو سلیبس دیا جاتا ہے ہم اس دارالعلوم میں ایک کالج بنانا چاہتے ہیں جس میں میڈیکل اور انجینئرنگ کو چھوڑ کر باقی سوشل سائنسز کی کلاسیں ہونگی، ہم نے انہیں فنڈز نقد نہیں دیئے ہیں بلکہ مفاہمتی یاداشت کے تحت محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے تحت کلاس رومز اور دیگر عمارات بنیں گی ‘ہم نے دیگر مدارس کو بھی اسی طرح فنڈز دیئے ہیں لیکن یہ مدرسہ چونکہ میرے ضلع میں ہے اس لئے اسے زیادہ ٹارگٹ کیاجاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم دیگر تعلیمی اداروں میں دینی امور، ناظرہ، ترجمہ قرآن پاک اور ختم نبوت کو نصاب کاحصہ بنا چکے ہیں ان تعلیمی اداروں کو دین کے قریب لا رہے ہیںاور مدارس کو عصری علوم کے قریب لا رہے ہیں یہ بات مخالفین سے ہضم نہیں ہو رہی اگر دارالعلوم حقانیہ میں عصری تعلیم شروع ہو گی تو جن اداروں کو حقانیہ سے نصاب ملتا ہے وہ بھی شروع کرینگے۔

جنگ :کیا آئمہ کرام کو اعزازیہ دیکر مذہبی جماعتوں کے ووٹ حاصل کرنے کا کوئی پروگرام بن رہا ہے‘ مذہبی جماعتیںخصوصاً مولانا فضل الرحمان کافی تنقید کررہے ہیں؟

پرویز خٹک : آئمہ کرام کو اعزازیہ پر مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے اور وہ سازشیں کر رہے ہیں ان کی پانچ سال صوبے میں حکومت رہی ‘اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں پانچ سال میں انہوں نے دین کیلئے کون سی قانون سازی کی ہے ؟ یہ تو زبردستی کا اسلام لا رہے تھے ،دراصل دین کے حوالے سے ہم نے جو قانون سازی کی ہے اور جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے ان کی سیاست مدرسوں میں ختم ہو رہی ہے جس سے وہ پریشان ہیں‘ ہم نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا تو وہ تبدیلی دنیوی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے تھا،ہم نے تعلیمی نصاب میں دینی امور کے حوالے سے بھی کام کیا، ہم نے عقیدہ ختم نبوت کو نصاب کا حصہ بنایا، پرائیویٹ سودی کاروبار کو قانون سازی کے ذریعے غیر قانونی قرار دیا، جہیز کے حوالے سے ناجائز اخراجات پر امتناع کاقانون بنایا ،یکم محرم جو اسلامی کلینڈر کے آغاز کا پہلادن ہے اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کا یوم شہادت ہے ہم نے اس پر سرکار ی چھٹی کا آغاز کیا، ہم نے سکولوں میں ابتدائی چھ سال تک ناظرہ قرآن مجید اور اس کے بعد قرآن بترجمہ لازمی کر دیا تاکہ بچے صرف قرآن کو پڑھیںنہیںبلکہ سمجھیں بھی، جب بچے قرآن کو سمجھیں گے تو اسلامی تعلیمات پر عمل کرینگے اوراچھے مسلمان بنیں گے ،اسی طرح سکولوں کیساتھ ساتھ ہم نے مساجد میں بھی سولرائزیشن شروع کر دی تاکہ بجلی نہ جائے اور سکولوں و مساجد میں پانی موجود و دستیاب رہے اگر سرکاری سکولوں میں اساتدہ کو تنخواہ دیتے ہیں تو مسجد کے پیش امام کو کیوں نہ دیں؟ ہم نے کیس اے جی آفس کو بھیج دیا ہے ابھی ہم نے کسی کو تنخواہ دی نہیں مگر یکم مارچ سے ان کی تنخواہ شروع ہو چکی ہے صوبے کے بیس بائیس ہزار پیش اماموں کی اسناد اورکوائف جمع کرلئے ہیں۔آئمہ کرام کو اعزازیہ دینے کیلئے ایک معیار مقرر کیا ہے اور یہ تعداد تیس ہزار تک لے جائیں گے۔

جنگ: آفتاب شیرپاؤ کیساتھ آپ کے قریبی تعلقات رہے ہیں مگر آپ کی پارٹی نے قومی وطن پارٹی کو دو مرتبہ حکومت سے نکالا اور شاید سینٹ انتخابات میں بھی ان کے ساتھ ہاتھ ہوا؟

پرویز خٹک :آفتاب خان شیرپائو کیساتھ میرا انتہائی قریبی تعلق ہے میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں، سیاسی پوزیشن اپنی جگہ وہ میرے لئے قابل احترام ہیں، میری کوشش تھی کہ ان کیساتھ اتحاد بحال رکھا جائے مگر بعض باتیں ایسی تھیں جو میرے بس سے باہر تھیں، جہاں تک سینٹ انتخابات کا تعلق ہے تو ہم نے ان کی امیدوارانیسہ زیب طاہر خیلی کو معاہدے کے مطابق اپنے سارے ایکسٹرا ووٹ دیئے ہیں۔

جنگ: بلین ٹری سونامی میں عمران خان کے اعلانات اورصوبائی حکومت کے موقف میں تضاد نے غلط فہمیوں کو جنم دیا ‘قوم کو مکمل حقائق کیوں نہیں بتائے گئے ‘24 کروڑ درخت لگانا بھی کوئی معمولی بات نہیں؟

پرویز خٹک : جی بالکل !اس بات میں حقیقت ہے کہ ایک ارب 18کروڑ پودوں میں60 فیصد قدرتی پودے اور40 فیصد شجرکاری کے ذریعے لگے ہیںاس معاملے میں کوئی کنفیوژن نہیں شاید سمجھانے اورسمجھنے کا مسئلہ ہے ۔ عمران خان نے جب ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا تو تمام نرسریز میں تیس سے چالیس لاکھ تک پودے تھے، ہم نے بات کی اور اگلے سال تین کروڑ تک لے گئے ہم نے طلبا ءاورکاشتکاروں کو اس میں شامل کیا اور تیسرے سال پچیس کروڑ تک درخت لگائے، یوں ہم نے شجر کاری کی اور ایک ہزار کنال رقبے پر دونگہبان بھی رکھے ہم نے جو شجر کاری کی اس کی گروتھ 80،پچاسی فیصد ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم نے نیچرل گروتھ کو بھی محفوظ کر لیا ،ہم نے درختوں کی کٹائی پر بھی پابندی لگا دی‘ ماضی کی حکومتوں میں ونڈفال کے نام پر اور سوکھے درختوں کے نام پر ٹمبراٹھانے کی اجازت دی جاتی تھی مگر ایک سوکھے درخت کے نام پر ایک ہزار سرسبز درخت کاٹے جاتے تھے۔ ٹمبر مافیا نے اسی طرح دس سال کے دوران دو سو ارب روپے کے درخت کاٹ کر ہضم کر لئے ۔ہماری حکومت دوبارہ آئیگی تو اگلی بار ہم دو ارب پودے لگائیں گے ۔مسلم لیگ (ن) والے الزامات لگاتے ہیں اور خوامخواہ اعتراضات کرتے ہیں وہ گوگل آرتھ پر جا کر دیکھ لیں۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو گرانا مشکل ہے،وزیر اعلٰی کے پی پرویز خٹک کا اظہار خیال

جنگ: اگر خیبر پختونخوا حکومت کرپشن کیخلاف ہے تو پھر احتساب کمیشن کو تالے کیوں پڑے ہیں؟احتساب کمیشن پر بھی الزامات لگ رہے ہیں بھرتیوں میں بے قاعدگیاں ہوئیں ؟

پرویز خٹک : صوبہ میں احتساب کمیشن قائم کیا تو اس نے لوگوں کو صرف الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرنا شروع کردیا جس پر کافی شدید ردعمل آیا ۔افسروں نے کام چھوڑ دیا کوئی فائل پر دستخط کیلئے تیار نہیں تھا کیونکہ افسروں کو اٹھا کر بے عزت کرکے چھوڑ دیا جاتا تھا یہ طریقہ کار مناسب نہیں تھا ہم نے قوانین میں ترمیم کی تا کہ پہلے انکوائری ہو پھر معاملہ عدالت میں جائے اور عدالت کی اجازت سے گرفتاریاں ہوں تاکہ کوئی اعتراض نہ کرسکے اور نہ ہی کوئی بے گناہ پکڑا جائے ۔اس بناء پر ڈی جی احتساب کمیشن نے استعفیٰ دیدیاجس پر ہم نے تنقید سے بچنے کیلئے قانون سازی کی تاکہ ہائیکورٹ کی جوڈیشل کمیٹی کوڈی جی کی تقرری کا اختیار مل جائے تاہم اب پشاور ہائیکورٹ نے ڈی جی کی تقرری کا اختیار لینے سے انکار کردیا ہے اب ہم نے سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم نے تو شفافیت کیلئے ایسا کیا ہے اورباقاعدہ قانون پاس کیا، احتساب کمیشن بند ہے نہ کوئی تالے لگے ہیں بلکہ ادارہ قانون کے مطابق کام کر رہا ہے اور ریفرنس تیار کر کے بھیج رہاہے اگر ڈی جی نہیں تو ان کے اختیارات قائمقام ڈی جی استعمال کررہا ہے ۔بھرتیوں کا معاملہ حکومت سے الگ ہے کیونکہ ہم نے احتساب کمیشن قائم کیا اور اس کو خود مختار بنا دیا لہٰذا بھریتوں سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ۔

جنگ: صوبہ میں ساڑھے تین سو ڈیم تعمیر کرنے کا کافی چرچا ہے کیا ان کو کمیونٹی کےحوالے کرنے کیلئے قوانین بن چکے ہیں؟

پرویز خٹک: ہم نے صوبہ میں تین سومنی ہائیڈرومنصوبے مکمل کرلئے ہیں انہیں کمیونٹی کو ٹرانسفر کرنے کیلئے قانون سازی کا مسئلہ ہے‘ باقی چالیس پچاس منی ہائیڈرو منی سٹیشنوں کی تعمیرپر اراضی کا مسئلہ ہے جیسے ہی وہ حل ہو جاتا ہے تو ان پر کام مکمل کرلیا جائیگا ہمارا نہروں کے بہائو پر بھی چھ سو پن بجلی گھر بنانے کا منصوبہ ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا جانے والا قرضہ ان ڈیموںکی آمدنی سے ادا کیا جائیگا ۔

جنگ:کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں ‘عمران خان کاصوبے کے سرکاری ہیلی کاپٹرکو استعمال کرنا غیرقانونی نہیںاب تو سکینڈل پر نیب کارروائی کررہا ہے ؟

پرویز خٹک :سکینڈل کوئی نہیں ،سکینڈل تو تب ہوتا ہے جب کوئی بات چھپی ہوتی سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کو ہم خود دعوت دیتے رہے اورمیں خو د انہیں اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میں لے کرجاتا رہا۔ ہیلی کاپٹر میں وہ کسی سیاسی جلسہ یا اپنے ذاتی کام کیلئے نہیں گئے بلکہ صوبے کے سرکاری کاموں کے سلسلے میں انہیں مدعو کر کے ساتھ لے جایا جاتا رہا ہے وہ ہمیشہ کسی وزیر یا وزیراعلیٰ کے ہمراہ گئے ہیں ۔ عمران خان کے دوروں کی وجہ سے ہم کروڑوں روپے اشتہاروں کی بچت بھی کرلیتے ہیںکیونکہ انہیں میڈیا خود ہی کوریج دیتا ہے ، ہیلی کاپٹر تو ماضی میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے اسفندیار ولی خان خان بھی استعمال کرچکے ہیں ہیلی کاپٹر کیلئے کوئی رولز آف بزنس نہیں یہ صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہوتا ہے آئی جی بھی استعمال کرتے رہے ہیں اورچیف سیکرٹری بھی ،کبھی ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال نہیں کیا، صوبہ کا دوسرا ہیلی کاپٹر گرائونڈ ہے اس کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے ہم اگر اسے اسی حالت میں بیچیں تو قیمت بہت کم ملے گی اور اگر نیا خریدیں تو قیمت بہت زیادہ دینی پڑے گی اس لئے ہم نے اس کی اوور ہالنگ کا فیصلہ کیا یہ روسی ساختہ ایم آئی 17ہیلی کاپٹر ہے پاکستان میں اسی کی اوورہالنگ کے اخراجات بہت زیادہ تھے ہم نے نصف قیمت میں روسی کمپنی کو اوورہالنگ کا ٹھیکہ دیدیا ہے جس سے کم ازکم 18کروڑ رو پے کی بچت ہوگی اوراوور ہالنگ میں اس کا انجن بھی نیا لگے گا۔ انٹیریر ڈیکوریشن بھی ہو گی اور ہم اس میں نائٹ ویژن کا اضافہ بھی کر رہےہیں ۔

جنگ: معدنیات کی غیر قانونی کان کنی کب ختم ہوگی اس معاملے پر حکومت کیا کررہی ہے ؟

پرویز خٹک : پہلی بار ہماری حکومت نےمعدنیات پالیسی دی اور صوبے میں سائنٹیفک مائننگ کا سلسلہ شروع کیا گیا، مسئلہ یہ ہے کہ معدنیات کے جو آکشن ہوتے رہتے ہیں ہر سال مقابلے میں اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہ ریٹس پیک(بلندی) پر چلے گئے ہیں اب مزید آگے نہیں جا رہے کیونکہ ٹھیکیدار مقابلے کی بجائے آپس میں مل جاتے ہیں جہاں تک کہیں غیر قانونی کان کنی کی بات ہے، اس سلسلے میں سخت اقدامات کئے جارہے ہیں‘ بڑی حد تک یہ سلسلہ بند ہو چکا ہے پھر بھی کہیں اطلاع ملے تو فوری اقدام اٹھایا جاتاہے ،محکمہ جاتی اقدامات بھی ہوتے ہیں ایف آئی آرز بھی کاٹی جاتی ہیں ،لوگ گرفتار بھی ہوتے ہیں مگر عدالتوں سے ضمانتیں مل جاتی ہیں اب ہم قوانین میں تبدیلی لاکر سزا اور جرمانے کی شر ح بڑھانےپر غور کررہے ہیں ۔

جنگ : عمران خان موٹر وے پر تنقید کرتے ہیں‘ تحریک انصاف حکومت نے سوات موٹر وے کی تعمیر شروع کی اب سڑ ک کی تعمیر کہاں تک پہنچی ہے ؟

پرویز خٹک : ہماری تین اہم شاہراہیں زیرتعمیر ہیں، ہزارہ موٹروے مانسہرہ تک پہنچ جائیگی ۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پشاور ڈی آئی خان موٹر وے کو شامل کر رہے ہیں جبکہ سوات موٹروے مکمل ہونیوالا ہے ، اپریل میں کاٹلنگ تک کا سیکشن ٹریفک کیلئے کھول رہے ہیں اور باقی ماندہ حصہ جون تک کھل جائیگا،دراصل اس میں ٹنل والے حصے پر کام جاری ہے جس میں 120 ایکسکیویٹر ز مسلسل کام کر رہے ہیں اس کی تکمیل سے ملاکنڈ ڈویژن اوپن ہو جائیگا۔

جنگ: عمران خان چار سال تک پنجاب میں میٹرو بس کو جنگلہ بس کہتے رہے اب پشاور میں میٹرو بس بن رہی ہے ‘کیا جنگلہ لگے گا؟

پرویز خٹک : عمران خان بعض اوقات اپنی بات لوگوں کو درست انداز میں سمجھانے میں کامیاب نہیںہوتے‘اسی بناءپر غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،عمران خان کا موقف تھا کہ صحت اورتعلیم کو ترجیح دی جائے اس کے بعد دیگر معاملات پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ پنجاب میں بڑے بڑے منصوبے کمیشن کیلئے بنتے ہیں جس سے عوام کو صحت اورتعلیمی سہولیات میسر نہیں آتیں۔ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن قوم کے ساتھ زیادتی ہے‘ میں خود اس کو نہایت زہریلا سمجھتا ہوں، مجھے خود بڑی بڑی کمپنیوں نےکمیشن کی آفرز کیں لیکن میں نے پرائیویٹ کی بجائے حکومتی کمپنیوں کو کام دیئے، میں نے حکومتی کمپنیوں پر زور ڈالاکہ وہ ہمیں کمیشن نہ دیںیہ کمیشن صوبے کے عوام کو دیں ان منصوبوں کے ذریعے یہ کمپنیاں جو منافع کمائیں گی اس میں دس فیصد صوبے کو ملے گااب مستقبل میں آئل ریفائنری، سیمنٹ، ہائوسنگ، چکدرہ ایکسپریس وے وغیرہ سے صوبے کو70ارب روپے مفت میں ملیں گے، ہائوسنگ سکیموں میں صوبے کو ایک بار اور باقی منصوبوں میں سالانہ کی بنیادی پر حصہ ملے گا، ماضی میں یہ پیسہ لوگوں کی جیبوں میں جاتا تھا۔تعلیم اورصحت میں بہتری کے بعد اب ہم نے پشاور کے شہریوں کو بہترین بس کی سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پشاور میں کئی دھائیاں پرانی گاڑیاں چل رہی ہیں ۔

جنگ :پشاور کے شہری آج کل میٹرو بس منصوبہ سے بہت پریشان ہیں، کیا واقعی یہ منصوبہ عجلت میں شروع کیا گیا؟

پرویز خٹک : پشاو رریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبہ ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہےکیونکہ ہم نے دوسال تک محکمہ ریلوے کیساتھ مذاکرات کئےتاکہ ہمیں ریلوے ٹریک ملے لیکن انہوںنے دو سال لٹکائے رکھا اور پھر انکار کر دیا پھر ایشیائی بینک سے بات کی اور معاہدے تک پہنچنے میں ہمیں ڈیڑھ سال لگا ، بی آر ٹی منصوبہ میں صوبہ کا کوئی کردار نہیں، کنسلٹنٹ ایشین بینک نے خود مقررکیا ہے ۔منصوبے کے ٹینڈر انہوںنے میڈیا کے سامنے خود کھولے ہیں ہم صرف کام کی نگرانی کررہےہیں تاکہ معیار برقرار رہے اور کام تیزی سے مکمل ہو۔میں نے پی ڈی اے کو چھ ماہ کا ٹائم دیا انہوںنے کہاکہ اگر ایسا ہے تو ہم دن رات کام کرینگے اور کرر ہے ہیں، ہماری بی آر ٹی کے سٹرکچر پر پنجاب کے مقابلے میں کم لاگت آرہی ہے۔ منصوبے کی لاگت میں تین مقامات پر کمرشل پارکنگ پلازوں کی تعمیر بھی شامل ہے ،بی آر ٹی کیساتھ 6 مختلف روٹس پر بھی بسیں چلیں گی، کل 300 بسیں ہونگی جن میں 92 مین میٹرو لائن پر اور باقی سات مختلف روٹس پر چلیں گی،ان چھ مختلف روٹس پر چلنے والی پرانی گاڑیوں کو ہم خرید کر سکریپ کریتگے اس پر بھی ایک ارب کی لاگت آئیگی ۔300 بسوں کی خریداری کے حوالے سے چین سے بات ہو چکی ہے اور یہ بسیں بائی روڈ لائی جائیں گی میٹرو بس کا مین میٹرو ٹرمینل چمکنی میں قائم کیا جائیگا یہاں یر اپک پارکنگ پلازہ بھی ہوگا اسی طرح چمکنی میں موجودہ بس ٹرمینل کو بھی منتقل کیاجارہاہے اور موجودہ بس ٹرمینل کی جگہ پر سی پیک ٹاور تعمیرکیا جائے گا جو ایک میگا کاروباری مرکز ہوگا اس کے ساتھ ساتھ چمکنی کے اس علاقہ میں گریٹر پشاور سرکلر ریلوے کا سٹیشن بھی قائم کیا جائیگا تاکہ لوگ ٹرین اور بس کے ذریعے شہر کے اندر اور شہر سے باہر سفر کرسکیں۔

جنگ:پشاور کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا کوئی نئی ہائوسنگ سکیم شروع نہیں ہوسکی جبکہ پرانی سیکمیں بھی ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں؟

پرویز خٹک : پشاور بدقسمت شہر ہے ‘کسی نے اس کی ترقی پر توجہ نہیں دی ہم نے پی ڈی اے سے 30 ارب روپے نکال کر پشاور کی ترقی پر لگا دیئے ، رنگ روڈکا ادھورا منصوبہ اب چارسدہ روڈ سے ورسک روڈ تک مکمل ہوچکا ہے اب ریگی اور حیات آباد تک لے جانے کیلئے چینی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے جلد اس سلسلے میں معاہدہ ہو جائیگا ، ریگی ماڈل ٹائون کادیرینہ مسئلہ کافی حد تک حل کرلیا گیا ہے 70 فیصد علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے، فیز 3 اور فیز 4 میں تیزی سے تعمیراتی عمل شروع ہو چکا ہے سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں بجلی کی سپلائی موجود ہے اور گیس سپلائی کیلئے کام ہورہاہے ۔

جنگ: تحریک انصاف حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کیلئے تاریخی قرضے لیکر صوبہ کو اربوں روپے کا مقر ض کردیا جبکہ عمران خان مرکزی حکومت پر اربوں کے قرضے لینے پر تنقید کرتے ہیں ؟

پرویز خٹک :ہم نے بس ریپڈ ٹرانزٹ کیلئے قرضہ لیا جو خود ہی قرضہ واپس کریگی ، حکومت کو اس پر سبسڈی نہیںدینی پڑے گی ابتدائی تین ماہ اس میں لوگ مفت سفر کرینگے ہم نے آغاز سے آخر تک اس کا کرایہ 55 روپے رکھا ہے جو اس روٹ پرعام بسوںاور ویگنوں کا کرایہ ہے،یہ منصوبہ اگر پرافٹ نہ بھی کرے تو کم از کم ہمیں سبسڈی نہیں دینی پڑے گی ، سوات موٹر وے ٹول پلازہ 25 سال تک ڈبلیو ایف او کے پاس رہے گا جس میں صوبے کو 10 فیصد منافع ملے گا ۔

جنگ: سی پیک میں صوبے کو کوئی فائد ہ ہوگا یا صرف پنجاب سب کچھ لے اڑے گا؟

پرویز خٹک :پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام جاری ہے، خطے کے ممالک سمیت یورپی ممالک بھی اس منصوبے میں دلچسپی اور شراکت کا اظہار کر رہے ہیں، اس منصوبہ سے پورے ملک کو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا مگر ہمارے صوبے کو سب سے زیادہ فائدہ ملے گا ، ملک میں دہشت گردی اور بدامنی رکی ہے ‘چار پانچ سال سے بہتری آئی ہے تو سرمایہ کار متوجہ ہو رہے ہیں، اگرحکومت ایماندار ہو، سرمایہ کاروں کو ون ونڈو آپریشن ملے ،صنعت کیلئے سازگار ماحول بنایا جائے تو سرمایہ کاری میں رکاوٹ نہیں رہے گی لوگ آئینگے اور سرمایہ کاری کرینگے،یقیناً سی پیک سے بہت بڑی تبدیلی آئیگی، ملک میںبھی اور میرے صوبے کو سب سے زیادہ فائدہ ملے گا اس وقت تو ہم سمندر سے دور ہیں،خام مال سے دور ہیں،ہم نے مغربی روٹ کیلئے اس لئے جھگڑا کیا کہ روٹ سے فاصلہ میں پانچ سے چھ سو کلو میٹر تک کمی آئیگی چنانچہ یہاں جو کوئی بھی انڈسٹری لگائے گا اسے ترسیل کیلئے فاصلہ کم ملے گا ہم سی پیک کا چترال گلگت متبادل روٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ایک اور روٹ پشاور ٹو افغانستان ہو گا جس سے سنٹرل ایشیاء اور افغانستان اوپن ہوجائیگا، چترال روٹ آگے وا خان پٹی کے ذریعے وسطی ایشیا میں کھلے گا اس راستے سے بھی وسطی ایشیائی ریاستوں سے رابطہ ہو گا پھر یہاں کے صنعتکار پنجاب کو بھی سپلائی کر سکیں گے، افغانستان میں بھی ایک دن تو امن آئیگا جس سے تجارت مزید بڑھے گی ۔

جنگ: خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا دعویٰ کس حد تک درست ہے اپوزیشن تبدیلی کو ڈھونگ قرار دیتی ہے ۔تحریک انصاف تعلیم اورصحت کے شعبوں میں اصلاحات کا کریڈٹ لیتی ہے ؟

پرویز خٹک : جب ہم اقتدار میں آئے تو صوبے میں تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار تھا‘ اکثر سکولوں کی عمارتیں تباہ حال تھیں، شہروں کے سکولوں میں ضرورت سے زیادہ اور دیہی علاقوں میں ضرورت سے کم اساتذہ تھے ، وزیراعلیٰ بننے کے بعد میں نے ایک سکول کا وزٹ کیا تو سکول کی حالت دیکھ کر میں نے بحیثیت وزیراعلیٰ خود کو مجرم پایا، میں نے سوچا کہ اگر میں ان سکولوں کو سہولتیں فراہم نہیں کرونگا ان کی کمی پوری نہیں کرونگا تو ان سے سوال پوچھنے کا حق بھی نہیں رکھتا، ہم نے صوبے کے پرائمری سکولوں کو سہولیات کی فراہمی پر35ارب روپے خرچ کئے، دو کمروں کے سکولوں کو چھ کمروں کے سکولوں میں بدل دیا، پانی، بجلی اور فرنیچر فراہم کیا، سولر سسٹم دیا، سکولوں میں اساتذہ پورے کئے اور نصاب تعلیم اُردو میڈیم سے انگلش میڈیم کر دیا،سلیبس کو درست کیا، ریزلٹ پر زور دیا پہلے امتحانی ہال بکتے تھے ہم نے امتحانی سسٹم درست کیا اور امتحانی ہالوں میں کیمرے نصب کئے ہم نے57ہزار سکول ٹیچرز بھرتی کئے،اساتذہ کو ٹائم سکیل دیا، اب ایک سکول ٹیچر اسی سکول میں بھرتی ہو گا ادھر مستقل رہے گا کہیں تبدیل نہ ہو گا اور اسی سکول میں اسے ترقی ملے گی، پروموشن کو ہم نے ریزلٹ کیساتھ منسلک کیا اور سکول ہیڈ ماسٹر کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا، ہم نے ٹیچرز پر سیاست نہیں کی جیسا کہ ماضی ہوتا رہا، ہم نے چار سال میں کسی ٹیچر کاتبادلہ نہیں کیا، اسی طرح ماضی میں سکو ل ٹیچرز کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی میں نے ڈونرز کو بٹھایا اور انہیں سمجھایا کہ ماضی میں جو پیسہ آپ نے دیا وہ کہاں گیا؟،اچھے نتائج سامنے کیوںنہیں آئے، میں نے فنڈز کے استعمال کا فارمولہ چالیس ساٹھ سے بیس 80کردیا کہ بیس فیصد غیر ترقیاتی اور باقی 80ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونگے،اسی طرح اساتذہ کی تربیت کے نام پر ایک روزہ سیمینار کے سلسلے کو بند کیا اورگرمیوں کی چھٹی میں باقاعدہ ٹریننگ کا سلسلہ شروع کروایا، جو پرانے ٹیچرز ہیں انہیں بھی ٹریننگ کیلئے بھیجا جاتا ہے اور نئے بھرتی ہونے والوں کو بھی، اس سلسلے میں ہم نے کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کیا، ہم نے سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنائی اور مانیٹرنگ سسٹم شروع کیا، صحت کے شعبے میں بھی یہی حال تھا کہ ہسپتالوں میں سہولتیں نہیں تھیں‘ صحت کے شعبے میں قوانین پاس کئے، اسمبلی کمیٹیوں کی سربراہی میں نے خود تمام پارلیمانی لیڈروں کو کمیٹی میں ساتھ رکھا، مشاورت سے قوانین بنائے، بڑے ہسپتالوں کو خود مختاری دی، ون لائن بجٹ دیا، عدالتوں میں سارے کیس پیروی کر کے جیتے صوبے میں ہسپتالوں کے ڈاکٹر تنخواہیں لیتے تھے لیکن ڈیوٹی نہیں کرتے تھے، چھ ہزار ڈاکٹر تنخواہیں لے رہے تھے مگر بیرون ملک بیٹھے تھے،ہم نے ان سب کو فارغ کیا‘ اسی طرح سات آٹھ ہزار تک ایسے ڈاکٹر تھے جو پروموشن نہیں لے رہے تھے ہم نے ان سب کو پروموٹ کیا اور نیچے نئی بھرتیاں کیں، قیام پاکستان کے بعد سے 66سال تک صوبے میں ڈاکٹروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی ہم نے نئی بھرتیاں کیں او ر اب چار سال میں آٹھ ہزار ڈاکٹر بھرتی ہوئے ،ماضی میں پشاور اور ایبٹ آباد کے علاوہ ڈاکٹرز دوسرے علاقوں میں نہیں جاتے تھے ہم نے ڈاکٹروں کی تنخواہیں ڈیڑھ دو لاکھ بڑھائیں اب صوبے کے تمام اضلاع میں ڈاکٹرز، سرجنز اور سپیشلسٹ موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں، ہم نے جس طرح سکولوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی بنائی اسی طرح ہسپتالوں میں صحت مراکز میں ڈاکٹروں کی حاضری یقینی بنائی ،حاضری کو مانیٹر کیا اور ڈاکٹروں کی 95فیصد کمی پوری کر دی، ایمرجنسی میں ادویات مفت کیں، صحت انصاف کارڈ متعارف کرایا‘ چوبیس لاکھ خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ دیئے جس کے تحت ساڑھے پانچ لاکھ تک کا علاج مفت فراہم کیا جاتا ہے، صوبے کے ہسپتالوں میں طبی آلات اور مشینری خراب پڑی تھی ان کی مرمت پر کروڑوں روپے خرچ کئے جبکہ اربوں روپے کی نئی جدید مشینری خریدی، پرانے سٹرکچر کو بہتر کرنے پر سرمایہ لگایا انہیں درست کیا پھر نئے سٹرکچرپر توجہ دی، ٹیچرز کی طرح ہم نے ڈاکٹروں پر بھی سیاست نہیں کی، ڈاکٹروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ اور بھرتیوں میںمداخلت نہیں کی۔

جنگ: تحریک انصاف حکومت نے پولیس کو خود مختاری دی لیکن اب بھی شکایات ملتی رہتی ہیں‘ کس حد تک پولیس میں بہتری آ ئی ہے ؟

پرویز خٹک : اللہ تعالیٰ کا فضل ہے پورے ملک میں جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں یا موجودہ حکومتیں ہیں ہم ہر ادارے میں بہتری کے لحاظ سے ان سے بہت آگے ہیں، دراصل جو بھی حکومت آتی ہے ،اندھوں کی طرح آگے بڑھتی رہی، ہم نے اقتدار میں آنے سے دو سال قبل پوری تیاری کی اور اقتدار میں آنے کے بعد اصلاحات متعارف کرائیں، ڈیلیوری سسٹم ٹھیک کیا اور مانیٹرنگ پر توجہ دی، ہر لحاظ سے ہم اصلاحات اور بہتری لائے ہیں جب میں وزیراعلیٰ بناتو پہلا کام یہ کیا کہ آئی جی ناصر درانی کو صوبے میں تبدیل کروایا، ان سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے چارج لیا تو پہلی ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں واپس جا رہا ہوں ‘میں نے پوچھا کیوں تو انہوں نے کہا کہ آپ سے خاندانی تعلقات ہیں آپ میرے معاملات میں مداخلت کرینگے تو کام نہیں کر سکونگا، ان کی یہ بات مجھے فوراً کلک ہوئی اور پانچ سیکنڈمیں، میں نے انہیںکہا کہ ٹھیک ہے کوئی مداخلت نہیں ہو گی لیکن تھانہ کلچر درست کر کے دینا ہے، میں نے انہیں مکمل فری ہینڈ دیا قانون تو اڑھائی سال بعد اسمبلی سے بنا لیکن اس دوران بغیر قانون بنائے،انہیں پورا اختیار دیا اور کسی قسم کی مداخلت نہیں کی بعد میں جب قانون سازی ہوئی تو وہ قانونی لحاظ سے بھی بااختیار بنے، پہلے وزیراعلیٰ ‘وزراء، ایم این ایز، ایم پی ایز کے بندے تھانوں میں لگتے تھے سفارشوں پر عہدے ملتے تھے اسی بناء پر وہ اپنے لوگوں کا خیال رکھتے تھے، اب جبکہ ہمارے بندے نہیں لگتے تو وہ ہماری طرف نہیں دیکھتے اپنے کام اور ڈیوٹی پر توجہ دیتے ہیں، صوبے میں ٹریفک پولیس کتنی بدنام ہوتی تھی آج کوئی بات نہیں کر سکتا ہے اسی بہتری کو ہم تبدیلی کہتے ہیں ایکاً دکاً واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن مجموعی طورپر حالات کافی حد تک بہتر ہوچکے ہیں۔

جنگ:اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟

پرویز خٹک : میرے 3 بڑے بھائی لاہور ایچی سن سکول اینڈ کالج میں داخل تھے، جب میری اور چھوٹے بھائی کی باری آئی تو ماں کے اصرار پر ہمیں گائوں کے سکول میں رکھا گیا ‘ساتھ میں قرآن کی تعلیم بھی شروع کی، چوتھی تک میں نے گائوں کے سکول میں پڑھا پھر پانچویں میں ایچی سن سکول میں داخل ہوا، ایچی سن کے پرنسپل سے فیملی تعلق تھا لہٰذا انہوں نے ایچی سن میں ٹیسٹ کیلئے تیارکیاجب امتحان دیا پاس ہوا اور داخلہ مل گیا تاہم مجھے احساس ہوا کہ جو بچے ابتداء سے ایچی سن میں داخل تھے، میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ، یہی بات ذہن میں تھی اور میں نے اپنے صوبے میں نصاب تعلیم اُردو میڈیم سے انگلش میڈیم کیا تاکہ غریب کے بچے بھی آگے جا کر مقابلے کے امتحانوں میں مقابلہ کر سکیں، میں نے ایچی سن میں سینئر کیمبرج اور ایف اے کیا تاہم اس سارے عرصے میں میرا زیادہ تر دھیان اور توجہ سپورٹس پر رہی ،کرکٹ کے علاوہ سارے کھیل کھیلے، ہاکی کا کپتان رہا، فٹ بال ٹیم میں بھی رہا اور دیگر کھیل بھی کھیلے، جب میں سیاست میں آیا میرے والدقیام پاکستان سے قبل گورنمنٹ کنٹریکٹر تھے کئی ڈیم اور اسلام آباد کی بے شمار عمارتیں ہماری کمپنی نے تعمیرکی تھیںلیکن سیاست میں یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ہم کھوتے رہے ۔

جنگ: شادی اپنی یا گھر والوں کی مرضی سے کی ؟

پرویز خٹک :شادی گھر والوں کی مرضی سےکی ‘خاندانی تعلقات تھے ، پہلی شادی 1979ء میں ہوئی ، پہلی بیوی کے ایکسڈنٹ کے بعد دوسری شادی کی ،5 بچے ہیں تین بیٹے دو بیٹیاں ، بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے ، بڑا بیٹا میرے لئے حلقے میں کام کرتا ہے اور کاروبار بھی سنبھال رہاہے جبکہ چھوٹے بچے ابھی پڑھ رہے ہیں ۔

جنگ:آپ کی کونسی عادت گھر والوں کو پسند نہیں؟

پرویز خٹک : میرا سگریٹ پینا گھر والوں کو بھی پسند نہیں اور بچے بھی اس پر ناراض ہوتے ہیں اس کیساتھ بچوں کو وقت نہ دینے کا ایشو بھی ہے جس پر وہ ناراض رہتے ہیں تاہم اب نواسوں کووقت دیتا ہوں ۔

جنگ: آپ کی کس بات سے گھر والے خوش ہیں ؟

پرویز خٹک :میر ی عادت ہے کہ بچوں پر کبھی غصہ نہیں کرتا اس بات پر بچے مجھ سے بہت خوش رہتے ہیں ۔

جنگ: بچوں کیلئے سفارش تو کرتے ہونگے انہیں کیا بنانا چاہتے ہیں ؟

پرویز خٹک : اپنے بچوں کیلئے کبھی کسی معاملے میں سفارش نہیں کی خواہ داخلہ ہو کاروبار ہو یاکوئی اور کام، میں چاہتا ہوں کہ وہ خود مضبوط ہوں ،بیٹوں کو سیاست میں لانے کیخلاف ہوں ان کا اپنا ذہن ہے اپنی سوچ ہے جو بننا چاہتے ہیں بنیں میرا بڑا بیٹا اگر کسی حد تک سیاست میں ہے تو وہ بس اتنا کہ حلقے میں میرے لئے میری جگہ سیاست کرتا ہے اور بس۔

جنگ:شاپنگ خود کرتے ہیںیا اہلیہ تما م خریداری کرتی ہیں ؟

وزیر اعلیٰ: شاپنگ فیملی کرتی ہے‘گھر کے معاملات اہلیہ دیکھتی ہے کیا خریدنا ہے اور کیا نہیں ،میں زیادہ تر سفید ،ہاف وائٹ اور برائون کپڑے پہنتا ہوں ۔

جنگ: میوزک سنتے ہیں؟

پرویز خٹک : صوبائی وزیر شاہ فرمان کی طرف دیکھتے ہوئے شاہ فرمان کو پتہ ہے ،موسیقی سے کافی شغف ہے ۔

جنگ: کیا سنتے ہیں ؟کونسا گلو کار پسند ہے؟

پرویز خٹک :موسیقی جس کوپسند نہیں اس میں سنس ہی نہیںاس بات پر کبھی توجہ نہیں دی کہ کون پسند ہے اور کون نہیں‘ بس ماحول کے حوالے سے اچھا میوزک ہوا اور گانے والا کوئی بھی ہو زیادہ تر اُردو میوزک سنتا ہوں وقت کیساتھ جو بھی سامنے آجائے۔

جنگ: کھانے میں کیا پسند ہے؟

پرویز خٹک :کھانے میں صرف گھر کے کھانے ‘چپاتی خمیری روٹی اورسالن پسند ہے،مٹن کری چکن بہت کم کھاتا ہوں گھر سے باہر ہوں تو اکثر بھوکا رہتا ہوں باہر بہت کم کھاتا ہوں ۔

جنگ: رنگ اورپھول کونسا پسند ہے ؟

پرویز خٹک : رنگوں میں سفید پسند ہے اور گلاب کا پھول اچھا لگتا ہے۔

جنگ: آئیڈئل کون ہے؟

پرویز خٹک : میں اپنا آئیڈیل خود ہوں ۔

جنگ: فیصلہ دل سے کرتے ہیں یا دماغ سے؟

پرویز خٹک :زندگی کے فیصلے دل اور دماغ دونوں سے کرتا ہوں البتہ سیاست دماغ سے لیکن دل لگا کر کرتا ہوں۔

جنگ:دولت ، شہرت اور عزت میں کس چیز کو ترجیح دینگے ؟

پرویز خٹک : والدین نے بڑی دولت کمائی اور جائیداد بنائی ،اللہ نے سب کچھ دیا ‘ عزت ہی میں رہنا چاہتاہوں ۔عزت نہ ہو تو دولت اورشہرت کا کوئی فائدہ نہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین