• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری زبان

اتنی پرانے زمانے کی بھی بات نہیں، پرسوں کی بات ہے ، بس یہی کوئی ہمارے نانا جان قبلہ کے اسکول کے زمانے کی ۔۔۔۔فرماتے تھے کہ ہمارے اردو کے استاد محترم بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت کرتے تھے کہ جب بھی بات کرنی ہو تشبیہات ، استعارات ، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو استعمال کیا کرو۔ خبردار جو عوامی قسم کی لچر زبان استعمال کی۔

پھر ہمارے نانا جان مرحوم جو واقعہ سناتے تھے، اتنی بار سنایا اتنی بار سنایا کہ ہمارا چھوٹا بھائی ، ان کے ایک جملے کے بعد والا دوسرا جملہ سنا دیا کرتا تھا،مگر مجال ہے کوئی ان کی پیشانی پر بل آیا ہو۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے قبلہ و کعبہ کو کیا اردو سکھائی ۔

خیر جناب ، بات ہو رہی تھی ہمارے نانا جان کے اسکول کے ایک واقعے کی۔

تو ایک بار دوران تدریس ان کے وہی اردو کے استادمحترم حقہ پی رہے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو ناگاہ چلم سے ایک ننھی سی چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔اب اس کے آگے ہمارے نانا جان قبلہ یوں فرمایا کرتے تھے کہ" میری گناہ گار نظر بس اسی طرف تھی ، فوراً استاد محترم سے اجازت حاصل کی اور مودبانہ لہجے میں بڑے ادب سے گویا ہوئےحضور والا ! یہ بندۂ ناچیز ، حقیر پرتقسیر ایک روح فرسا حقیقت بہ اجازت جناب عالی ، حضور پرنور کے گوش گزار کرنے کی جسارتِ شاگردانہ ادا کر رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹے سے حقِ حقہ نوشی فرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستارِ فضیلت پر براجمان ہو گیا۔ 

اگر اس فتنۂ کم ظرف کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ حضور والاکی جانِ عزیز کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔"اس قدر طویل انفارمیشن کی فراہمی کے بعد ۔۔۔ پھر کیا ہوا ۔۔۔۔؟ناناجان نے تو نتیجے کے متعلق کبھی کچھ عرض نہیں فرمایا تھا ، صرف مسکرا دیا کرتے تھے،مگر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فصیح و بلیغ ادبی زبان کے اس مظاہرے کے اختتام پر استادمحترم کی پگڑی اور سر کے بالوں کا کیا حشر نشر ہوا ہوگا !!

(انتخاب:محمد اسد خان)    

تازہ ترین