مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ آفرین ہے نوبل انعام دینے والوں پر کہ انہوں نے جن دو شخصیات کو نوبل انعام سےنوازا ان میں ایک ڈاکٹر عبدالسلام اور دوسری ملالہ یوسف زئی ہیں۔ ابھی میں اس سلسلے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسلام آباد سے پرانے دوست ڈاکٹر ظفر اعوان کا فون آیا۔ ملکی حالات پر بات ہوئی۔ ملک کی دولت کے لٹ جانے کا تذکرہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ لوگ تیس پینتیس سال کی زندگی کے لئے اپنی عاقبت خراب کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا صرف تیس پینتیس سال؟ بولے ’’ہاں پہلے پچیس برس تو تعلیم حاصل کرنے میں گزر جاتے ہیں۔ پاکستان میں جو اوسط عمر ہے اُس حساب سے اتنے ہی برس بنتے ہیں۔ آواز کٹ رہی تھی سو کٹ گئی۔ ہم ڈی جی خان کو عازمِ سفر تھے۔ شب کا طویل سفر چاندنی میں طے پا رہا تھا، لاہور سے شروع ہونے والا سفر ذرا دیر سے شروع ہوا چونکہ مجھے پی ٹی آئی کے اہم رہنما اعجاز چوہدری کے صاحبزادے کی شادی میں شریک ہونا تھا۔ ہم سفروں کے ساتھ یہی طے پایا تھا کہ شادی کی تقریب کے بعد نکلیں گے۔ مجھے مسافت میں منصور آفاق اور منڈی خیل کے ریحان افضل خان کی ہم رکابی حاصل تھی۔ ساہیوال سے ذرا آگے جنوبی پنجاب کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ بس یہیں سے بے بسی اور محرومی شروع ہو جاتی ہے۔ ڈی جی خان تک چاروں طرف یہی بے بسی اور محرومی پھیلی ہوئی تھی۔ ڈی جی خان میں پہلا دن عجیب تھا۔ سفر نصیبوں کی نہ تھکن اتری تھی نہ نیند پوری ہوئی تھی۔ ایک مشاعرہ میں شریک ہونا پڑا جس کا اہتمام ڈیرہ غازی خان کی ایک ادبی تنظیم دریچہ نے کیا تھا۔ یہاں اردو اور سرائیکی کے مقامی اور گرد و نواح کے شعرا کو سننے کا موقع ملا۔ نامور شاعر منصور آفاق کی شاعری کا تذکرہ پھر کبھی کروں گا یہاں جو لوگ ملے وہ بھی یاد رہ جانے والے تھے۔ شاہد ماکلی، شکیل پتافی، الفت ملغانی، شیراز اور ڈاکٹر مزمل حسین سے اچھے اشعار سننے کو ملے۔ شاعرات میں محترمہ سعیدہ افضل، ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، پروفیسر راشدہ قاضی، ایمان قیصرانی، نیئر رانی شفق اور شاہینہ نجیب کھوسہ شامل تھیں۔ مشاعرہ کے اختتام پر میں ڈی جی خان کے سینئر شاعر شریف اشرف سے کہہ رہا تھا کہ اس شہر میں اتنی بڑی تعداد میں شاعرات کا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہاں سے نکلے تو ایک اور تقریب ہماری منتظر تھی۔ یہ تقریب ’’ہمت‘‘ نامی تنظیم کی روح رواں ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ کی تقریبِ پذیرائی تھی۔ اس میں خواتین اور مرد بہت تعداد میں موجود تھے۔ سیاست دان، صحافی، دانشور اور سوشل ورکر سب شریک تھے۔ اس تقریب میں حنیف پتافی، ڈاکٹر چانڈیہ، ملک رمضان جٹ، محبوب جھنگوی اور پروفیسر سمیرا بانو سمیت کئی افراد نے ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ کے کارناموں کو سراہا۔ ڈاکٹر کھوسہ کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں وہ ایک ڈاکٹر کے روپ میں بطور مسیحا کام کر رہی ہیں۔ وہ صحافی اور دانشور کے روپ میں شعور بانٹ رہی ہیں۔ وہ ایک شاعرہ کی صورت میں جذبوں کو ابھار رہی ہیں۔ بطور سوشل ورکر لوگوں کو بتا رہی ہیں اگر انسانیت کے لئے ہمت سے کام کیا جائے تو اسی میں عظمت ہے۔
ایک سیاستدان کے روپ میں ڈاکٹر شاہینہ نجیب کھوسہ ڈی جی خان کی روایتی دھرتی کو بتا رہی ہیں کہ مشکل ترین حالات میں بھی عورت سیاست کے میدان میں کام کر سکتی ہے اور اگر عبادت سمجھ کر سیاست کی جائے تو اس کا نعم البدل ہی نہیں۔ انہوں نے سیاست کے لئے بھی تحریک انصاف کو چنا۔ وہ اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ کم از کم میرا لیڈر چور تو نہیں ہے۔ اس تقریب کے بعد ہم پنجاب کے سابق گورنر سردار ذوالفقار کھوسہ کے ہاں چلے گئے جہاں دیر تک سیاست پہ گفتگو ہوتی رہی۔ پہلے ان کا پوتا شریک محفل تھا پھر ان کے صاحبزادے سیف کھوسہ بھی تشریف لے آئے۔ اس گپ شپ کے بعد ہمارا دن ابھی ختم نہیں ہوا تھا کیونکہ ہمیں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے ہاں عشائیہ پر جانا تھا۔ پچھلی رات کا رتجگا اور دن بھر کی تھکن بخش مصروفیات آپس میں دو آتشہ ہو گئیں اور ابھی شب کی گفتگو باقی تھی۔ یہ تیرہ رجب کی رات تھی سو شب کی گفتگو باب العلم کے فضائل میں گزر گئی۔
ڈیرہ غازی خان میں دوسرا دن نسبتاً آسان تھا۔ تقریبات نہیں تھیں۔ بس میل جول تھا۔ کئی پرانے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم چمکتی دھوپ میں ڈیرہ غازی خان شہر میں ٹاہلی والا کے قبرستان گئے۔ جہاں ہمارا پیارا شاعر محسن نقوی مدفون ہے۔ محسن نقوی کی قبر ایک جھوپڑی میں ہے۔ اس کی قبر پہ کھڑے ہو کر یہی سوچتا رہا کہ آج تیرہ رجب ہے حضرت علیؓ کا یوم پیدائش ہے اور میں اُس شخص کی قبر پر کھڑا ہوں جو ساری زندگی ذکرِ علیؓ کرتا رہا۔ قبرستان سے واپسی پر پی ٹی آئی ڈیرہ غازی خان کے صدر ملک اقبال ثاقب کے دو صاحبزادوں سے لمبی نشست ہوئی۔ اس نشست میں ان کی محبت بولتی رہی۔ ہم مسکراتے رہے۔ ماحول سرمئی ہوا تو واپسی کا قصد کیا۔ ڈی جی خان سے نکلتے وقت کھجوروں کی اوٹ میں سورج شام کے آنگن میں اتر رہا تھا۔ جی دو چیزوں کو بہت مس کررہا تھا۔ ڈی جی خان شہر کی محبت اور محسن نقوی کے فرزند اسد نقوی سے ادھوری گفتگو۔
خواتین و حضرات ڈیرہ غازی خان بڑا پرانا شہر ہے۔ یہ شہر دریا کی لہروں کی نذر ہو گیا تھا۔ اسے انگریروں نے دوبارہ بسایا۔ شہر کی گلیاں دیکھ کر انگریزوں کی منصوبہ بندی کو داد دینا پڑتی ہے۔ راستے بولتے ہیں کہ ہمیں بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا ہے۔ ہمیں واپسی پر تونسہ جانا تھا مگر نہ جا سکے ورنہ ہماری ملاقات نوجوان سیاست دان خواجہ شیراز سے ہوتی، اقبال سوکڑی اور خالد سنجرانی سے ہوتی مگر وقت کے دامن میں اتنی فرصت کہاں کہ دوستوں سے کھل کر ملنے دے۔ وقت نے ملاقاتوں کو محدود بھی کر دیا ہے مختصر بھی۔ حالانکہ منصور آفاق کہتا ہے
رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم
وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں
جنوبی پنجاب میں بے پناہ محرومیاں ہیں۔ افلاس پھیلا ہوا ہے۔ دھرتی کی جھولی میں روزگار نہیں۔ پورا علاقہ بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ شہروں میں دھول اڑتی ہے کوئی ٹکڑا بادل کا نظر نہیں آتا۔ شہروں سے باہر آئیں تو ریت استقبال کرتی ہے۔ اس علاقہ کے کتنے لوگ اقتدار کی مسندوں پر رہے مگر کچھ نہ کر سکے۔ نجانے ان کے ہاتھوں کو بابوئوں نے کہاں کہاں باندھ رکھا تھا۔سو چ رہا ہوں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا۔ قسمت کی لکیروں نے تحت ِلاہور کی غلامی اور کتنے برس لکھی ہے۔ میانوالی کی سنگلاخ زمینوں سے شروع ہونے والا علاقہ جام پور کے ریت کے ٹیلوں تک، ترس رہا ہے کہیں پانی کو، کہیں تعلیم کو، کہیں اسپتالوں کو، کہیں سڑکوں، کہیں بجلی کو، کہیں روٹی کو۔ ان ساری محرومیوں پہ کسی دن پورا کالم لکھوں گا فی الحال محسن نقوی کے ایک شعر پر اکتفا کریں
وہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)