• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھگت کنور رام سندھی زبان کےبہت بڑے گلوکار اور شاعر تھے ۔ ان کی آواز میں ایسا سحر تھا کہ آج تک گلوکار ان کے انداز میں گانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ایک فرضی قصہ ( Myth ) مشہور ہےکہ وہ کسی گوٹھ سے گزرے تو انہیں ایک خاتون کے رونےکی آواز آئی ۔ بھگت کنور رام وہاں پہنچے تو ایک درد ناک منظر تھا ۔ خاتون اپنے معصوم بچے کی لاش پر سینہ کوبی کرتےہوئےدھاڑے مارکر رو رہی تھی ۔ ایک ماںکی یہ کیفیت دیکھ کربھگت کنوررام نےخاتون سے کہاکہ وہ ایک طرف خاموش ہوکربیٹھ جائے۔انہوںنے لاش کےقریب بیٹھ کر ’’لوری ‘‘گائی ۔ ان کی آواز میں ایسا سوز اور اثر تھاکہ مردہ بچہ اٹھ کربیٹھ گیا۔ اگرچہ یہ ایک فرضی قصہ یا اسطور ( Myth ) ہے ،جولوگوںنے بھگت کنوررام کےساتھ اپنی عقیدت کی وجہ سے گھڑ لیا ہوگا لیکن اس سے دو باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ایک تو یہ کہ بھگت کنور رام کی آواز بہت غیر معمولی تھی اور اس آواز نے انہیں لوگوں کی نظر میں بھگت بنادیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ درد ناک لمحہ وہ ہوتاہے،جب کوئی ماں اپنے بچے کی لاش پر بین کرتی ہے۔اس وقت بھی اس ماں کی یہی خواہش ہوتی ہےکہ کاش کوئی معجزہ ہو جائےاوراس کےبچےکودوبارہ زندگی مل جائے۔ عقائدکی بنیاد پرگھڑے گئے قصے یااسطور کے بارے میں ممتاز امریکی فلسفی اور دانشور ایلن واٹس ( Alan Watts ) کا کہنا یہ ہے کہ ’’ اسطور ( Myth ) ایک ایسا تصور ہے ، جس کے ذریعہ ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘‘ ۔ مذکورہ بالا اسطور سے ہم نے یہ سمجھا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کی موت کسی بھی صورت قبول نہیں ۔ اس قصے سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فن اپنے عروج پر معجز نما ہوتا ہے ۔ بچوں سے ہماری لازوال محبت کی یہ انتہا ہے کہ ہم نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ عظیم کے بعد دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا ۔ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔معصوم بچوں کے قتل عام کے درد ناک مناظر دیکھ کر ہر ماں کا کلیجہ پھٹ گیا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں دہشت گردی گذشتہ تین عشروں سے جاری تھی اور قبل ازیں بڑے بڑے سانحات بھی رونما ہوئے ، جن میں بیک وقت سیکڑوں لاشیں اٹھانا پڑیں لیکن 16 دسمبر 2014 کے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پوری قوم نے یہ واضح کر دیا کہ ہمیں اپنی موت تو قبول ہے لیکن اپنے بچوں کی موت قبول نہیں ۔ پہلے جو لوگ دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامی تھے ، انہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کی جائے ۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے دہشت گردوں سے ٹکرا جانے کا نعرہ لگایا ۔ لوگوں نے اپنے سیاسی نظریات بھی ایک طرف رکھ دیےاورکہاکہ اس دہشت گردی کےخاتمےکےلیے وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔ پاکستانی قوم نے یہ واضح پیغام دے دیا کہ وہ اپناسب کچھ قربان کردیں گے لیکن اپنے بچوں کی لاشیں نہیں اٹھائیں گے ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے جنوری 2015 میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور افواج نے 20 نکاتی ایکشن پلان وضع کیا تاکہ ان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی جاسکے ، جنہوں نے ہمارے بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ دو سالہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے ۔ ایک سال مکمل ہونے پر دہشت گردوں نے چار سدہ یونیورسٹی پر حملہ کیا اور پھر ہمیں اس صدمے سے دوچار کیا ، جو ہمیں برداشت نہیں ہے ۔ ہمارے بچوں کو ایک بار پھر بے دردی سے قتل کیا گیا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں میں تعلیمی اداروں خصوصاً اسکولز کو دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہے۔ ہماری ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ملک بھر کے ڈھائی تین لاکھ تعلیمی اداروں کو سیکورٹی فراہم کر سکے ۔ اگلے روز سندھ کابینہ کے اجلاس میں صوبے کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے حوالے سے تقریباً چار گھنٹے تک غور کیا جاتا رہا ۔ اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گرد حملوں کے خطرات کو رد نہیں کیا ۔ اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ کراچی کے 180 نجی اسکولز کو زیادہ خطرہ ہے ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں 8417 اسکولز کی چار دیواری کی جائے ، جس پر 7.6 ارب روپے کی لاگت آئے گی ۔ اجلاس میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ عالمی بینک سے یہ رقم حاصل کی جائے ۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد بھی لاچارگی کا احساس تھا کیونکہ تمام تعلیمی اداروں کو سیکورٹی مہیا کرنے کےلیے وسائل اور افرادی قوت نہیں ہے ۔ سندھ میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے۔اسی طرح پورے ملک کے تعلیمی اداروں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ کیا ہم اپنے سارے قومی وسائل بھی تعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر لگا دیں تو بھی ہم سب درسگاہوں کو محفوظ نہیں بنا سکتے ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان ایک ریاست بننے کے باوجود بھی ہمارے بچے غیر محفوظ ہیں یا کم از کم والدین عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے ایک سال بعد ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اجتماعی قومی دانش نے اس پلان کو وضع کیا ہے لیکن کارل مارکس کا کہنا یہ ہے کہ ’’ ہمارا شعور ہمارے وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس ہمارا سماجی وجود ہمارے شعور کا تعین کرتا ہے ۔ ‘‘ ہم نے جن بچوں کے تحفظ کےلیے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا ، اس کے ایک سال بعد ہمارے بچوں کےلیے پہلے سے زیادہ عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ اس وقت ہمارے سماجی انتشار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کہیں ہماری سوچ میں کوئی بڑا نقص ہے ۔کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے اور اس میں21 ویں نکتے کا اضافہ کیا جائے کہ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر ان لوگوں کی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی ، جنہوں نے اپنے بچوں کو تو پاکستان سے باہر بھیج دیا ہے اور انہیں ہمارے بچوں کی پروا نہیں ہے ۔ وہ آج بھی سیاسی اور جمہوری قوتوں کو اپنا بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور پاکستان کے لوگوں کو ’’ پاکستانی ‘‘ بنانے کےلیے اپنے پرانے ایجنڈے کے مطابق سندھ سمیت پورے ملک میں نئے مدارس قائم کرا رہے ہیں۔
تازہ ترین