اسلام آباد(طاہر خلیل) اسلام آباد میں فیصل مسجد کے دامن میں سیکٹر F-8/3کی سٹریٹ72 ان دنوں زبردست سیاسی گہما گہمی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس سٹریٹ کے ابتدائی حصے میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ ہے اور اسی سٹریٹ کے اگلے حصے میں زرداری ہائوس بھی ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی وجہ سے یہاں آئے روز غیر معمولی سیاسی سرگرمیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔چوہدری شجاعت اور پرویزالٰہی ان دنوںاپنی پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دے رہے ہیں اور مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کا مشن ان کا ترجیحی ایجنڈا ہے۔ ایک طاقتور سیاستدان کی حیثیت سے چوہدری شجاعت کے کئی فیصلوں نے قومی تاریخ کا دھارا بدل دیا، آئندہ چند روز میں ان کی خود نوشت ’’ سچ تویہ ہے‘‘ منظرعام پر آنے والی ہے جس کی ایک ایک کہانی اہل وطن کے دلوں پر نئے زمانے اور نئے صبح و شام کی جستجو کے ساتھ مختلف ادوار میں وطن عزیز میں ہونے والے اتھل پتھل اور ان کے درپردہ کرداروں کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کاوش ہے۔ملکی تاریخ کے سرد و گرم چشیدہ واقعات پر مشتمل بہت سی کہانیاں چوہدری شجاعت سے منسوب ہیں ، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، ڈاکٹر اے کیوخان، جسٹس افتخار چوہدری، سردار فاروق لغاری، مشاہد حسین سید اور بہت سے کردار خفیہ اجلاسوں کا معتبر ذریعہ بنے جن کے تذکرے چوہدری صاحب کی نئی خود نوشت میں موجود ہیں۔جو اسلامی جمہوری اتحاد سے جنرل پرویز مشرف کی حمایت تک کے سیاسی سفر کی لمحاتی داستانیں، آمریت کے دورانیے میں جمہوریت کی نشوونما اور معروضی حقائق کے سخت اذیت ناک منظر نامے پر محیط ہیں۔ دھرنے کے دنوں میں مفتی اعظم پاکستان کا تنبیہی خط بھی ان کی کتاب کا حصہ ہے کہ عمران خان کی حمایت کرکے غلطی کی، شجاعت حسین کا کہناتھا کہ 1997 میں اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف بہت تبدیل ہوچکے تھے۔ اور بھاری مینڈیٹ نے انکی شخصیت پر بہت زیادہ منفی اثر کیا اور شجاعت حسین نے نواز شریف کو خوشامد تکبر وغیرہ سے دور رہنے کا بھی مشورہ دیا۔شجاعت حسین نے بتایا کہ نومبر 1998میں نوازشریف کی سربراہی میں ایک میٹنگ میں شمولیت کے بعد پرویز الٰہی کو بتایا کہ نواز شریف کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلنے والی۔اس میٹنگ میں موجود تمام لوگوں سے جن میں انٹیلی جنس کے سربراہان بھی موجود تھے قرآن پر حلف لیاگیا کہ اس میٹنگ کے بارے وہ کسی کو نہیں بتائیں گے، اس میٹنگ میں بہت سے خوفناک قسم کے فیصلے کے گئے۔ ان فیصلوں کے فورا بعد پنجاب اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونا شروع ہوگئے یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ شجاعت حسین کاکہنا ہے کہ نواز شریف نے ساری دنیا کے سامنے کارگل کے واقعے کو لیکر کہا کہ انکی حکومت کو کارگل واقعے کا قطعی علم نہیں تھا، وہ غلط کہہ رہے تھے ان کو سب پتہ تھا۔ ایک دفعہ ایک بریگیڈئر کارگل پر بریفنگ دے رہے تھے۔ جو کہ نوازشریف کو بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جنرل پرویز اٹھے اور (Stick)چھڑی کی مدد سےکارگل آپریشن کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو میاں نوازشریف نے اونچی اوازمیں کہا جنرل صاحب آپ نے تو یہ باتیں مجھے کبھی بتائیں ہی نہیں۔ اس پر جنرل مشرف رک گئے اور جیب سے ایک ڈایری نکالی اور اس پر سے تمام میٹنگنز کی تاریخ بتانی شروع کیں جب جب نواز شریف کو کارگل بارے بریفنگ دی گئی تھی۔2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ(ق) کی سیاسی طاقت کا خاتمہ بھی منفرد واقعہ ہے جب 18 فروری کی شام 4 بجے ہی جنرل پرویز مشرف کی ٹیلیفون کال پر نتائج سنا دئیے گئے اور اسلام آباد کے بنگلے میں خوابیدہ شجاعت حسین کو بیدار کرکے جنرل صاحب کی فون کال سنوائی گئی کہ آپ کو صرف 40 سیٹیں ملیں گی نتائج قبول کریں حالانکہ پولنگ مکمل ہونے میں اس وقت ایک گھنٹہ باقی تھا۔