کبھی تو رنگ لائے گی زمانے میں وفا میری
کبھی تو سن ہی لے گا التجائوں کو خدا میری
کسی سے پیار کرنا پیار کا اظہار کردینا
خطا ہے تیری نظروں میں تو بے شک ہے خطا میری
دعائے خیر ہی مانگی ہے سب ہی کے واسطے میں نے
کبھی رد ہو نہیں سکتی بالآخر یہ دعا میری
کسی کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کرنا
اگر ہے جرم تو تغزیر کر دو تم سزا میری
جو آنا ہے تو آجائو گھڑی بھر کے لئے جاناں
کہیں تم سے نہ پہلے ہی چلی آئے فضا میری
کہ میرے شہر میں امن و اماں کے پھول کِھل جائیں
اگر کچھ ہے تو بس یہ ہے خدا سے التجا میری
کشش اس بات کا ادراک ہے معلوم ہے مجھ کو
بقا میں ہے فنا میری، فنا میں ہے بقا میری