25دسمبر 2004ء کی شب، جب لاہور کے سروسز اسپتال کے بالائی وارڈ میں احمد بشیر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، تو بہ قول نیلم احمد بشیر انہوں نے اپنی ساری اولاد کو اپنے سرہانے کھڑا دیکھ کر کہا کہ’’مَیں نے جائیداد نہیں بنائی۔ اس لیے تم سب یک جا ہو۔ اگر میری کچھ ملکیت ہوتی، تو تم اس کے بٹوارے کے جھگڑے میں پڑ کر یوں میرے پاس اکٹّھے اور متّحد نہ ہوتے۔‘‘
پھر کچھ ہی دیر بعد وہ اس دُنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی موت فَردِ واحد کی نہیں، بلکہ ایک دانش وَر، ادیب، صحافی، ہدایت کار، سوشلسٹ ، متحرّک سماجی کارکن، ناول و افسانہ نگار، چار بیٹیوں، ایک بیٹے کے باپ اور بیوی سے والہانہ پیار کرنے والے شوہر کی موت تھی۔ گر چہ احمد بشیر کی زندگی کی ہنگامہ خیزیاں 84سال کی عُمر میں اختتام پزیر ہو گئیں، لیکن اپنے باپ سے وَرثے میں جائیداد اور املاک کی بہ جائے ملنے والی تخلیقی و فن کارانہ صلاحیتوں کو ان کی بیٹیوں نے اپنی محنت اور خداداد استعداد سے کچھ اس طرح پروان چڑھایا کہ وہ شوبِز کی دُنیا میں ’’ٹاک آف دی ٹائون‘‘ بن گئیں۔
احمد بشیر کی اپنی زندگی بھی کچھ کم انقلاب آفریں نہ تھی۔ وہ 26دسمبر 1923ء کو ایمن آباد، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، شیخ غلام حسین نے ان کا نام، شیخ بشیر حسین رکھا، لیکن اوائلِ عُمری ہی میں انہوں نے شاعری شروع کی، تو اپنا نام پہلے بشیر رومانی اور پھر احمد بشیر رکھ لیا۔ بعد ازاں، وہ احمد بشیر کے نام ہی سے مشہور ہوئے۔
وہ کُل 5بہن بھائی تھے ۔ والدہ ایک سخت گیر خاتون تھیں۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائیر سیکنڈری اسکول احمد بشیر کی اوّلین درس گاہ تھی۔اُن کے والد کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا۔ چناں چہ جب ان کا ٹرانسفر بہ طور ہیڈ ماسٹر سری نگر ہوا، تووہ اپنی فیملی کے ساتھ کشمیر چلے گئے۔ احمد نے بی اے کا امتحان جمّوں یونی ورسٹی، سری نگر سے پاس کیا۔ کشمیر میں قیام کے دوران انہوں نے الٰہ آباد، پٹنہ، بنارس اور آسام کے علاقے بھی دیکھے۔
کالج کی لائبریری سے احمد بشیر نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں انجمنِ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریریں بھی شامل تھیں اور یہی وہ دَور تھا کہ جب سرکش طبیعت کے مالک ،احمد بشیر نے اپنی زندگی کی راہیں متعیّن کرنا شروع کیں۔ اسی دَور میں انہیں کسی وجہ سے کشمیر کو خیر باد کہنا پڑا اور وہ جہلم میں مقیم اپنے ماموں، شیخ اشفاق حسین کے پاس پہنچ گئے۔ پھر اپنے والد کے کہنے پر ملازمت کے لیے دہلی آئے، جہاں فوج کے پیرا ملٹری کے شعبے میں بہ طور افسرری کری ایشن تعیّنات ہوئے۔ یہ محکمہ گائوں کے جاگیرداروں، چوہدریوں اور پنڈتوں کی مدد سے کسان لڑکوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا اہتمام کرتا۔
بعد ازاں، جب ان کا تبادلہ راول پنڈی کر دیا گیا، تو وہاں 1944ء میں ان کی ملاقات ممتاز مفتی سے ہوئی۔ گرچہ احمد بشیر عُمر میں اُن سے چھوٹے تھے، لیکن دونوں میں ذہنی ہم آہنگی کچھ ایسی تھی کہ دوستی کا یہ تعلق تا حیات قائم رہا۔ پھر دونوں لاہور آ گئے۔ ممتاز مفتی کا ریڈیو اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا تھا اور اکثر احمد بشیر بھی اُن کے ساتھ ہوتے۔ یہاں انہیں اُس دَور کے نام وَر ادیبوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اسی دوران ممتاز مفتی کو ایک فلمی کہانی کے سلسلے میں بمبئی جانا پڑا، تو احمد بشیر بھی ان کے ساتھ چلے گئے کہ شاید فلم میں کام مل جائے کہ انہیں اداکاری کا بھی شوق تھا۔
یہ 1947ء کے اوائل کا زمانہ تھا اور تب ہندوستان کے بیش تر ادیب بمبئی میں کرشن چندر کے مکان میں قیام پذیر تھے۔ احمد بشیر کو یہاں ساحر لدھیانوی، منٹو، حمید اختر اور میراجی سمیت دوسرے ادیبوں سے ملنے کا موقع ملا اور یوں اُن کے اندر چُھپی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک ساز گار فضا میسّر آئی۔ اسی دوران ہندو، مسلم فسادات پُھوٹ پڑے اور ستمبر 1947ء میں احمد بشیر اور ممتاز مفتی لاہور واپس آ گئے اور یہاں انہوں نے ایک مکان الاٹ کروایا۔ احمد بشیر کی پہلی شادی 20سال کی عُمر میں ان سے کئی برس بڑی خاتون سے ہوئی ، جو کام یاب نہ ہوسکی ۔اُس کے بعد دوسری شادی دسمبر 1948ء میں محمودہ بیگم سے ہوئی۔
گرچہ احمد بشیر نے ایک طویل عرصہ صحافت میں گزارا، لیکن ان کی زندگی کی کئی جہتیں تھیں۔ جیسا کہ چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان، ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے محمد ظہیر بدر کی کتاب، ’’احمد بشیر، شخصیت اور فن‘‘ کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ ’’احمد بشیر کا شمار پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہ حیثیت ِناول نگار، خاکہ نگار، کالم نگار، افسانہ نگار، مکتوب نگار، صحافی اور فلم ساز، پاکستانی ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ نظریاتی طور پر وہ ترقّی پسند ادب سے جُڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ خستہ حال اور پِسے ہوئے طبقے کے مسائل اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ وہ ایک ایسے ادیب اور دانش وَر تھے، جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے امید اور روشن امکانات کے چراغ روشن رکھے۔‘‘
احمد بشیر نے جب خار زارِ صحافت میں قدم رکھا، تو ان کا پہلا پڑائو ’’اِمروز‘‘ تھا۔ یہاں اُن کی ملاقات مولانا چراغ حسن حسرت سے ہوئی اور انہیں احمد بشیر کی بے باکی، صاف گوئی اور ہم دردی بہت پسند آئی۔ چراغ حسن حسرت جب کراچی آئے، تو احمد بشیر کو بھی ساتھ لیتے آئے، جہاں دونوں نے ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن جب احمد بشیر یہاں سے فارغ ہوئے، تو مشکلات کا ایک پہاڑ اُن کے سامنے تھا۔ انہوں نے ایک موٹر کمپنی میں ملازمت کر لی، جہاں انہیں ٹرک سے مال اُتار کر گدھا گاڑی پر لاد کر ریلوے اسٹیشن پہنچانا ہوتا۔
یوں وہ کئی مہینوں تک کراچی کی سڑکوں پر گدھا گاڑی بھی چلاتے رہے۔ پھر قسمت نے یاوری کی اور پہلے انہیں سندھ حکومت کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں عارضی اور پھر پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں کام یاب ہونے کے بعد انفارمیشن آفیسر کی مستقل ملازمت مل گئی۔ پھر جب مرکزی حکومت نے’’ ویلیج ایڈ‘‘ کا محکمہ قائم کیا، تو ابو الاثر حفیظ جالندھری نے، جو اس محکمے کے ڈائریکٹر تھے، انہیں ڈیپوٹیشن پر صوبائی حکومت میں طلب کر لیا اور انہوں نے ممتاز مفتی کو بھی کراچی بُلا لیا، جہاں انہیں اسی محکمے میں اسکرپٹ رائٹر کی ملازمت مل گئی، جب کہ ابنِ انشا بھی اسی محکمے میں تھے اور یوں اُردو ادب کے چار بڑے نام یک جا ہو گئے۔
بعدازاں، احمد بشیر اسی محکمے کے توسّط سے ’’امریکن ایڈ پروگرام‘‘ کے تحت امریکا چلے گئے، جہاں انہوں نے فلم میکنگ کی تربیت حاصل کی اور وہ امریکا میں اس شعبے میں تربیت حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی تھے، لیکن ایک سال بعد پاکستان واپسی پر جب انہوں نے اپنی تعلیم کو اپنی فلم، ’’نیلا پربت‘‘ میں ڈھالا، تو اس کی ناکامی کی صُورت میں خاصے دِل برداشتہ ہوئے۔
1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران احمد بشیر کراچی سے لاہور آ گئے، جہاں انہیں کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان نامساعد حالات کا خاتمہ 1969ء میں اُس وقت ہوا کہ جب انہوں نے اِمروز میں ’’شہر سرائے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ بعد ازاں، جب حنیف رامے نے ’’مساوات‘‘ کا اجرا کیا، تو وہ ایڈیٹر انچارج کے طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ احمد بشیر ’’پنجاب یونین آف جرنلٹس‘‘ کے بانی رُکن بھی رہے۔ اسی دوران انہوں نے قائدِ اعظم کے 100ویں یومِ پیدائش پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی، جو ان کی فن کارانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ احمد بشیر کو فنِ موسیقی اور علم جفر سے بھی کافی لگائو تھا۔ ایک بار جب وہ عالمی پنجاب کانفرنس کے سلسلے میں دِلی گئے، تو علم جفر کی نایاب کُتب فوٹو اسٹیٹ کروا کے پاکستان لے آئے۔ احمد بشیر کی لائبریری میں موجود کُتب کا ذخیرہ ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی، نیلم نے پنجابی انسٹی ٹیوٹ، پیلاک کو عطیہ کر دیا۔ اس کے علاوہ احمد بشیر کو ہومیو پیتھک اور بائیو کیمک ادویہ سے بھی کافی دِل چسپی تھی۔
گرچہ احمد بشیر نے روزنامہ ’’مساوات‘‘ اور ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘ سمیت دیگر اخبارات و جراید میں اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ بہ طور صحافی گزارا، لیکن ان کے اندر چُھپا ادیب اور تخلیق کار کبھی نہ مَر سکا۔ ان کی ادبی تخلیقات میں ’’جو مِلے تھے راستے میں‘‘ (خاکے، مرتّب، یونس جاوید)، ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ (مضامین کا مجموعہ)، ’’ڈانسنگ وِدوُلوز‘‘(انگریزی کالمز کا مجموعہ)، ’’دِل بھٹکے گا ‘‘(ناول)، ’’خطوں میں خوش بُو‘‘ (مکاتیب، مرتّب، نیلم احمد بشیر)، ’’خون کی لکیر‘‘ اور ’’دل بھٹکے گا‘‘ (ناول) شامل ہیں۔ مٔوخر الذّکر ناول 890صفحات پر مشتمل ہے، جس میں انہوں نے تحریکِ پاکستان کے طویل منظر نامے کی تصویر کشی کی ہے۔ احمد بشیر کے ’’اِمروز‘‘ کے پہلے دَور کے کالمز اور فیچرز دیال سنگھ لائبریری میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مارشل لا کے خلاف اُٹھنے والی آواز کی حمایت کی اور جو سچ سمجھا، اسے لکھنے سے باز نہ آئے۔ یہ احمد بشیر کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’یہ فقیر ضیاء الحق کے 11سالہ دَور میں 11نوکریوں اور انگریزی کے 4اخبارات سے نکالا گیا۔‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مَیں جب قلم ہاتھ میں لے کر لکھنا شروع کرتا ہوں، تو اس وقت خود کو محاذِ جنگ پر محسوس کرتا ہوں۔‘‘ نیز، وہ اکثر یہ کہتے تھے کہ ’’ اس مُلک کو مَیں نے یا میرے استاد، مولانا چراغ حسن حسرت نے نہیں بگاڑا، بلکہ اقتصادی ناہم واری نے بگاڑا ہے۔‘‘
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چُکا کہ احمد بشیر نے دُنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ کہا تھا کہ وہ کوئی املاک نہیں چھوڑے جا رہے اور ان کا کُل سرمایہ ان کی4بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جن میں نیلم احمد بشیر، سُنبل شاہد، بُشریٰ انصاری، قُلزم (اسماء) اور ہمایوں شیخ، جو امریکا میں مقیم ہیں، شامل ہیں۔ بعد ازاں، احمد بشیر کا یہ سرمایۂ حیات، املاک سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ثابت ہوا اور آج شوبِز کی ترقّی میں احمد بشیر کی صاحب زادیوں کا حصّہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
عرفان جاوید اپنی کتاب، ’’دروازے‘‘ میں احمد بشیر کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ’’ذہین اور نکتہ رَس، احمد بشیر بعد میں شادی کرتا ہے اور چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ بنتا ہے۔ اپنی بیوی سے مثالی محبّت کرتا ہے اور بیٹیوں کو بیٹوں کی طرح پالتا ہے۔ ایک کو شہزادی کہتا ہے، تو دوسری کو رانی۔ بیٹیوں کو دیکھ کر آنکھ میں نرمی ہی نرمی اور پیار ہی پیار ہوتا ہے۔‘‘ نیلم بشیر کہتی ہیں کہ ’’ابّا جب کبھی خوش ہو کر گھر آتے، تو ان کے ہاتھ میں پَھل اور مٹھائیاں ہوتیں اور اس کے دو ہی سبب ہوتے۔ نوکری ختم ہونے کی خوشی یا نوکری ملنے کی خوشی۔‘‘
احمد بشیر کے مارشل لا، نظامِ حکومت اور معاشرتی اونچ نیچ پر تیکھے اور تیز و تُند حملے ہمیشہ ان کے لیے باعثِ آزار ثابت ہوئے، لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اپنے منہ بولے بیٹے، مجید امجد کے نام ایک خط میں ان کا مٔو قف اور اپنے اہلِ خانہ سے پیار واضح طور پر جھلکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میرے نظریات ہی میری طاقت ہیں اور میری کم زوری بھی۔ مَیں زندگی میں کبھی پشیمان نہیں ہوا۔ میرے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا اور میرے ساتھ روکھی سوکھی کھائی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ میری چار بیٹیاں تھیں۔
ان سب کو مَیں نے بیاہ دیا۔ ایک بیٹا امریکا میں پڑھتا ہے اور مجھ پر اس کی ذمّے داری بھی نہیں۔ تمہارے سامنے جو چھوٹی سی گوپی ہوتی تھی، اب بُشریٰ انصاری بن گئی ہے اور مُلک میں اس کی بڑی دُھوم اور عزّت ہے۔ وہ بڑی عُمدہ آرٹسٹ ہے۔ بڑی بیٹی، نیلم امریکا سے آئی ہوئی ہے۔ اس کا میاں ڈاکٹر ہے۔ پپّو لاہور میں شاد باد ہے اور سب سے چھوٹی، قُلزم بھی کراچی ٹی وی میں آرٹسٹ ہے۔ اس نے ابھی کام شروع کیا ہے۔
ہمارے پاس کوئی گھر یا جائیداد نہیں ہے، مگر ہم خوش ہیں۔ روٹی فی الحال آرہی ہے اور اس سے زیادہ کی اب مُجھے ضرورت بھی نہیں۔ مُلک کا حال بہت خراب ہے‘‘۔ وہ اپنی بیٹیوں (نیلم، پّپو، گوپی اور مانو) سے کتنا پیار کرتے تھے، اس کا اندازہ ان خطوط سے بھی ہوتا ہے، جو وہ امریکا میں رہ کر اپنی بیوی اور دوستوں کو لکھتے رہے۔
احمد بشیر کی سب سے بڑی صاحب زادی، نیلم احمد بشیر اپنے والد کے ادبی وَرثے کی جانشین ثابت ہوئیں۔ نیلم پنجابی اور اُردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے، ’’جگنوئوں کے قافلے‘‘، ’’ستم گر ستمبر‘‘، ’’ایک تھی ملکہ‘‘، ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اور ’’وحشت ہی سہی‘‘ شایع ہو چُکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا خاکوں کا ایک مجموعہ، ’’چار چاند‘‘ بھی شایع ہو چُکا ہے، جب کہ حال ہی میں ان کا پہلا ناول، ’’طائوس فقط رنگ‘‘ ،جو کہ نائن الیون کے پس منظر میں لکھا گیا ہے، منظرِ عام پر آیا ہے۔ نیلم 1972ء میں امریکا چلی گئی تھیں، جہاں اُن کی شادی ڈاکٹر سراج سے ہوئی اور یوں اب بھی ان کا امریکا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
ان کی دو بیٹیاں، سمیرا اور عنبر اور ایک بیٹا، کاشف ہے۔ دونوں بیٹیاں شادی شُدہ اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سمیرا کے شوہر، فرقان مجید پی ٹی وی میں پروڈیوسر تھے، جب کہ عنبر کے رفیقِ حیات انجینئر ہیں۔ دونوں کے دو، دو بچّے ہیں۔ نیلم بشیر کے شوہر، ڈاکٹر سراج اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا بیٹا بزنس مین ہے۔ نیلم کہتی ہیں کہ ’’مُجھے لکھنے کا شوق ابّا کی طرف سے وَرثے میں ملا ۔ ممتاز مفتی میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
وہ مجھ سے کہتے تھے کہ’’ نیلم کہانیاں لکھ، پکوڑے تل کہ قاری سی سی کر اُ ٹھے۔‘‘ نیلم نے اپنا پہلا افسانہ 15سال کی عُمر میں لکھا ، جسے پڑھ کر ممتاز مفتی نے اُنہیں خُوب داد دی۔ نیلم کہتی ہیں کہ ’’ابّا ہماری زندگیوں کا مرکز اور ہماری فیملی کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ہم سب میں اگر ٹیلنٹ کی کوئی پُر جمال پچکاری بھی نظر آتی ہے، تو وہ انہی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے فنونِ لطیفہ کی قدر کی اور ہمیں زندگی میں اسے برتنے کا ذوق بخشا، جو زندگی کو خُوب صُورت بنانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔
اپنی بہن، پروین عاطف(بیگم بریگیڈیئر عاطف) کی تحریروں کو سراہنا اور بیٹیوں کو محاذِ زندگی پر بہادری سے ڈٹے رہنے کی تربیت دینا، اُنہی کا کام تھا۔ ہم اپنے اپنے دُکھوں کی پوٹلیاں اُٹھاتیں اور ان کے پیروں میں جا پھینکتیں۔ ہم اُن کے گھٹنے سے لگ کر آنسو بہاتیں کہ وہ دُکھ آشنا تھے، حُکم دینے والے باپ نہیں ۔‘‘
احمد بشیر کی دوسری صاحب زادی، سُنبل شاہد گلوکارہ اور اداکارہ ہیں۔ کئی پروگرامز کی میزبانی بھی کر چُکی ہیں۔ سُنبل گھر داری سے فارغ ہونے کے بعد شوبِز میں آئیں اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ان کے تین بچّے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹا۔ بیٹی، صدف معلّمہ ہیں، جب کہ ایک بیٹا، شیراز بزنس مین اور دوسرا، احمد ناصر پولینڈ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔ سُنبل نے ’’تاکے کی آئے گی بارات‘‘ میں یادگار سپورٹنگ کیریکٹر ادا کیا۔
اس کے علاوہ وہ’’گولڈن گرلز‘‘ نامی معروف ٹی وی شو کی میزبانی بھی کرتی رہیں۔ سُنبل کہتی ہیں کہ ’’ابّا نے گھر سے باہر کبھی کسی سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا، لیکن اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہر بات میں سمجھوتا کیا۔ وہ ہمیشہ ہمارے پیار میں’’ بھیگی بلی‘‘ بنے رہے۔ ہم مَیں سے اگر کوئی ایک بہن بھی دو، چار دِن اُنہیں ملنے نہ جا پاتی، تو وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس کے بارے میں پوچھتے پھرتے اور ملنے پر پیار بَھری آواز میں پوچھتے کہ ’’یار! تُو کتھے چلی گئی سی۔‘‘
تیسری صاحب زادی، بُشریٰ انصاری ٹی وی کی سُپر اسٹار ہیں اور اپنی لاجواب اداکاری کی بہ دولت گزشتہ نصف صدی سے ٹی وی ناظرین کی فیملیز کا حصّہ ہیں۔ انہوں نے اداکاری کے علاوہ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔ ان کے شوہر، اقبال انصاری پی ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ بشریٰ انصاری کی دو بیٹیاں، نریمان اور میرا انصاری ہیں۔ بڑی بیٹی، نریمان کینیڈا میں مقیم ہیں، جب کہ چھوٹی ماڈل ہیں۔ نریمان کئی ڈراموں کی ڈائریکشن بھی دے چُکی ہیں ۔
بشریٰ انصاری کی تحریر کردہ ٹیلی فلم، ’’نیلی دھوپ‘‘ کی ڈائریکٹر بھی وہی تھیں۔ بشریٰ انصاری نے 1960ء کے عشرے کے آغاز میں 10سال کی عُمر میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے اداکاری کا آغاز کیا اور اپنی ذہانت اور اَن تھک محنت کی بہ دولت آگے چل کر ٹی وی کی پہچان بن گئیں۔ 1978ءمیں’’رشتے اور راستے‘‘ میں کام کیا، تو والد کا خوف دامن گیر تھا، لیکن پھر اُن کی فن کارانہ صلاحیتوں کو سبھی نے تسلیم کر لیا۔
بعد ازاں، 1986ء میں پی ٹی وی کی ایک ٹیلی فلم، ’’رات گئے‘‘ میں بہترین اداکاری کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ حاصل کیا اور اس کے بعد پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا، جب کہ انور مقصود اور معین اختر کے ’’شو ٹائم‘‘ نے انہیں شُہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ بُشریٰ انصاری نے ’’نیلی دھوپ‘‘، ’’میرے درد کو جو زباں ملے‘‘ اور ’’پاکیزہ‘‘ سمیت متعدد ٹی وی ڈرامے تحریر کیے۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمینس کے علاوہ بےشمار ایوارڈز بھی مل چُکے ہیں۔
اداکارہ، اسماء عباس(قُلزم)، احمد بشیر کی سب سے چھوٹی صاحب زادی ہیں۔ ان کے تین بچّے وقاص، احمد عبّاس اور زارا عبّاس ہیں اور تینوں ہی شو بِز سے وابستہ ہیں۔ احمد عبّاس گلوکار ہیں، جب کہ زارا عبّاس اداکارہ ہیں اور حال ہی میں اُن کی شادی اداکار، عدنان صدیقی کے بھانجے، اسد صدیقی سے ہوئی ہے۔
اسماء نے 1984ء میں ملکہ پکھراج کے بہروپ میں گانا ’’ہائے میری انگوٹھیاں‘‘ گایا ، جس میں بشریٰ انصاری نے طاہرہ سیّد کا رُوپ دھارا تھا۔ گر چہ یہ پیروڈی خاصی مقبول ہوئی، لیکن اس کے بعد وہ طویل عرصے تک ٹی وی سے کنارہ کش رہیں۔ اس کے بعد ایک بار پھرٹی وی انڈسٹری میں واپسی ہوئی اور ایسی دھواں دھار کہ ان دنوں وہ ہر دوسرے ڈرامے میں کوئی نہ کوئی عُمدہ کردارنبھاتی نظر آتی ہیں۔
احمد بشیر کی85سالہ بیوہ، محمودہ بیگم، جنہوں نے آج سے چند برس قبل ’’مَیں اور احمد بشیر‘‘ نامی کتاب لکھی، گلبرگ میں اسماء عبّاس کے گھر میں رہتی ہیں اور چاروں بیٹیوں کے لیے ایک محور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ گھر اب بچّوں کی چہل پہل سے بھر ا پُرا، پُر رونق نظر آتا ہے۔ محمودہ بیگم بیتے دِنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’’یوں تو ہر باپ اپنی اولاد کو چاہتا ہے، لیکن چار بیٹیوں اور ایک بیٹے میں تو گویا اُن کی جان تھی۔ جب وہ امریکا گئے، تو اُن کے ایک خط کے الفاظ مُجھے آج تک نہیں بُھولے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ’’جو جو کچھ تم کہو گے، مَیں لے آئوں گا۔ رِبن، فراکس، کھلونے، مٹھائی، کتابیں… یعنی جو کچھ تم کہو۔ ابّا کی جان تمہارے لیے ہے۔ ابّا تو تمہارے حُکم کا منتظر ہے۔ تمہارا نوکر ہے اور تم مالک ہو۔ میری ساری جان تمہاری ہے۔ اگر تھوڑی سی بچ گئی، تو تمہاری امّی کی ہے۔ ابّا کا اپنا کچھ بھی نہیں، میری پیاری چڑیو! تم کیا جانو، تم مُجھے کتنی پیاری ہو۔ میرا سارا خزانہ تم ہی تو ہو۔‘‘
احمد بشیر نے پیشہ ورانہ صحرا نوردی کے دوران انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے گھر گلشن کی پیار و محبّت سے آب یاری کی اور یہ نرسری اب دُور دُور تک پھیلی شاخوں والا ایک تن آور شجر بن چُکی ہے۔ محمودہ احمد بشیر کہتی ہیں کہ’’ آج اگر احمد بشیر زندہ ہوتے، تو دیکھتے کہ ان کا ’’نیلم، پپّو، گوپی، مانواور ہومی‘‘ پر مشتمل خاندان کس طرح پورے مُلک کے ٹی وی ناظرین کی فیملیز کا حصّہ بن گیا ہے، جو ان کے ڈرائنگ رومز میں تو برا جمان ہوتا ہی ہے، لیکن ٹی وی لائونج میں بھی ان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔‘‘