• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب کی نئی پالیسیاں…

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان عالمی سطح پر ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آرہے ہیں جو صاحب دانش و بصیرت ہیں، غلطیوں کے اعتراف کی ہمت اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے اصلاح کا عزم رکھتے ہیں۔ ایک ایسے قدامت پسند معاشرے میں جہاں بعض غیر ملکی طاقتوں کی شہہ پر کئی دہائیوں تک انتہا پسندی پھیلائی گئی ہو، غلطیوں کا اعتراف اور اصلاح کی کوشش کوئی آسان کام نہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرعوب اور پسماندہ قوموں کے زمانہ حال کی ایک بڑی وجہ اور آنے والے دور میں اس کی ترقی یا تنزلی کے امکانات کو سمجھنا ایک سادہ لیکن وسیع المعانی شعر میں بہت خوبی سے بیان کر دیا ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
طرزِ کہن سے ہٹنے کی تلقین کا مطلب یہ نہیں کہ قومیں اپنی زبان یا اپنی ثقافتی خصوصیات ترک کردیں ۔ آئین نو اختیار کرنیکا مطلب یہ ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھنے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنے میں محدود سوچ اور جامد فکر کو رکاوٹ نہ بنایا جائے۔ اس دنیا میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع قدرت ہر شخص اور ہر قوم کو عطا کرتی ہے۔ مقاصد کے حصول، معاشی ترقی اور دنیا میں ممتاز و معتبر مقام پانے کیلئے ایک دو نہیں بیسیوں امکانات سامنے آتے ہیں۔ صحیح وقت پر صحیح سمت میں اٹھایا جانے والا قدم منزل تک رسائی آسان بنا دیتا ہے۔ سفر کے دوران کئی مشکلات بھی آسکتی ہیں۔ سخت مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جان، مال معیشت کے نقصانات بھی جھیلنا پڑ سکتے ہیں لیکن زندہ اور پرعزم قومیں ان سب حالات کو رکاوٹ نہیں بلکہ آزمائش سمجھتی ہیں۔ جو قومیں مختلف آزمائشوں میں صبر کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا سیکھ لیتی ہیں، وہ مایوسی سے محفوظ رہتی ہیں۔ قوموں کے مورال کی بلندی کیلئے ان تھک محنت کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں ایک محبِ وطن، دوراندیش، باصلاحیت اور کمٹیڈ لیڈرشپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ میں انٹر ویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سرد جنگ کے دوران سعودی عرب کے فوجی اتحادیوں نے درخواست کی تھی کہ سوویت حکومت کی مسلم ممالک تک رسائی روکنے کیلئے مختلف ممالک میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے بہت صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی سعودی حکومتیں اس کوشش کے حصول کیلئے راستہ بھٹک گئی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں واپس صحیح راستے پر آنا ہے۔ چند دہائی پہلے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی اسٹریٹجی کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک بڑی حقیقت بیان کی ہے۔ اس حقیقت کا اظہار کوئی آسان کام نہیں۔ کسی حکمراں کی جانب سے حقائق کو سامنے لاتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کی نشان دہی اور مستقبل میں اصلاح کیلئے بہت زیادہ جرات ، اعلیٰ درجے کی بصیرت، تاریخ سے رہنمائی لیتے ہوئے مستقبل کیلئے لائحہ عمل کی تیاری کیلئے اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اوصاف کے ساتھ ساتھ اصلاح اور ترقی کیلئے طرز کہن سے ہٹنے اور آئین نو اختیار کرنے کیلئے ایک حکمراں کی سب سے بڑی طاقت عوام کا اس پر یقین اور اعتماد ہے۔ حقائق کا اعتراف اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان کے لہجے کی مضبوطی اور اعتماد سے بخوبی واضح ہو رہا ہے کہ انہیں سعودی عوام کی صرف حمایت ہی نہیں بلکہ محبت بھی مل رہی ہے۔ 60ء کے بعد سعودی معیشت کا انحصار تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی پر رہا ہے گو کہ سعودی عرب میں کئی دہائیوں سے تیل پر انحصار کم کرنے اور صنعت و زراعت کو ترقی دینے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس سمت پر زیادہ سنجیدگی سے تیز رفتار اقدامات شاہ سلمان کی حکومت میں اور شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے کے بعد ہی کئے گئے ہیں۔ کئی مبصرین کو یقین ہے کہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کے تحت کئے جانے والے اقدامات سے سعودی معیشت نہ صرف تیل پر انحصار کم کرکے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے گی بلکہ تعلیم کے فروغ، خواتین کو سماجی و معاشی معاملات میں شرکت کے زیادہ مواقع فراہم کرنے، مختلف مکاتب فکر اور دیگر ثقافتوں کیلئے برداشت اور رواداری کو فروغ دے کر سعودی عرب اس پورے خطے میں امن کے فروغ میں سب سے اہم کردار ادا کرے گا۔دنیا بھر میں علم کے فروغ کے خواہش مند طبقوں، بین المذاہب ہم آہنگی اور دیگر ثقافتوں کو اہمیت اور احترام دینے کیلئے کوشاں افراد اور اداروں کو سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ مثبت پیش رفت پر حمایت و تعاون کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ توقع ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آتی جائے گی۔ سرد جنگ کے دوران مغربی ممالک کی حکمت عملی کے منفی اثرات کو زائل کرنے کیلئے مسلم ممالک کی حکومتوں اور عوام کو مل کر کوشش کرنا ہوں گی۔ پاکستان اور سعودی عرب دیرینہ دوست ہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ انتہاپسندی اور شدت پسندی ہمارا بہت بڑا مسئلہ رہا ہے ۔ اپنے اپنے ممالک میں رواداری ، برداشت اور مختلف نقطہ ہائے نظر کے احترام کو فروغ دینے میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کی بہت مدد کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اقتصادی تعاون کو زیادہ اہمیت دینا دونوں ممالک کیلئے مشترکہ فائدے کا سبب ہوگا۔
پاکستان ایئر فورس کے نئے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان
پاکستان کے دفاع کیلئے پاکستان کی آرمی، نیوی اور ایئر فورس ہر وقت مستعد اور ہر قسم کی قربانیوں کیلئے تیار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان آرمی کے ساتھ پاکستان ایئر فورس نےگزشتہ تین سال میںایئر چیف مارشل سہیل امان کی قیادت میں قوم کی حفاظت کا فریضہ بہت اچھی طرح سرانجام دیا ہے۔ پاکستان ایئر فورس کی کمان اب ایک اور بہترین آفیسر ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان (ہلال امتیاز (m)، ستارۂ امتیاز (m) اور تمغہ امتیاز (m) ) کے پاس ہے۔ ایئر مارشل مجاہد انور خان اعزازی شمشیر کے علاوہ بیسٹ پائلٹ ٹرافی ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی گولڈ میڈل بھی حاصل کرچکے ہیں۔
اپنی ایئر فورس سے پاکستانی قوم کا تعلق محبت اور بھرپور اعتماد کا ہے۔ قوم کو یقین ہے کہ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان کی بہترین پیشہ ورانہ اور انتہائی پرعزم قیادت میں پاکستان ایئر فورس معیار، مہارت اور کامیابیوں کے نئے ابواب رقم کرے گی۔
کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور ٹریفک جام
9 برس بعد کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا اولین کریڈٹ پاکستان کی مسلح افواج، سندھ رینجرز، سندھ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو جاتا ہے۔ پی ایس ایل 2018ء کا فائنل کراچی میں منعقد کرنے پر پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی، پی ایس ایل فائنل بعد ازاں ویسٹ اینڈیز کی ٹیم کے دورۂ کراچی کیلئے بہت اچھے انتظامات پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور انکی پوری ٹیم لائق تحسین ہے۔ ان میچوں کے انعقاد سے کراچی کے شہری بہت خوش ہوئے ہیں لیکن انہیں جگہ جگہ شدید ٹریفک جام کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ توقع ہے کہ آئندہ کراچی میں ہونیوالے ایسے مقابلوں کے انتظامات اس طرح کئے جائینگے کہ شہریوں کو آمدورفت میں کسی تکلیف یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین