افہام وتفہیم کے ’’آئن اسٹائن‘‘آصف علی زرداری جو سیاست میں Flying kissesکے بانی سمجھے جاتے ہیں ۔انہوں نے میاں نوازشریف برینڈ جمہوریت کی بقا کے لئے ساڑھے تین سال تک فرینڈلی اپوزیشن کا مظاہرہ کئے رکھا۔2008کے انتخابات کے بعدزرداری اور میاں نوازشریف نے جمہوریت کی سلامتی کے لئے وہی کردار نبھایا تھا جو بھارتی فلم ’’شعلے ‘‘ میں ٹھاکرکی مدد کرتے ہوئے جے اورویرو (امیتابھ اور دھرمیندر) کی جوڑی نے پرفارم کیاتھا۔ مہکتے میٹھے زمانوں کی بات ہے زرداری صاحب نے کہہ دیا کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘ پھرکیاتھا ؟زرداری صاحب کو ملک چھوڑ کرجانا پڑا اور اُدھر دوستی کے چراغوں میں روشنی نہ رہی ، میاں صاحب نے اپنے جگری دوست کا فون سننا بند کردیا۔اس سے پہلے میموگیٹ اسکینڈل کے معاملے پر بھی میاں صاحب کالاکوٹ پہن کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف عدالت میں چلے گئے تھے۔آصف زرداری نے اپنی ٹرم پوری کرنے کے لئے ان گنت سمجھوتے کئے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ،اپنی شریک حیات اور عوام کی شہید قائد کے قتل کا مدعی بننے کی بجائے مناسب سمجھا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ کتابی طور پر یہ نعرہ کس قدر دلکش ہے اگرتجزیہ کیاجائے کہ عوام کی مقبول لیڈر کی شہادت اور قربانی سے جمہور کی تقدیر سنور گئی تو جواب مایوسی کے سوا کچھ نہیں !! جنرل مشرف کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان منتخب ہوئے ۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں عوام کو لوڈشیدنگ کے علاوہ یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے وزرائےاعظم نصیب ہوئے ۔ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قراردینے والی سیاسی جماعت کو اقتداراس کی قائد کی شہادت کے باعث نصیب ہواتھالیکن افسوس وہ اپنے دور حکومت میں جمہور کے لئے کوئی انقلابی کام نہ کرسکے ۔ بھٹو ہویا بے نظیر بھٹو کے خون کا چڑھاوا یہ اس نظام کا بانجھ پن ہے کہ جمہورکا مقدر سنورتانہیںہے۔ 2008کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت تو کرلی لیکن ان گنت عوامی مسائل کے حل میں ناکامی ،محلاتی سازشوں اور میڈیا میں ان کی طوفانی تشہیر کے باعث پارٹی کی ساکھ کا درجہ حرارت خصوصاًپنجاب میں سیاچن سے بھی نیچے گرگیا۔
بھٹو صاحب کی برسی کے موقع پرآصف زرداری نے اپنے سابق جگری دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’میاں صاحب سے صلح نہیں ہوگی‘‘انہوں نے مزید کہاکہ یہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ہماری پیٹھ پر چھرا گھونپتے رہے ہیں،اب آپ سے سیاست بھی چھڑوادیں گے اور آپ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے بھی محروم کردیں گے۔ہوائی بھوسوں کی سیاست کے بانی ایک عرصہ سے جو کہتے ہیں وہ کردکھاتے ہیں۔ آصف زرداری کے اس بیان کو سلطان راہی کے اداکئے ایک کردار مولاجٹ کے مشہور تکیہ کلام’’کھڑا ک‘‘ سے منسوب کیاگیاہے۔مولاجٹ جب کبھی کسی کو پھینٹی لگاتا یا اپنے بہادر دشمن کو داد عیش دیتا تو وہ کہتا’’اوئے کھڑاک کیتاای‘‘ (ارے کھڑاک کیاہے)ہدایتکار حسن عسکری نے مولاجٹ کا کردار احمدندیم قاسمی کے افسانہ ’’گنڈاسہ ‘‘ سے اخذکیاتھا جسے فلم کے لئے ناصر ادیب نے لکھاتھا۔ ناصر ادیب کے وحشی جٹ اور مولاجٹ کے لئے لکھے ڈائیلاگ اتنے ہی مشہور ہوئے تھے جیسے بھارتی فلم (شعلے) کے ولن گبر سنگھ (امجد خان) کے ڈائیلاگ زبان زدعام ہوئے تھے۔آصف زرداری نے جب ’اینٹ سے اینٹ بجانے ‘ کی بڑھک لگائی تھی تو میاں صاحب نے ان کا فون سننابند کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کویہ تاثر دیاجاسکے کہ’اینٹ سے اینٹ بجانے کی گستاخی ‘ کا پروجیکٹ زرداری کا اپنا ہے اور اس میں نون لیگ شامل نہیں۔ بعدازاں حالات بدلے تو آصف زرداری نے میاں صاحب کی ٹیلی فون کال کو Unwantedسمجھ لیا ۔ یہ سب اس وقت ہوا جب مسٹر کھپے نے اپنا پروڈکشن ہائوس بدلا تو کہانی بھی بدل گئی ، یہی نہیںاسکرین پلے ،کریکٹر اور ڈائیلاگ بھی بدل گئے۔ ’اینٹ سے اینٹ بجانے کی بجائے اینٹ سے اینٹ جوڑنے لگے ‘ تو باکس آفس پوزیشن بھی بدل گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آصف زرداری مولاجٹ کی بجائے گلیڈی ایٹر کے روپ میں مارکیٹ میں چھائے ہوئے ہیں ۔ گلیڈی ایٹرز کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم یونان میں یہ سورما شیروں سے لڑتے ہوئے انہیں پچھاڑ دیا کرتے تھے۔ غالب نے ایسے ہی افق اور آسمان کے لئے کہا تھا کہ
زمانہ عہد میں ہے اس کے محوِآرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کیلئے
سینیٹ کے انتخابات سے پہلے گلیڈی ایٹر ۔۔مم مم میرا مطلب ہے زرداری صاحب نے کہہ دیاتھاکہ چیئر مین نون لیگ کا نہیں ہوگا۔ پھر چشم ِزمانہ نے دیکھا کہ نون لیگ اکثریت کے باوجود سینیٹ میں اپنا چیئر مین نہ لاسکی۔اب انہوں نے فرمایا ہے کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ بھی نہیں رہے گی۔ مراد یہ ہے کہ نوازشریف اقتدار کے کھیل سے باہر ہیں اور اب شہبازشریف کو بھی آئوٹ کردیاجائیگا۔ سالہاسال سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو ایک عرصہ سے اپنے برینڈنیم خادم اعلیٰ کی حیثیت سے حکومت فرمارہے ہیں۔انہوں نے فوج کے سربراہ کی تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ ۔۔آرمی چیف سیدھی بات کرتے ہیں ان کے کام کی تعظیم ہونی چاہیے۔بڑے میاں صاحب ،ان کی دختر مریم اور نون لیگ کی میڈیا الیون ٹیم کا بیانیہ خادم اعلیٰ سے یکسر مختلف ہے۔نواز اور شہباز کے کرداروں اور حالیہ بیانیہ کی بات کریں تو ان میں 180ڈگری کا فرق ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے بھارتی فلم ’’دیوار‘‘ کے دوبھائیوں روی اور وجے کے بیانیہ اور کریکٹر میں فرق تھا۔ مذکورہ فلم میں یہ دونوں کردار ششی کپور اور امیتابھ بچن نے نبھائے تھے۔ نواز ووٹ کے تقدس اور عوام کے حق حکمرانی کا نعرہ لگاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ،جبکہ شہباز اداروں سے ٹکرائو کی سیاست سے گریز کا رستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ان کا بیانیہ ہے کہ عوام کی خدمت کا کارنامہ اداروں کے ساتھ چلتے ہوئے ہی سرانجام دیاجاسکتا ہے۔یہ وہی ’’دیوار‘‘ والی سچویشن ہے جس میں امیتابھ بچن (وجے) اپنے سگے بھائی ششی کپور (روی) کو کہتاہے۔۔آج میرے پاس بلڈنگیں ہیں ،پراپرٹی ہے ،بنک بیلنس ہے، بنگلہ ہے ،گاڑی ہے ۔۔کیاہے تمہارے پاس؟؟اس کے بعد ڈائریکٹر نے ہیوی میوزک بینگ کے ساتھ امیتابھ اور ششی کے کلوزاپس دکھائے ہیں،پھر اسکرین پر ششی کا کلوز اپ نمودار ہوتاہے اور وہ کہتاہے ۔۔میرے پاس ماں ہے۔۔ششی کپور کی طرف سے یہ ڈائیلاگ شارجہ والا چھکاہی تھا۔کبھی کبھی مجھے شہبازاپنے بڑے بھائی نوازشریف سے یہ ڈائیلاگ بولتے دکھائی دیتے ہیں۔۔آج میرے پاس وزارت اعلیٰ ہے،اقتدار ہے ،روشن مستقبل کی ضمانت ہے،ہیلی کاپٹر ہیں،عام انتخابات میں جیت کی امید ہے ۔۔آپ کے پاس کیاہے؟بالکل اسی طرح اسکرین پر ہیوی میوزک بینگ کے ساتھ شہبازاور نواز کے کلوز اپس دکھائی دیتے ہیں اور پھر میاں نوازشریف کا کلوز اپ نمودارہوتاہے اور وہ کہتے ہیں۔۔میرے پاس مینڈیٹ ہے ،ووٹ کا تقدس ہے ،دوتہائی اکثریت کی گارنٹی ہے، مریم ہے اور کیپٹن صفدر ہے ،(تھوڑے وقفے کے بعدبھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہیں)۔ ۔ اور ہاں طلال چوہدری بھی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)