• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کےجہاز کا رخ بدلنےکی کوشش نہ کرتے تو نوازشریف حکومت بچ سکتی تھی

مشرف کےجہاز کا رخ بدلنےکی کوشش نہ کرتے تو نوازشریف حکومت بچ سکتی تھی

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت"سچ تو ہے " منظر عام پر آگئی ہے ۔ کتاب کی تقریب رونمائی 10اپریل کو ہوگی ۔چوہدری شجاعت حسین نے 2002سے 2008تک ایک طاقتور سیاستدن کی حیثیت سے قومی تاریخ کےکئی ایسے فیصلے کیے جس نے منظرنامے کا دھارا بدل دیا ، اس خود نوشت میں چوہدری شجاعت حسین نے ملکی تاریخ کے سرد و گرم چشیدہ واقعات نئے اسلوب سے بیان کیے ہیں اور یہاں نواز شریف ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی ، جسٹس افتخار چوہدری ، سردار فاروق لغاری ، مشاہد حسین سید اور بہت سے کردارجو خفیہ اجلاسوں کا حصہ تھےان کےتذکرے چوہدری شجاعت حسین کی نئی خود نوشت میں موجود ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ چوہدری پرویز الہی بھی کئی خفیہ میٹنگز میں شریک رہے ہیں ، ان میٹنگز میں کیا فیصلے کیے گئے یہ تمام تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں اسی طرح کے نومبر 99کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا جس میں موجود انٹیلی جنس کے سربراہوں سمیت تمام شرکاء سے قرآن پر حلف لیا گیا تھا کہ وہ اس میٹنگ کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے ۔ اس میٹنگ میں بہت سے خوفناک فیصلے کیے گئے اور ان فیصلوں کے فوراً بعد پنجاب اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونا شروع ہوگئے ، 20ابواب اور 328صفحات پر مشتمل کتاب میں چوہدری ظہور الہی شہید کی سیاست سے چوہدری پرویز الہی کے دور حکمرانی اور چوہدری شجاعت حسین کے وزارت عظمیٰ کے دور تک تمام اہم واقعات بیان کیے گئے ہیں جنرل پرویز مشرف کا ٹیک اوور، مشرف نواز ڈیل ، ایوب دور حکومت ، جنرل مشرف اور طارق عزیز ، کالج فیلوز ، 70کا انتخابی معرکہ ، پیپلزپارٹی کا تاسیسی رکن بننے کی پیشکش ، بھٹو دور حکومت ، بھینس چور ی کا مقدمہ ، باچا خان کا لاہور میں ان کے گھر میں قیام ، جنرل ضیاء کا مارشل لاء ،میاں نواز شریف سے پہلا تعارف ،نواز شریف کی مسلسل عہدشکنی ، شیخ رشید کو کوڑوں کی سزا کیسے ٹلی سمیت قومی تاریخ کےکئی اہم واقعات کتاب میں پیش کیے گئے ہیں ، جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور کے حوالے سے چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ اگر میاں نواز شریف آرمی چیف پرویزمشرف کے جہاز کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرتے تو ان کی حکومت بچ سکتی تھی اور میری اطلاع کے مطابق فوج کا نوازحکومت کو برطرف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کے منصوبے کے حوالے سے چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ٹیک اوور کے بعد ایک ڈنر میں جنرل مشرف نے خود سنایاتھا ، ایک آدمی جو باہر سے آیا تھا ڈنر میں ٹیک اوور کی کہانی سننا چاہ رہا تھا ، مقبول شیخ ، غوث علی شاہ کے مشیر تھے اور 12اکتوبر کی شام لمحے لمحے کی رپورٹ دے رہے تھے ، نواز شریف کی ہدایت پر غوث علی شاہ ، آئی جی سندھ رانا مقبول کے ہمراہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کے لیے کراچی ائر پورٹ پر پہنچے تو وہاں منظر کچھ اور تھا ، دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر مشرف کو گرفتار نہ کرسکے اور آرمی والوں نے پوچھا کہ وہ یہاں کیا لینے آئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ون ان کے استقبال کے لیے آئے ہیں ، چوہدری شجاعت حسین نے شریف خاندان سے حسن سلوک کے حوالے سے لکھا کہ نواز شریف جب سعودی عرب چلے گئے تو حمزہ ہمارے مسلسل رابطے میں تھے ، حمزہ فون پر جب بھی کوئی مسلہ بیان کرتے یا شکایت کرتے تو ہم ان کا مسلہ حل کرنےکی کوشش کرتے ، شریف خاندان کے ملازموں اور گارڈز کو تنخواہیں بھی باقاعدگی سے ادا کی جاتی رہیں ، ایک دن حمزہ نے شکایت کی کہ فیملی کے ساتھ جب بھی باہر کھا نا کھانے جاتا ہوں تو ایجنسیوں کے لوگ ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھ جاتے ہیں اور پرائیویسی متاثر ہوتی ہے ، یہ مسلہ چوہدری پرویز الہی نے حل کر ا دیا ، وزیراعظم کو بلٹ پروف جیکٹ پہنانے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کتا ب میں بیان کیا گیا ہے ، جمالی کے بعد شوکت عزیز کو وزیراعظم نامزد کیا گیا تو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرانے کے لیے اٹک کا حلقہ خالی کرایا گیا فتح جنگ کے قریب ان پر ایک خود کش حملہ ہوا بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے بم حملے میں شوکت عزیز اور میرے بہنوئی میجرطاہر صادق جوان کے ساتھ گاڑی میں تھے محفوظ رہے لیکن ڈرائیور جاں بحق ہوگیا ، میں اس وقت ملک کا وزیراعظم تھا میرے ملٹری سیکریٹری نے اس حملے سے ایک روزپہلے ہی مجھے بتایا تھا کہ شوکت عزیز کے پاس جو بلٹ پروف گاڑی ہے وہ ایوان صدر کی ہے اور وہ مانگ رہے ہیں ، میں نے اس وقت یہ ہدایت کی تھی کہ گاڑی ابھی انہی کے پاس رہنے دو اور ایوان صدر والوں کو ٹال دواگران سے گاڑی لے لی جاتی تو خدانخواستہ انہیں بھی نقصان ہوسکتا تھا ، خودکش حملے کے بعد شوکت عزیز خوفزدہ ہوگئےتھے ، چوہدری پرویز الہی نےا ن کے حلقے کی میٹنگز کا پنجاب ہائو س میں اہتمام کرایا ، ایک روز پرویز مشرف نے پوچھا کہ شوکت عزیز اپنے حلقے میں کیوں نہیں جارہے تو چوہدری پرویز الہی نے جواب دیا کہ سکیورٹی وجوہات ہیں ، اگلے روز شوکت عزیز کا ان کے حلقے میں بڑا جلسہ منعقد کیا گیا اور صدر پرویز مشرف نے ایک بلٹ پروف جیکٹ انہیں بھجوا دی کہ اسے پہن کر اپنے حلقے میں جاسکیں اور شوکت عزیز بعد میں یہ جیکٹ پہن کر جلسوں میں جاتے رہے ، چوہدری شجاعت حسین کی اس خود نوشت میں ایک سپاہی کے بیٹے سے منتخب وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے کی داستان ہے اور اس میں چوہدری پرویز الہی کی بھی ایسی سرگزشت ہے جنہوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب برسوں کے سیاسی و انتظامی جمود کو توڑا اور اپنے پانچ سالہ دور میں ہرلحاظ سے صوبے کو مثالی بنایا ، یہ کہانی ایک سیاسی خاندان کی ہے جس نے سیاست میں کبھی اپنی عزت و وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ، اس میں تذکرہ ہے چوہدری ظہور الہی کا جنہوں نے سیاست میں تادم شہادت کلمہ حق بلند کیا ، بے انتہا مصائب سہے لیکن سر نہیں جھکایا ان کی اسیری میں ایمنسٹی نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا ، کتاب میں بگٹی سے مذاکرات اور انجام کا تذکرہ بھی ہے ، چوہدری شجاعت حسین نے بگٹی کے قتل کے بعد ہونیوالی ایک میٹنگ کے حوالے سے کہا کہ پرویز مشرف نے یہ میٹنگ مری میں بلائی تھی جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی ، ڈی جی آئی بی موجود تھے ، شرکاء کو جب یہ بتایا گیا کہ بگٹی کے قتل پرلوگ خوش ہیں اور مٹھایاں تقسیم کررہے ہیں تو میں نے مداخلت کی اور اس موقع پر پنجابی میں میاں محمد بخش کا ا یک مصرعہ سنایا ،ـــ"دشمن مرے تو خوشی نہ کرئیے سجناں بھی اک دن مرجانا"اور ساتھ بیٹھے ڈی جی آئی بی اعجاز شاہ سے کہا کہ ترجمہ آپ کردیں ، مشرف نے کہا کہ ترجمے کی ضرورت نہیں مطلب سمجھ میں آگیا ہے ، ڈاکٹر اے کیوخان پر جب جوہری مواد چوری کرنےکا الزام لگاتو بہت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ، جس میں کئی ممالک کی طرف سے دبائو بھی آرہاتھا ، پرویز مشرف نے مجھے اور ایس ایم ظفر کو بلایا اور کہا کہ ہم اے کیوخان کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ قوم سے معافی مانگیں ، بعد میں مجھے کہا گیا کہ میں اکیلا ہی ان سے ملوں ، ڈاکٹر اے کیوخان سے ملاتو انہوں نے کہا کہ جوہری مواد کی چوری کرنے کا جھوٹا الزام ہے ،میں نے کوئی چیز نہیں بیچی اور نہ ہی میں نے کوئی رقم لی ہے ، ڈاکٹراے کیوخان مجھے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے اور فرنیچر دکھایاکہ میری اہلیہ کے جہیز کا ہے ، مجھ میں تو فرنیچر خریدنے کی استطاعت نہیں تاہم ڈاکٹر اے کیوخان نے معافی مانگ کر سارا الزام اپنے سرلے لیا یہ بہت بڑی قربانی تھی اور اس ایثار وقربانی سے پوری قوم کے دل میں ان کی عزت بہت بڑھ گئی تھی ، کتاب میں جسٹس افتخار چوہدری کی تقرری سے لے کر ان کی برطرفی تک کے واقعات کا تفصیل سے ذکر ہےاور چوہدری شجاعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ افتخار چوہدری جنرل مشرف سے مصالحت کے لیے رضامند ہو گئے تھے ، غیر ملکی سربراہوں سے ملاقاتوں کا بھی کتاب میں ذکر موجودہے ، 2005میں چوہدری شجاعت حسین ایک خیرسگالی وفد کے ساتھی نئی دہلی گئے تو وہاں انہیں دہلی کی شاہی مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کا موقع بھی ملا جس میں ہندوستان کے مسلمانوں سےان کی خاص بات یہ تھی کہ آپ ہر بات میں ہماری طرف نہ دیکھیں ، 47میں آپ کو چوائس ملی تھی کہ پاکستان چلے جائیں یا ہندوستان میں ہی رہیں آپ نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا آپ لوگ ہندوستان کے شہری ہیں اس لیے سب پہلے ہندوستانکے معاملات کو دیکھیں ، 2007میں لال مسجد کے واقعہ کا بھی کتا ب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ،جس میں مولانا عبدالرشید غازی مرحوم ، مولانا عبدالعزیز ، ام حسان اور دیگر منتظمین سے ان کے 14مذاکراتی ادوار کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیںاور بتایا گیا ہے کہ انہوں نے مسلے کو بات چیت سے حل کرنے کی حتی الاامکان کوشش کی تھی اور آخری وقت تک آپریشن کی مخالفت کی ، یہی وجہ تھی کہ عبدالرشید غازی کا چوہدری شجاعت حسین پر کافی اعتماد تھا اور انہوں نے اپنے آخری وقت میں دو لے پالک بچیاں چوہدری شجاعت حسین کی کفالت میں دینےکافیصلہ کیا یہ بچیاں آج بھی ان کے زیر کفالت ہیں ۔

تازہ ترین