• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’شکم‘‘ سے زندگی بنتی ہے....

مردکی دائمی فلاح و بہبود کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ کھانا، اُس کے نکاح کا عشائیہ ہو تا ہے۔جو سخت جان، اُسے جھیل گیا ، وہ عملاً ساری زندگی کے لیے جیل گیا اور جیل کا کھانا ہم سب جانتے ہیں کہ کیسا ہوتا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں سب سے خراب اور بدذائقہ کھانا رومانیہ کا قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ہٹلر نے اتنے یہودی نہیں مارے تھے جتنے اس کھانے نے ماردیے۔

موت، زندگی تو اﷲکے ہاتھ میں ہے لیکن ہماری فیشن زدہ بستیوں کے بنگلوں میں پکنے والے کھانے بھی مرد کے اعمال کی سزا سے کم نہیں ہوتے ۔اسی لیے گھر کے مرد عموماً گھر کے کھانے سے ایسے بچتے ہیں جیسے ان میں جمال گوٹا ملا دیا گیا ہو۔عام طور پر ان کا گزارا کاروبار ی ظہرانوں ،عصرا نوںاور عشائیوں پر ہے اور اب Business breakfasts کا چلن بھی عام ہوتا جارہا ہے۔

مسلمان ایک گوشت خور قوم ہے۔ دوستوں کو پیش کیے جانے والے کھانوں میں کئی اقسام کے گوشت ہوتے ہیں۔ دال، سبزی اُس مہمان کے سامنے رکھی جاتی ہے جسے یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ __دوبارہ اِدھر کا رخ نہ کرنا ۔انداز ہ لگا یا گیا ہے کہ ایک عام کلمہ گو اپنی پوری زندگی میں دس گائیں ،چالیس بکرے اور بارہ سو مرغیاں کھاکر ہی یہ چیلنج دینے کے قابل ہوتا ہے کہ ع باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔ صرف کراچی کے شہری ایک دن میں اوسطاً50ہزار مرغیاں، 10ہزار گائیں بھینسیں اور25ہزاربکرے چٹ کر جاتے ہیں۔گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق پاکستانی ایک سال میں 80ارب روپے کا گوشت کھاتے ہیں۔

یقین کیجیے، گوشت کے بارے میں ہم نے معلومات کے جودریا بہائے ہیں ان کا ہمارے نام سے کوئی تعلق نہیں۔یہ سب ہم نے اخبار ات سے حاصل کی ہیں ۔ہم تو دونمبر کے بے ضرراور پُر امن قریشی ہیں۔ ایک نمبری قریشی وہ ہیں جو بہت جلد بھڑک جانے کی صلاحیت کے ساتھ قانوناً بغیرلائسنس کے مہلک ہتھیار رکھنے کے مجازبھی ہیں۔البتہ نیپال میں ہم نے ــ’’بہ چشمہء خود‘‘ دیکھا کہ گوشت کا کاروبار عورتوں کے ہاتھوں میں ہے۔مردبھیگی بلّی کی طرح ان کے روبرو با ادب، باملاحظہ ہوشیار پوزیشن میں کھڑے رہتے ہیں۔ 

شروع میں ہمیں اس بدذوقی پر بڑی حیرت ہوئی ۔ ہم صنف نازک کے غمزوں کے آگے تو ڈھیر ہوسکتے ہیں لیکن اُس کے ہاتھ میں تیز دھار والے ہتھیار دیکھ کر مردانہ جلال، عمر کے اس ٹھنڈے دور میں بھی ابال کھا جاتا ہے۔اردو شاعرجو عورتوں کے لیے نظر کے تیر ،ابرو کے خنجراور سُرمے کی شمشیر جیسے استعاراتی ہتھیار تجویز کرتے ہیں،اُن کے نازک ہاتھوں میں چھری،بغدا،سلاّخ اور چاپڑکا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر یہ حضرات نیپال کی عورتوں کو ہڈیاں توڑتے ،گوشت کاٹتے،بھیجا نکالتے اور قیمہ بناتے دیکھ لیں تو شاعری سے توبہ کر کے کوئی شریفانہ شغل اختیار کرلیں۔ اکبرؔ الہٰ آبادی نے تمام مردوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا ؎

اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے

ہم پاکستانی ہر کام جوش و جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔خاص طور پردو کام یعنی شادیاں اور کھانا۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو یہ جانچنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہاتھ زیادہ تیزی سے چل رہے ہیں یا دانت۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کا ٹورنا منٹ منعقد ہورہا ہے یا شایدزندگی میں آخری بار کھانے کا موقع مل رہا ہے۔انہیں کھاتے ہوئے دیکھ کر دردؔکاایک مشہور شعر اس طرح پڑھنے کو جی چاہتا ہے ؎

’’پیٹ بھرنے کے لیے پیدا کیا انسان کو ‘‘

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرُّوبیاں

پھر ہم نے بعض غذائوں کو بعض شہروں اور شخصیات سے منسوب کردیا ہے۔لاہور کا ہر دوسرا پایا فروش پھجّا ہے۔ملتان کا ہر حلوہ فروش حافظ ہے۔حیدرآباد کے سب ربڑی بیچنے والے حاجی ہیںاور کراچی کا ہر حلیم فروش گھسیٹا ہے۔دو پھجّے کراچی میں بھی لینڈ کرچکے ہیں ۔ ایک نے اپنا پایا گلشن میں جمایا ہے جبکہ دوسرے کا پاے تخت پی ای سی ایچ سوسائٹی میں ہے جو بہت جلد’’پیچش سوسائٹی‘‘ میں تبدیل ہوجائے گی۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک بزرگ نے اپنے نوجوان لیکن توندل بیٹے کو نرمی سے نصیحت کی ’’ بیٹا، تم دوپہر کا کھانا اکیلے ہی کھایا کرو ۔ دفتر کے دوستوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو۔‘‘’’کیوں؟‘‘ بیٹے نے احتجاج کیا ’’کیا میری صحبت ان کے لیے بری ہے؟‘‘’’تمہاری صحبت تو ٹھیک ہے‘‘ باپ نے سمجھایا ’’ لیکن تمہاری صحت ان کے لیے بری مثال قائم کر سکتی ہے۔‘‘

ہمارے یہاں کرپشن کی طرح بسیار خوری بھی ٹاپ پر جا رہی ہے۔کئی ایک پیٹ اپنے سائز کے اعتبار سے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے اُن کے اندرتربوزوں کا ٹھیلا لگا ہوا ہے۔دوسری طرف ہماری تقریباً چالیس فیصد آبادی فاقہ کشی پر مجبور ہے اور اس میں پندرہ ہزار روزانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔بہت سے اہل ثروت کو ہم نے شادی بیاہ، عقیقہ، سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں کھانے کے ساتھ ’’جہادی عمل‘‘ میں مصروف پایا۔لگتا ہے کہ اتنا زیادہ اور اتنا اچھا کھانا انہیں زندگی میں پہلی بار میسّر آیا ہے۔ایسی ہی ’’جوعِ بقر‘‘رکھنے والوں کے لیے شاعر نے کہا تھا ؎

میں شہیدِ دیگ ہوں ہوٹل میں ہو تربت مری

خانسامائوں کے کندھوں پر اٹھے میّت مری

(علامہ حسین کاشمیری)

انسان سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر جتنا اہم ہوتا جاتا ہے اسے تقریبات کی اتنی ہی زیادہ دعوتیں موصول ہوتی ہیں۔ ہم ایسے متعدد ’’وی آئی پیز‘‘کو جانتے ہیں جنہوں نے ہر تقریب میں شرکت اپنے اوپر واجب کر رکھی ہے۔ہر جگہ وہ کھانے کے ساتھ ’’مولویانہ‘‘ سلوک کرتے ہیں۔ ہمیں اکثر حیرت ہوئی کہ آخر ان کے لچک پذیر معدوں میں ایسی کو ن سی جادوئی صلاحیت ہے کہ جو کچھ اور جتنا کچھ اُن کے اندر ارسال کیا جاتا ہے وہ اسے لیٹر بکس کی طرح قبول کر کے پیغام دیتے ہیں کہ __ہم پرورشِ ’’دہن و شکم‘‘ کررتے رہیں گے۔ عام آدمی کا نظام ہضم ہفتے میں ایک دو پارٹیوں سے زیادہ کا دبائو برداشت نہیں کر سکتا۔

کیا سارے ’’دشمنانِ اناج‘‘ پاکستان ہی میں پائے جاتے ہیں؟ ہمارا وطن تو دنیا کے ان پچاس ممالک کی فہرست میں بھی کوئی مقام نہیںرکھتا جن میں سب سے زیادہ موٹے پائے جاتے ہیں۔ان میں چندیہ ہیں: کویت، امریکہ، ارجنٹینا، مصر، نیوزی لینڈ، متحدہ عرب امارات، میکسیکو، آسٹریلیا، کیوبا، چلی، بحرین ، برطانیہ، سعودی عرب،قطر، اردن،جرمنی اور فن لینڈ ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ’’ڈبل ڈیکروں‘‘ کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے جو آئندہ دس برس میں چالیس فیصد بڑھ جائے گی۔پاکستان میں آبادی کے 33فی صد حصے یعنی تقریباً 7کروڑ افراد (مردوزن) ’’سامراجی جسامت‘‘ کے مالک ہیں۔ان کی گردنیں گالوں کے پھولے ہوئے غباروں اور ٹھوڑی کے بَلوںمیںغائب ہو چکی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے وزن کم کرنے کی ایک عملی ورزش یہ ہوگی کہ کھانا کھانے بیٹھیں تو میز کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام کر کرسی کو پیچھے کھسکا لیا کریں۔

آپ لوگ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ ایک عالمی سروے کی رُوسے پاکستانی نہیں،بلکہ مصری دنیا کے سب سے بڑے پیٹو ہیں۔عموماً ایک انسان اپنی پوری زندگی میں 62ٹن خوراک کھاتا ہے جبکہ مصریوں کا اوسط 70ٹن ہے ۔وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہم بکرے روسٹ کر کے کھاتے ہیں وہاں اونٹ روسٹ ہوتے ہیں۔پاکستانی بھائی جب مغربی ملکوں میں جاتے ہیں تو ان کا پہلا مسئلہ زبان کا نہیں، پیٹ کا ہوتا ہے۔باہر رہ کر ہم دنیا کا ہر اچھا برا کام کرلیتے ہیں لیکن کھانے میں اتنے محتاط ہوجاتے ہیں کہ پاکستانی ہوٹل میں بیٹھ کر بھی ویٹر سے پوچھتے ہیں’’حلال گوشت رکھتے ہونا؟‘‘ معروف مزاح گو خالد عرفان نے پاکستانیوں کے اس مسئلے کو اپنے ایک شعر میں یوں اجاگر کیا ؎ـ

تمہاری دعوت قبول مجھ کو، مگر تم ا تنا خیال رکھنا

بئیر کسی بھی برانڈ کی ہو،چکن فرائڈ حلال رکھنا

تقریبات میں ہم وطنوں کو اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف دیکھ کر نیو جرسی (امریکہ) کے اُس پیٹو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس نے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانے کا مقابلہ جیتا تھا۔مقررہ وقت میں دو مرغ مسلّم، تین پائونڈ گوشت کا اسٹیک،تین بڑے سائز کی ڈبل روٹیاں، چھ عدد برگر ، نصف کلو آئس کریم اور تین کولڈ ڈرنکس ڈکارنے کے بعد اُس جنم جنم کے بھوکے نے دوستوں سے التجا کی ’’خدا کے لیے ، میری بیوی کو اس کی خبر نہ ہونے دیناورنہ وہ ظالم مجھے رات کے کھانے سے محروم کر دے گی۔‘‘

تازہ ترین