• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ یونیورسٹی میں ترمیمی بل

پروفیسر ہارون رشید

گزشتہ ماہ سندھ اسمبلی نے انتہائی پُر اسرار طور پر ایک ترمیمی بِل کے تحت، صوبے میں واقع چوبیس یونی ورسٹیز کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایوان میں موجود محض28 سرکاری ارکان نے اس متنازع بِل کی منظوری دی، جب کہ حزبِ اختلاف کے ارکان ایجنڈے کے پُرزے اڑاتے اور نعرے لگاتے ہوئے بائیکاٹ کرگئے۔ اس بِل کے ذریعے یونی ورسٹیز سے گورنر کا عمل دخل ختم اور اکیڈمک کاؤنسل کو داخلہ پالیسی بنانے سے روک دیا گیا۔ 

اسی طرح بِل نے یونی ورسٹی سینڈیکیٹ سے اعلیٰ عُہدوں پر تقرّریوں کا اختیار چھین لیا، تو وائس چانسلرز کو بھی بے دست وپا کر کے محض علامتی سربراہ بنادیا۔ نیز، اکیڈمک کاؤنسل اور سینڈیکیٹ میں اساتذہ کی نمایندگی کو اقلیت میں بدلتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سکریٹریٹ کے افسران کی ایک بڑی تعداد کو ان اہم اداروں میں بہ طورِ رکن نام زَد کردیا گیا، جو یقینی طور پر حکومتی اشاروں ہی پر فیصلے کریں گے۔ حکومت نے اس بِل کے ذریعے چانسلر (گورنر) کے اختیارات، وزیرِ اعلیٰ کے حوالے کر دیے ہیں۔ 

اب25 رُکنی سینڈیکیٹ میں اساتذہ کے چھے نمایندوں کے مقابل، وزیر اعلیٰ کے آٹھ نام زَد کردہ ارکان بھی بیٹھیں گے، جب کہ دیگر ارکان میں ڈینز اور اعلیٰ افسران ہوں گے، جو عموماً حکومتی اشاروں ہی پر ہاں، ناں کرتے ہیں۔ یوں سندھ حکومت نے اپنے ہی پارٹی قائد، ذوالفقار علی بھٹّو کی دی گئی تعلیمی آزادی کی دھجّیاں بکھیر دیں اور اس عظیم رہنما کے تعلیمی وژن کے چیتھڑے اڑا دیے۔

سندھ یونیورسٹی میں ترمیمی بل

تعلیم کو یوں راتوں رات اپنے چنگل میں جکڑنے کی ایک بنیادی وجہ تو صوبائی حکومت کی ہر شعبے میں اپنی کُلی حاکمیت اور برتری قائم کرنے کا جنون ہے، تاہم حکومت نے اس بِل کی منظوری کو دیگر صوبوں سے ہم سَری کی پالیسی قرار دیا تھا، مگر وہ یہ حقیقت فراموش کر گئی کہ یہاں دیگر صوبوں کی نسبت شعبۂ تعلیم میں کہیں زیادہ کرپشن ہے، جس کا ثبوت ہر سال جاری ہونے والی محتسبِ اعلیٰ، سندھ کی رپورٹ ہے۔ حیرانی اور افسوس کا مقام ہے کہ یونی ورسٹی ایکٹ 1973 ء میں پاکستان کی تمام یونی ورسٹیز کو خود مختاری پی پی پی حکومت ہی نے دی تھی، جس کا ہر سطح پر خیر مقدم بھی کیا گیا تھا۔ 

اُس ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت کی جانب سے یونی ورسٹیز کی نگرانی وفاق کا نمایندہ، گورنر کرتا تھا۔ وفاق کی اس براہِ راست نگرانی سے صوبائی حکومتیں تعلیم کی مرکزیت کی پابند تھیں، جس کے مثبت اثرات بھی دیکھنے میں آئے، مگر پیپلزپارٹی کے سابق دورِ حکومت میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کی شق، 25A کے تحت تعلیم کو صوبائی معاملہ قرار دے کر وفاق کو اس شعبے سے عملاً بے دخل کردیا گیا۔ اُس وقت ہی سے یہ شق متنازعہ رہی ہے اور اب اس کے تحت کیے جانے والے اقدامات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ اس شق پر نظرِ ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ میں یونی ورسٹیز پر مارے جانے والے اس شب خون کو اہلِ علم نے مسترد کردیا ہے اور اس حکومتی اقدام کے خلاف مسلسل احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ اہلِ علم اس حکومتی اقدام کو تعلیم دشمنی قرار دے رہے ہیں، تو اساتذہ یونی ورسٹیز کی خود مختاری بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

اُدھر طلبہ بھی اس بِل کو اپنے تعلیمی مستقبل سے کِھلواڑ تصوّر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بھی یونی ورسٹیز کے باہر دھرنے پہ دھرنے دے رہے ہیں اور تدریسی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں اساتذہ کی وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مراد علی شاہ سے ملاقات بھی ہوئی، مگر ابھی تک معاملہ یقین دہانیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ 

ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی درمیانی حل نکل آئے، جس کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، تب بھی صُورتِ حال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکے گی، کیوں کہ حکومت سینڈیکیٹ اور اکیڈمک کاؤنسل میں اپنے نام زَد افسران سے اہم فیصلے باآسانی اپنے حق میں کروا لے گی۔ اس بِل کا دوسرا اہم پہلو، داخلہ پالیسی پر حکومتی کنٹرول سے متعلق ہے۔ 

سندھ یونیورسٹی میں ترمیمی بل

بعض حلقوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر اوپن میرٹ کی پالیسی اختیار کی گئی، تو یونی ورسٹیز میں کراچی کے طلبہ کے داخلے محدود ہوجائیں گے، کیوں کہ کراچی بورڈ کا اوسط میرٹ نتیجہ70 فی صد ہے، جب کہ اندرونِ سندھ طلبہ کو فراخ دِلی سے90 فی صد تک نمبرز سے نواز دیا جاتا ہے۔ اس دو رُخی پالیسی کو ختم کرنے کے لیے ایک شفّاف انٹری ٹیسٹ داخلہ پالیسی بروئے کار لانا پڑے گی۔ 

پھر یہ کہ حکومت نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے یونی ورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور دیگر متعلقہ افراد کو بھی اعتماد میں لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی، جس سے بدگمانیوں کو فروغ ملا۔ اس بِل کی منظوری سے پہلے سے تباہ حال سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مسقبل پر بھی سوالات اٹھے ہیں، کیوں کہ یونی ورسٹیز کے اس بھونڈے انداز میں ہاتھ پاؤں باندھنے کے اثرات سے صوبائی ایچ ای سی بھی متاثر ہوگا۔

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ سندھ حکومت اس بِل کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے ماہرینِ تعلیم کے ساتھ کُھلے دِل سے مشاورت کا آغاز کرے۔ نیز، اس بِل سے متاثر ہونے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ بِل پر نظرثانی کا کام کسی تنازعے کا شکار نہ ہو۔

تازہ ترین