• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی جنگ میں کیمیکل ہتھیار استعمال کرنا جس سے عام انسان متاثر ہوں، ایک انسانیت دشمن عمل ہے۔ اسکی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، مگر تھوڑی سی عقل رکھنے والا آدمی بھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا کہ ایک فوج جس نے چاروں طرف سے دشمن کو گھیر لیا ہے اور اسکی رسد کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں۔ دو تہائی دشمن معاہدہ کرکے نکل چکا ہے اور اسے زمین اور فضا دونوں جگہ پر برتری حاصل ہے تو وہ کبھی کیمیکل ہتھیار استعمال کرے گی، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس سے بین الاقوامی رائے عامہ اس کیخلاف ہو جائیگی۔ اگر کوئی کیمیکل گیس استعمال ہوئی بھی ہے تو وہ دہشت گروں کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔ اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ ان قاتلوں کو یہ گیس کس نے فراہم کی؟
شام ایک ہنستا مسکراتا ملک تھا۔ یہاں کی یونیورسٹیاں اور میڈیکل نظام خطے میں موجود دیگر ممالک سے بہت اچھے تھے۔ بہت سلیقے سے شام کا انفراسڑکچر بنایا گیا تھا۔ ریلوے اور روڈ کا نظام پورے ملک کو باہم مربوط کئے ہوئے تھا۔ یہاں مسلکی و مذہبی آہنگی موجود تھی۔ اہلسنت کے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے، جنہوں نے قرآن، حدیث اور فقہ میں بہت کام کیا اور ان کاکیا ہوا کام بنیادی نوعیت کا ہے۔ دمشق سے بنیادی اسلامی علوم کی کتب بڑے پیمانے پر شائع کی جاتی تھیں۔ دمشق یونیورسٹی کا شعبہ علوم اسلامی جدید اسلامی موضوعات پر کام کر رہا تھا۔ اسی طرح حضرت زینب ؓکے حرم میں قائم حوزہ علمیہ میں دنیا بھر کے طلباء زیر تعلیم تھے۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ شام کے مسیحی مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کو ادا کر رہے تھے۔ شام کوئی پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک نہیں تھا۔ یہاں خواتین کو بھی آزادی حاصل تھی، وہ گاڑی چلا سکتی تھیں، وہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرسکتی تھیں، اسی طرح شامی خواتین کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ تھی۔ ایسی صورت حال میں عرب بہار کے نام سے خطے میں طوفانی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے آغاز پر ہی اسے اتنے بڑے پیمانے پر کوریج اور دنوں میں ملکوں کا نظام تبدیل ہو جانے سے ہی کئی ماہرین نے اسے مشکوک قرار دیا۔
شام میں بھی کچھ لوگ مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں مظاہرے کرنے دیا جاتا ہے۔ کئی شہروں میں مظاہرے کرتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں بشار کی حمایت میں بھی مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگ بڑی تعداد میں ان میں شریک ہوتے ہیں۔ بشار کی حمایت میں لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر ان لوگوں کو پرتشدد مظاہروں پر اکسایا جاتا ہے اور پھر یہی ہوتا ہے، شام میں ایک خونریز جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ سادہ سی اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مگر اصل کہانی تو اس کے پیچھے ہے۔ اب ذرا اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہا گیا کہ اس پوری جنگ کا مقصد شام میں جمہوریت کا قیام ہے اور آمریت کا خاتمہ مقصود ہے۔ بہت اچھا، ممکن ہے آپ کا مقصد یہ ہوتا، مگر بشار کو ہٹانے کے لئے فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ خلیجی ممالک تو جناب ان دونوں ممالک میں آخری بار صدارتی یا پارلیمانی انتخابات کب ہوئے تو اس کی تاریخ بتا دیں۔؟ یہ ایک لطیفہ ہے کہ برادر عرب ملک اور قطر شام میں جمہوریت لانے کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ دوسری بات بڑی اہم ہے کہ جو گروہ شامی حکومت سے نبردآزما ہیں، فرض کرتے ہیں یہ شام پر قابض ہو جاتے ہیں تو کیا وہ شام کو ایک جدید جمہوری ملک بنائیں گے؟ داعش اور دیگر باغی گروہوں کے زیر قبضہ جو علاقے رہے ہیں، انہوں نے اپنے نظام کو بھرپور انداز میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں قیدیوں کو زندہ جلایا، کہیں پانی میں ڈبو کر مارا، کہیں ٹینکوں کے نیچے دیا اور غیر مسلموں کی خواتین کو فروخت کیا۔ جانے شامی عوام پر اور کیا کیا ستم ڈھائے، تو جناب جن لوگوں کو آپ نے دنیا بھر سے جمع کرکے شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، وہ جس نظام کو لانے کے لئے انسانیت کا قتل عام کر رہے تھے، وہ وہی تھا جس کا تھوڑا بہت مظاہرہ میڈیا نے عوام کو دکھا دیا۔
بشار نے بہت سی غلطیاں کی ہوں گی، ہم ان کا انکار نہیں کرتے، مگر اتنے پاگل اور بے وقوف نہیں ہیں کہ سادہ سی بات کو بھی نہ سمجھ سکیں کہ اصل مسئلہ جمہوریت و آمریت نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ جمہوریت کے دلفریب نعرے میں شام کو ایسے گروہوں کے حوالے کرنا ہے، جو ہمیشہ آپس میں لڑتے رہیں اور اسرائیل کبھی ایک گروہ اور کبھی دوسرے گروہ پر بم برسا کر سکون کی نیند سویا رہے۔ شام خطے میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑی طاقت تھا، اس کی فوج مضبوط تھی اور سب سے بڑی بات اس کی قیادت میں دم تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں برابری کی سطح پر بات کرسکے۔ اس لئے شام کو تباہ و برباد کرکے سبق سکھانے کی کوشش کی گئی کہ جو بھی سر اٹھا کر جینے کی کوشش کرے گا، اس کا سر کاٹ دیا جائے گا۔ شام کی فوج نے ہزاروں جوانوں کی قربانیاں دے کر اپنے ملک کی حفاظت کی ہے۔ داعش جیسے انسانیت دشمن گروہوں سے نجات دلانے کی کامیاب سعی کی ہےکیونکہ یہ انسانیت دشمن گروہ اگر کامیاب ہو جاتے تو کوئی بھی مہذب معاشرہ ان سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ یورپی ممالک میں اس گروہ کی طرف سے ہونے والی چند انسانیت دشمن کارروائیاں سب کے سامنے ہیں۔
بین الاقوامی استعمار اور اس کے مقامی فنانسرز نے جب دیکھا کہ حمص پرامن ہوگیا اور اب اگر دوما بھی فتح کر لیا جاتا ہے تو شام کا استحکام واپس آجائےگا۔ شامی ریاست مضبوط ہو جا ئے گی تو انہیں یہ نظر آنے لگا کہ ہماری اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی تو انہوں نے دوما میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگا دیا۔عین اس وقت کہ جب اقوام متحدہ کی ٹیم تحقیق کے لئے دمشق پہنچ چکی ہو، شام پر میزائل حملوں کا ہونا جہاں ان ممالک کے کردار کو مشکوک کرتا ہے، وہیں ان کے مقامی فنانسرز کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ شام پر حملہ تو بنتا تھا، کیونکہ شام نے داعش اور دیگر باغی گروہوں کو شکست دے کر پورا منصوبہ خاک میں جو ملا دیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین