• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

عکاسی :محمد اسرائیل انصاری

صبح کے تقریباً ساڑھے گیارہ بج رہے تھے،کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں اُس روز غیر معمولی گہما گہمی تھی،سیکیورٹی تو معمول کے مطابق ہی تھی ، لیکن محکمۂ ثقافت کے دیگر پروگرامز کے بر عکس دعوت نامہ دکھانے کے بعد ہی ہال میں جانے دیا جا ر ہاتھا،جب ہم ہال میں داخل ہوئے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، شرکاء میں صرف مقامی افراد ہی نہیں بلکہ غیر ملکیوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ 

شاید لوگ صبح سویرے ہی سے آکر بیٹھ گئے تھے، ابھی ہم داخل ہوئے ہی تھے کہ نظر اسٹیج پر پڑی جہاں بڑی سی اسکرین لگی تھی، جس پر سندھی لوک فن کاروں کی ویڈیوز چل رہی تھیں،ا ن کا صوفیانہ کلام ماحول میںعجب سی طمانیت و مسرت بکھیر رہا تھا۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ حاضرین محفل میں موجود غیر ملکی اس موسیقی کے سحر میں جکڑے ہوئے نظر آئے، جب کہ مقامی افراد موبائل فون اورتصاویر بنانے میں مگن تھے۔ 

’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

ہمارےاطراف میں کئی نوجوان ، جو مختلف جامعات کے طالب علم تھے،خوش گپیوں میں مصروف دِکھے، حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ نسل جس سے سب کو یہ گلہ رہتا ہے کہ ہر دم سوشل میڈیاپر مصروف رہتی ہے، وہ ایک ہاتھ میں نوٹ پیڈ اور دوسرے ہاتھ میں قلم تھامے بیٹھی تھی،ان کے برعکس ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت موبائل فون زیادہ استعمال کرتی ہوئی نظر آئی۔ آگے کی نشستوں پر چند غیر ملکی خواتین براجمان تھیں، یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ غیر ملکی خواتین کی اکثریت مشرقی لباس پہنی ہوئی تھی، انہیں دیکھ کر فخر بھی محسوس ہوا اور افسوس بھی، فخر اس بات کا ،کہ ہماری ثقافت مغرب تک پہنچ گئی ہے، یہ لوگ ہم میں ایسے گھل مل رہے ہیں جیسے ہمارے اپنے ہی ہوں اور افسوس یہ کہ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم نے اپنی پہچان اپنا پہناوا تک بدل لیا ہے۔

تھوڑی ہی دیر بعد محکمۂ ثقافت کی جانب سے شرکاء کونارنجی رنگ کے دوپٹے نما اسٹول تحفے میں پیش کیے گئے، سندھی روایات کے عین مطابق وہاں موجود ہر فرد کو محکمے کی جانب سے اسٹول خوداوڑھایا گیا۔ یہ احوال ہے ’’چوتھی ، دو روزہ بین الاقوامی صوفی کانفرنس2018‘‘کا، جسے محکمۂ ثقافت ، سیاحت و نوادرات ، حکومت سندھ نے منعقد کیا۔

دو روزہ کانفرنس کا افتتاح 13اپریل بروز جمعہ کو ،پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما و قومی اسمبلی کی رکن فریال تالپورنے کیا۔تقریباً ساڑھے بارہ بجنے والے تھے ، ہر ایک کی نظریں مرکزی دروازے پر ٹکی تھیں ، سب شدت سے مہمان خصوصی کی آمدکاانتظار کر رہے تھے، کہ اچانک ایک ہلچل سی محسوس ہوئی، مرکزی دروازے سے وزیر ثقافت ، سیاحت و نوادرات سردار علی شاہ و دیگرکے ہمراہ دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ فریال تالپور داخل ہوئیں۔ان کی آمد کے ساتھ ہی ہال میں ایک سکوت طاری ہو گیا، سب نے کھڑے ہو کر ان کاپر تپاک استقبال کیا ۔ 

’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ، بعد ازاں نیلے کپڑوں میں ملبوس ، ہاتھ میں ’’دنبورو‘‘ تھامے چند لوک فن کار، جنہیں ’’شاہ جا راگی‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ وہ عظیم صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی درگاہ پر کلام پڑھتے ہیں، وہ اسٹیج پر آئے اور کلام پیش کیا، ان راگیوں کی خاص اور دل چسپ بات یہ تھی کہ ان میں تائیوان سے آئی ہوئی پی لنگ ہئانگ بھی شامل تھیں، جو امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے راگ پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں،یہ ہمارے لیے فخر کی بات بھی ہے اور فکر کی بھی، فخر اس لیے کہ غیر ملکی ہمارے صوفیا کرام کے کلام پر تحقیق کر رہے ،اس میں دل چسپی لے رہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر ہے ہیں، لیکن ہماری نوجوان نسل اپنی ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ان کے کلام نے ایک سماں باندھ دیا، جسے سن کروہاں موجود ہر شخص جھومنے اور داد دینے پر مجبور تھا، انہوں نے سُرمارئی اور ابیات پیش کیں۔

کانفرنس کی ایک اور بات جس نے ہمیں متاثر کیا وہ یہ تھی کہ کمپیئرنگ تین زبانوں سندھی ، اُردو اور انگریزی میں کی جارہی تھی،البتہ خطبات و لیکچرز انگریزی زبان میں دیئے گئے، تاکہ کثیر تعداد میںوہاںآئے ہوئے غیر ملکی حاضرین بھی تمام باتیں سمجھ سکیں، ویسے اگر اردو زبان میں بھی لیکچرز دئیے جاتے تو بہتر ہوتا کیوں کہ ہر کوئی انگریزی زبان نہیں سمجھ پاتا ، اگر چند لیکچرزقومی زبان میں بھی دئیے جاتے، تو ہال میں موجود ہر فرد کو لیکچرز سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی اور ان کا سارا دھیان کانفرنس ہی میں رہتا۔صوبائی وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے مہمان خصوصی فریال تالپور ، جرمنی کےڈاکٹر وان ہوگ اسکائےہاک،پولینڈ سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کامیلا یونق لیونیسکا ،اسلام آباد کے ڈاکٹر شہزاد قیصراورڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو کو ’’شاہ جو رسالو‘‘ کا سیٹ پیش کیا۔

کانفرنس کے پہلے دن تین سیشنز ہوئے، جن میں قومی وبین الاقوامی اسکالرزاور محققین نے اپنے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے ،کانفرنس میں شرکت کے لیے 13 ممالک سے اسکالرز،محققین نے شرکت کی ،اس کے علاوہ ملک بھر سے بھی کثیر تعداد میںاسکالرز نے شرکت کی۔ افتتاحی سیشن میں صوبائی وزیر ثقات، سیاحت و نوادرات نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم نے دھماکوں کا جواب دھمال سے دیا، دہشت گردی کو صوفی ازم سے ختم کیا جا سکتا ہے، یہ دھرتی امن و آشتی کی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موہن جو دڑو، ہڑپہ یا دیگر آثار قدیمہ کی سائٹ سے ہتھیار بر آمد نہیں ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ امن پسند ، بھائی چارگی کو فروغ دینے والےانسانیت دوست تھے ،معاشرے سے عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے نئی نسل کو صوفی اور سیکولر سوچ سے آشنا کرانے کی ضرورت ہے، اس کانفرنس کا مقصد صوفیاکے پیغام اور ہماری ثقافت کو آگے بڑھاناہے، جب سیہون میں لعل شہبازقلندر کے مزار پر بم دھماکا ہوا تو اسی دن ہم نے وہاں دھمال ڈالا اور دہشت گردوں کو دھماکے کا جواب دھمال سے اور بم کا جواب بیت سے دیا۔ 

یہی سندھ کے صوفی ازم کا نفرت کے بیوپاریوں کو محبت کا جواب ہے۔ ہمارے صوفیوں کے پیغام،محبت اور ہم آہنگی سے پوری دنیا روشناس ہے۔اس کانفرنس کے توسط سے ہمیں دنیا بھر میں دہشت گردی، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بحث مباحثے اور علم و تحقیق کے تبادلے کا موقع ملا ہے۔صوفی ازم سکھاتا ہے کہ ثقافتی ہم آہنگی کیسے جمہوری اقدار کو پیار، امن بھائی چارے اور برابری کے ذریعے مضبوط کرتی ہے۔ 

کا نفرنس کا انعقاد ثقافتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ، ہماری ایک چھوٹی سی کوشش ہے، جس کے ذریعے ہم پاکستانی سماج میں امن ،بھائی چارہ اور برداشت پیدا کرنے کی طرف قدم بڑھارہے ہیں۔ دنیا اس وقت انتہا پسندی، بڑھتے ہوئے تصادم،بنیادپرستی جیسے خطرات سے نبرد آزما ہے، ان تمام خطرات کو صرف امن اور پیار کے پیغام کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے، ایک ہزار سال تک صوفی مت نے انتہاپسندی کا مقابلہ کیا ہے، ہم ایسے پروگراموں کی تشکیل کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنا مثبت چہرہ لانا چاہتے ہیں۔

’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

سندھ کو صوفیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، کیوں کہ کئی صدیوں سے ہمارے عظیم برزگوں نے ثقافتی ہم آہنگی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔کانفرنس کے انعقاد سے انتہاپسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ثقافتی ورثے ، روایات اور تمدن کی بقا کے لیے ،اس طرح کی نشستوں اور تنقیدی مطالعے کو فروغ دیناوقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ طالب علموں اور محققین کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگی ۔‘‘کانفرنس کا پہلا سیشن ’’صوفی ازم،قیام امن اور گلوبلائیزیشن‘‘ہوا ،جس میں جرمن اسکالر ڈاکٹر وان ہوگ اسکائےہاک،پولینڈ سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کامیلا یونق لیونیسکا ،اسلام آباد کے ڈاکٹر شہزاد قیصراورڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو نے اپنے اپنے تحقیقی پیپرز پیش کیے۔مقررین کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں صوفی ازم کلیدی کردار ادا کرتا ہے، کیوں کہ وہ لوگوں کو ان ہی کی زبان میں پیغام دیتے ہیں، امن، بھائی چارے کا پیغام ۔

عشق حقیقی میں صوفی اپنے اندر کی تمام برائیوں اور خامیوں کو مار دیتے ہیں، اپنے نفس پر قابو کرتے ہیں، مذہبی ہم آہنگی کے لیے صوفی روایات کی اہمیت کو اُجاگر کرنا دور حاضر کی اہم ضرورت ہے، دیگر سیشنز میں صوفی ازم کے فروغ، دہشت گردی کے خاتمے اور صوفیا کرام کے افکار پر بات ہوئی۔کانفرنس کے اختتامی روزپانچ سیشنز منعقد کیے گئے،جن میں سے پہلے سیشن میںپروفیسر نرجس مرتضیٰ ، ڈاکٹر سرفراز خان ،ڈاکٹرحمیرا ناز نے مختلف صوفی مکاتب فکر کی درگاہوں اور مزاروں کی اقتصادیات کے بارے میں اپنے تحقیقی مکالے پیش کیے۔

دوسرے سیشن میں پروفیسر امجد علی،محمد ابرار ظہور، تائیوانی اسکالر پی لنگ ہئانگ اور مس سحر گل نے صوفی فکر کے فلسفے اور اس کی عملی زندگی میں کردار پر روشنی ڈالی، تیسرے سیشن میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے صوفی ورثے پر تحقیقی مکالے پیش کیےگئے،بلوچستان سے ڈاکٹر عبد الرحمن کاکڑ، لاڑکانہ کے ڈاکٹر ساگر ابڑو ، اسلام آباد سے آئے ہوئے سیرت گوہر، سرگودھا کی ڈاکٹر فوزیہ اسلم اور جامعہ کراچی کے پروفیسر شیر مہرانی نے اپنے تحقیقی مکالے پڑھے۔چوتھے سیشن میں صوفی فکر اور تاریخ نویسی کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا گیا۔ اسلام آبا سے آئے ہوئے محمد تنویر جمال، ڈاکٹر عدیلہ غضنفر، لاہور کے ڈاکٹر اقبال بھٹہ اور گجرات کے ڈاکٹر خضر نوشاہی نے مسلم صوفی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

اختتامی روز کے آخری سیشن میں صوفی ازم اور انتہا پسندانہ نظریات پر مباحثہ ہوا ترکی کے ڈاکٹرعلی کاکسو، جام شورو کے ڈاکٹرسجاد ابڑو ، ترکی کے ڈاکٹر ڈیورو کارو ڈیالو اور فرانس سے آئے ہوئے محقق عبد القادر نے اپنے تحقیقی مکالے پیش کیے۔کانفرنس میںکُل دس سفارشات پیش کی گئیں، جو درج ذیل ہیں۔

*ہر سطح پر انتہاپسندانہ نظریات کے خلاف ترقی پسند اور روشن خیال صوفی فکر کو فروغ دیا جائے۔

*سندھ کے ترقی پسند اور روشن خیال صوفی افکاراور ورثے کو یونیسکو کی ہیریٹیج لسٹ میں شامل کرانے کے لیے متعلقہ محکمے اقدامات اٹھائیں۔

*صوفی ازم کے مختلف نظریات اور مختلف زاویوں کو مزید تحقیقی طریقوں سے مطالعہ کیا جائے۔

*ثقافتی ورثے پر نئی تحقیق کرنے والے طلبا،اساتذہ و محققین کے مالی تعاون کے اینڈومینٹ فنڈ زقائم کیے جائیں۔

*انتہاپسندانہ فکر سے نمٹنے کے لیے اس طرح کے سیمینارز،کانفرنس اور سیمپوزیمز کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

*سندھ کے صوفی فکر کے تحفظ و فروغ کے لیے صوفی میوزیمز تعمیر کیے جائیں۔

*صوفی فکر کو مختلف ثقافتی اظہار، جیسا کہ موسیقی،علم و ادب،ڈرامہ،تھیٹر اور فلموں کے ذریعے عام کیا جائے۔

*صوفی ازم پر تحقیق کرنے والے ریسرچرز کے لیے متعلقہ محکمے تمام صوفی فکر کی انفارمیشن اور آرکائیوز ،ویب سائٹس تشکیل دے۔

*صوفی فکر کو ہر سطح کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔

*قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں میں صوفی ازم کے عالمگیر امن،بقائے باہمی اور محبت کے فکر کو شامل کیا جائے۔

کانفرنس کے اختتامی روز صوفی موسیقی کو فروغ دینے کے لیے میوزیکل نائٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ،جس میں فن کاروں نے اپنے فن کے جوہر اس طرح دکھائے کہ شرکاء داد دیئے بنا نہ رہ سکے۔صوفی کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی، یہ ایک عام تاثر ہے کہ نسل نو اس طرح کے مکالموں یا تنقیدی نشستوں میں شریک نہیں ہوتی، ان میں سیکھنے، پڑھنے یا اپنی روایات کو سمجھنے کا رجحان نہیں ہے، مگر کانفرنس میں ان کی شرکت نے ایسے تما م تاثرات کو غلط ثابت کردیا، البتہ یہ ضرور ہےکہ سیلفی کلچر کی وجہ سے شرکائے محفل مکالمے سننے سے زیادہ تصویر کشی میں مصروف نظر آئے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہری صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ محکمۂ ثقافت کی جانب سے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد خوش آئند ہے۔

ہم امن کے پیامبر،محبت کے داعی اور عدم تشدد کے پیروکار ہیں،رکن قومی اسمبلی ،فریال تالپور

آج دنیا کو انتہا پسندی ، عدم برداشت، انتشار اور انارکی کا سامنا ہے، جسے صرف اور صرف ’’صوفی ازم ‘‘کے ذریعہ شکست دی جاسکتی ہے۔ سندھ دھرتی امن و آشتی کی سرزمین ہے، تصوف ملک کی ثقافتی تہذیبوں کو اُجاگر کرتا ہے۔ دو روزہ چوتھی صوفی کانفرنس میںمختلف ممالک سے اسکالرز، محققین اور بہت بڑی تعداد میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا ءکی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ملک امن و امان کا گہوارا اور لوگ محبت و بھائی چارگی کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ 

’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

اس کانفرنس کے توسط سے ہمیں دنیا بھر میں دہشت گردی، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بحث مباحثے اور علم و تحقیق کے تبادلے کا موقع ملا ہے۔کانفرنس کے عنوان سے ہی واضح ہے کہ گلوبلائیزیشن کے اس دور میں دنیا کو انتہا پسندی سمیت عدم برداشت اور فرقہ واریت جیسے مسائل کا سامنا ہے اور ایسے وقت میں صوفی ازم ہی دنیا میں قیام امن کے لیے ایک بہتر ثقافتی بیانیہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ہم سب کو مل کرصوفیا کرام کے پیغام کو پوری دنیا میں خصوصی طور پر نوجوان نسل میں عام کرنا ہے۔ ہم امن کے پیامبر،محبت کے داعی اور عدم تشدد کے پیروکار ہیں اور ہمارے صوفی شعراء شاہ لطیف،سچل سرمست اور دیگر نے ہمیشہ تمام دنیا کے لیے امن و خوش حالی کا پیغام دیا۔ امن ، سچائی اور برداشت کےذریعے انہوں نے کئی لوگوں کواپنی طرف راغب کیا۔ صوفی مت اپنے نفس پہ قابو پانے کا ہی دوسرا نام ہے۔

صوفیا ءکرا م نے سچ ، پیار اور محبت سے لوگوں کو اپنے قریب کیا ،لیکن بد قسمتی سے آج امن کی جگہ دہشت گردی نے لے لی ہے ، جسے صوفی ازم کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، صوفیا کرام کے پیغام کو جتنا عام کیا جائے گا، دنیا میں اتنی ہی تیزی سے امن وامان قائم ہوگا۔ہمیں امن، محبت ،بھائی چارگی، مساوات کے پیغام کو فروغ دینا چاہیے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان صوفی مت نے ہمیشہ پل کا کردار ادا کیا۔

جس طرح دنیا میں تیزی سے انتہا پسندی پھیل رہی ہے، ان حالات میں ہمیں آج تصوف کی بہت زیادہ ضرورت ہے، وہ صوفی ہی تھے جنہوں نے صدیوں پہلے وادیٔ سندھ میں اسلام کی تبلیغ کی، پیار اور ہم آہنگی کے ذریعےلوگوں کے دل فتح کیے۔ نسل نو میں صوفیوں کی تعلیمات عام کرنے کی انتہائی ضرورت ہے ،تاکہ ان کے اندر سے عدم برداشت کا خاتمہ ہو سکے۔ مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی صوفی کانفرنس سےہمارے طلباء کو بہت فائدہ ہوگا۔ 

’’یہ دھرتی ہے امن کی‘‘

جھلکیاں

  • حاضرین محفل کونارنجی رنگ کے دوپٹے نما اسٹول تحفتاً دئیے گئے
  • تائیوانی اسکالر نے ’’شاہ جا راگیوں‘‘ کے ہمراہ کلام پیش کیا
  • صوفی افکار اور ورثے کو یونیسکو ہیریٹیج میں شامل کیے جانے کی تجویز پیش کی گئی
  • غیر ملکی خواتین مشرقی لباس میں نمایاں نظر آرہی تھیں
تازہ ترین