• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کول اینڈ کول پاکستان کے سی ای او ’’عارف پردیسی‘‘ سے خصوصی گفتگو

کول اینڈ کول پاکستان کے سی ای او ’’عارف پردیسی‘‘ سے خصوصی گفتگو

  انٹرویوپینل:فاروق انصاری، لیاقت جتوئی، رابعہ شیخ

کول اینڈ کول پاکستان کی بنیاد 2002میں رکھی گئی۔ کول اینڈ کول کی پراڈکٹس کے معیار کا موازنہ کسی بھی غیرملکی برانڈ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کول اینڈ کول کی پراڈکٹس، آج ہائی اینڈ کنزیومرز کی اولین پسند ہوتی ہیں۔ عارف پردیسی، کول اینڈ کول پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں اور کمپنی کی کامیابی میں ان کی اعلیٰ لیڈرشپ اور انتھک محنت کا بڑا کردار ہے۔

جنگ: عارف پردیسی صاحب،سب سے پہلے ہم چاہیں گے کہ آپ مختصراًاپنے بارے میں ہمارے قارئین کے ساتھ کچھ شیئر کریں اور کاروباری سفر کے بارے میں بھی بتائیں؟

عارف پردیسی: کراچی میںپیدا ہوا، بنیادی تعلیم اور پرورش بھی کراچی میں ہی حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1982میں دبئی منتقل ہوگیا۔والد صاحب نے دبئی میں 1964سے ہی کاروبار کا آغاز کردیا تھا۔ میں نے بھی دبئی جاکر اپنے والد صاحب کو ان کے کاروبار میں جوائن کرلیا۔ 2002میں ہم نے پاکستان میں کول اینڈ کول کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے پراپرٹی، ٹیکسٹائل وغیرہ میں جنرل ٹریڈنگ کرتے تھے۔البتہ، Branding میں دلچسپی باعث ہم نے 2002 میں اپنا Brand لانچ کردیا۔

جنگ: آپ کی کمپنی کا نام ’’کول اینڈ کول‘‘ ہے۔ یہ نام رکھنے کی کیا وجہ تھی؟

جواب: متحدہ عرب امارات بہت گرم ملک ہے۔ یواے ای کا سن کر شدید گرمی کا تصور ہی ذہن میں اُبھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ’’کول اینڈ کلیئر‘‘ ، ’’ کول اینڈ کلین‘‘ یا اس طرح کا کوئی نام رکھنا چاہتے تھے۔ سوچ بچار کے بعد’’ کول‘‘ کے ساتھ ایک اور’’ کول‘‘ جوڑنے پر اتفاق ہوا۔ اس طرح ’’کول اینڈ کول‘‘ وجود میں آیا۔

جنگ: اگر دبئی میں کاروبار کی بات کریں اور پھر پاکستان میں آجائیں، تو آپ کو کن چیلنجز کا سامنا رہا؟

عارف پردیسی: ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج چینی پراڈکٹس کا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ چین سستی ترین پراڈکٹس مارکیٹ میں لے آتا ہے، جس میں ہماری جگہ نہیں بنتی تھی۔ایسے میں ہم نے سوچا کہ کوئی Premium Brand مارکیٹ میں لے آئیں، جو ان لوگوں کے لیے ہو جو معیارپر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ہم اگر مارکیٹ میں پہلے سے موجود برانڈڈ پراڈکٹس والا معیار لے آتے تو بھی ہمارے لیے جگہ نہیں بنتی تھی کیوں کہ وہ معیار تو پہلے ہی انھیں ایک برانڈ میں مل رہا تھا۔ ہمیں اس سے بھی بہتر معیار کے ساتھ آنا تھا، ایسی پراڈکٹس متعارف کرانی تھیں،جن پرلوگ اعتماد کرسکیں۔جب ساری پلاننگ کے بعد ہم مارکیٹ میں آئے تو کوئی بھی ہمیں ویلکم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ ہمارے لیے مشکل ترین وقت تھا۔یہ سن 2002سے لے کر 2005 کی بات ہے۔ اس سے پہلے ہمارا ہول سیل کا کاروبار تھا۔ لوگ ہمارے پاس آتے تھے اور طے شدہ شرائط و ضوابط کے تحت لین دین کرتے تھے۔ اپنا Brand لانا ایک مختلف کام تھا۔ اس میں پوری ٹیم کا بھرپور ساتھ ملا۔ ہمیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گاجب ہم اپنی مارکیٹ بنا لیں گے۔ ابتدائی چھ۔سات سال کی جدوجہد کے بعد جاکر حالات کچھ بہتر ہوئے۔ اس وقت بھی ہم جہد مسلسل میں مصروف ہیں۔

جنگ: پراڈکٹ لائن متعارف کرانے کے لیے کیا حکمت عملی رہی آپ کی۔ ساری پراڈکٹ لائنز ایک ساتھ متعارف کرائی یا وقتاً فوقتاً؟

عارف پردیسی: سب پراڈکٹس کو ایک ساتھ مارکیٹ میں نہیں لائے بلکہ ایک کے بعد ایک، بتدریج اپنی پراڈکٹ لائن کو بڑھاتے بڑھاتے یہاں پہنچے ہیں۔ کول اینڈ کول ــ’’ایف ایم سی جی‘‘ کمپنی ہے۔ نئی پراڈکٹس بنانے پر کام ہر وقت جاری رہتا ہے۔ جب لگتا ہے کہ نئی پراڈکٹ لانچ کرنے کا مناسب وقت آگیا ہے تو اسے مارکیٹ میںلے آتے ہیں۔ پاکستان میں Facial Wet Wipes لے کر آنے والی ہم پہلی کمپنی ہیں۔ اس سے پہلے صرف بے بی وائپس کا تصور تھا، پھر ہم نے جب Facial Wet Wipes متعارف کرائے تو لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ پراڈکٹ بھی ہوتی ہے۔

جنگ: آپ کی جو پراڈکٹ لائن ہے، اس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کون سی پراڈکٹ ہے؟

عارف پردیسی: ہماری سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پراڈکٹس میں ہینڈ Sanitizers ہیں، بے بی وائپس، Refreshing Wipes اور Hygienic پراڈکٹس شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ہماری 9کیٹیگریز میں 100سے زائد SKUs ہیں۔

جنگ: ہرپراڈکٹ اور ہر کیٹیگری میںمقابلہ بہت بڑھ گیاہے۔ آپ مقابلے کے لیے خود کو کیسے تیار کرتے ہیں؟

عارف پردیسی: جب ہم دبئی میں کھلونوں کے کاروبار میں تھے تو چینی پراڈکٹس کے چیلنج کے باوجود ہم دوسرے نمبر پر تھے۔پھر یہ ہوا کہ دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے بعدہم نے اسے برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ ہماری ہمیشہ مستقبل پر نظر رہتی تھی کہ چھ مہینے بعد مارکیٹ کی کیا صورت حال ہوگی؟ کون سے نئے پلیئرز مارکیٹ میں آرہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ مقابلہ اچھی چیز ہوتی ہے۔

جنگ: جب ایک Segment میںآپ دوسری پوزیشن پر آجاتے ہیں تو پہلی پوزیشن پر جانے کی خواہش کیوں نہیں تھی آپ کی؟ دوسری پوزیشن پر اکتفا کرنے کے بجائے آپ نے پہلی پوزیشن کے لیے کیوں کام نہیں کیا؟

عارف پردیسی: دیکھیں، نمبرون پوزیشن پر آجانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، تاہم اسے برقرار رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔

جنگ: پاکستان کرکٹ کے دبئی میں جتنے ایونٹس ہوتے ہیں، آپ کی کمپنی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟

عارف پردیسی: کرکٹ میرا شوق رہا ہے، کرکٹ پاکستان کا توجنون ہے۔دبئی میں کرکٹ بہت محدود پیمانے پر لیکن بہت اچھی کھیلی جاتی ہے۔ ایسے میں جب وہاں پاکستان کرکٹ کے ایونٹس ہونا شروع ہوگئے تو ہم نے اسے اپنے لئے ایک بہترین موقع سمجھتے ہوئے، اس کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو سبھی دیکھتے ہیں اور ٹیلیویژن پرہر گھر میں آن ایئر ہوتا ہے۔

جنگ: اس کا آپ کے کاروبار پر کیا اثر پڑا؟

عارف پردیسی: Brand Awareness کا جو ہمارا بنیادی مقصد تھا، وہ تو حاصل ہوگیاہے۔دوسری بات یہ تھی کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کوئی اسپانسرشپ کے لیے تیارنہیں تھا۔ دبئی میں زیادہ تربھارتی لابی کام کررہی تھی جو پاکستان کے خلاف تھی۔ ایسے میں ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کیا۔ تو ہمارے جو 2مقاصد تھے کہ Brand Awareness پیداکرنی ہے اور مشکل وقت میں ملک کا ساتھ دینا ہے، توہم نے الحمداللہ دونوں مقاصد حاصل کیے ہیں۔ اب پاکستانی مارکیٹ میں ہمارے لیے مواقع بڑھتے جارہے ہیں۔

جنگ: کراچی میں امن وامان بھی چند سال پہلے تک ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اب اس میں کافی بہتری آگئی ہے۔ آپ کے لیے یہاں جو مواقع بڑھ رہے ہیں، اس میں یہ امن و امان بھی ایک فیکٹر ہے؟

عارف پردیسی: آئیڈیل صورت حال بنتی جارہی ہے پاکستان میں۔ اس کے برعکس مڈل ایسٹ میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔ پھر پاکستان میں سی پیک کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ اگر آئندہ پانچ سال تک پاکستان میں امن و امان اور سیکیورٹی کی صورت حال بہتر رہی توپاکستان بہت تیزی سے ترقی کرے گا۔ انشاء اللہ۔

جنگ: آپ کی باتوں سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ پاکستان میںمزید سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں؟

عارف پردیسی: جی بالکل۔ میں اورمیرے کچھ دوست، ہم مل کر یہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ اگر ملکی حالات ٹھیک رہتے ہیں اور حکومت کوئی انڈسٹریل پیکیج کا اعلان کرتی ہے تو ہم اپنا کچھ پیسہ پاکستان منتقل کریں گے۔ پاکستان میں لیبر اب بھی سستا ہے اور ہم پاکستان میں بیٹھ کر یہاں سے بھی دنیا کی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں۔پاکستان ایک اُبھرتی ہوئی کنزیومر مارکیٹ ہے اور اگر ایک سرمایہ کار کو بہترین ہوم گراؤنڈ دستیاب ہو تو اس سے بہتر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔

جنگ: تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت پاکستانی مارکیٹ میں انٹر ہونے کے لیے بہترین ہے؟

عارف پردیسی: میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس سلسلے میں ایک، دو سال تاخیر کا شکار ہیں ۔ لیکن اب بھی مواقع بہت شاندار ہیں پاکستانی مارکیٹ میں۔

جنگ:پاکستان میں Consumer Behaviour بدل رہا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

عارف پردیسی: دو چیزیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ مال کلچر نے کاروبار کا نقشہ بدل دیا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ لوگ Brand Conscious ہوگئے ہیں۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ لوگ اب چار سستی پراڈکٹس خریدنے کے بجائے ایک برانڈڈ پراڈکٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جنگ: کول اینڈ کول کی ٹارگٹ کنزیومر مارکیٹ کیا ہے؟

عارف پردیسی: ہم Eliteکلاس، اے اور بی پلس کلاس کو اپنی کنزیومر مارکیٹ سمجھتے ہیں اور انہی کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ SEC B کنزیومر عموماً چینی مصنوعات لیتا ہے، لیکن ہمیں امید ہے کہ جس طرح لوگوں میں Brand Awareness آرہی ہے، اس سال ہم SEC Bکنزیومرکو بھی اپنی طرف لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

جنگ: اپنے صارف تک پہنچنے کے لیے آپ کیا مارکیٹنگ اسٹریٹجی اختیار کرتے ہیں؟

عارف پردیسی: کرکٹ ایونٹس اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ ہم صنعتی و تجارتی نمائشوں میں بھی اپنی پراڈکٹس لے کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسے آپشنز کے متلاشی رہتے ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی پراڈکٹس کو پروموٹ کرسکیں۔

جنگ: لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

عارف پردیسی: پیغام یہی ہے کہ کول اینڈ کول کی پراڈکٹس کو ایک بار ضرور خرید کر استعمال کرکے دیکھیں، اس کے بعد انشااللہ آپ کا دل نہیں چاہے گا کہ آپ ہماری پراڈکٹ چھوڑ کر کوئی اور پراڈکٹ استعمال کریں۔

تازہ ترین
تازہ ترین