• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی منشیات کے استعمال کی لعنت اوردوسرے حیا سوز اخلاقی جرائم سے مستثنیٰ نہیں۔جرائم پیشہ عناصر کے علاوہ ان کے پیچھے عموماً خود پولیس اورارباب اختیار بھی ملوث بتائے جاتے ہیں لیکن عدالت عالیہ میں ایک ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حوالے سے جوتفصیلات سامنے آئی ہیں وہ انتہائی شرمناک اور 21کروڑ مسلمانوں کے ملک کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے’’وفاقی دارالحکومت میں منشیات کی فروخت اور بڑھتے ہوئے جرائم ‘‘ سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ’’اسلام آباد پولیس کے 90فیصد افسران جرائم میں ملوث ہیں۔دارالحکومت میں جگہ جگہ شراب فروشی کے اڈے اور قحبہ خانے کھلے ہیں۔ایک مارکیٹ میں شیشے اورمنشیات کے اڈے چل رہے ہیں۔بیورو کریٹ اور بااثر افراد سرعام شراب پیتے ہیں۔تفتیشی افسروں کے کمروں میں دن کومنشیات اوررات کو لڑکیاں ملتی ہیں پولیس افسر خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی معاف نہیں کرتے۔پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے۔دکھاوے کیلئے کپیاں فروخت کرنے والوں کو پکڑ لیتی ہے بااثرافراد پربھی ہاتھ ڈالے‘‘فاضل جج نے آئی جی پولیس کو مقدمے کی آئندہ سماعت پر منشیات کی خرید وفروخت کے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیا۔منشیات اوردوسرے قبیح جرائم کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں کیا ہو رہاہے، فاضل جج کے ریمارکس کے بعد اس بارے میں مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ سب کچھ اس شہر میں ہورہاہے جوپاکستان کی بین الاقوامی شناخت ہے۔دوسرےلوگوں کے علاوہ منشیات فروشوں کازیادہ تر ہدف تعلیمی اداروں کے ناپختہ ذہن نوجوان اوربچے ہیں۔یہ ہماری آئندہ نسل کو تباہ کرنے کی بھیانک کوشش ہے۔ متعلقہ حکام کو اس صورتحال کاسختی سے نوٹس لینا چاہئے اوراس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے،اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین