پشاور(نمائندہ جنگ/جنگ نیوز ) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے اور میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا، 1861 کا قانون آج تک تبدیلی نہیں ہوا، ججوں کا کام قانون بنانا نہیں عمل کرانا ہے۔قاضی کیلئے بہت اہم ہے کہ اسے قانون پر مکمل دسترس ہو‘ پشاور کی جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ خوف‘ مصلحت اور مفاد منصف کیلئے زہر قاتل ہے‘ انصاف فراہم کرنا ججز کی ذمہ داری ہے اگر آپ نے انصاف کیا ہے تو کبھی آپ کی نظریں نہیں جھکیں گی جج کی غلطی کا خمیازہ معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے‘ جلد انصاف دینے کے مشن پر چل رہا ہوں‘ ہمارے دین میں بھی انصاف پر بہت زور دیا گیا ہے۔ سفارش مت مانیے، یہاں پر وہ لوگ جنہیں آپ خوش کرنا چاہیں گے، وہ آگے جا کر آپ کی مغفرت اور بخشش کی سفارش نہیں کرسکتے، جن کو آج سفارش کی بنیاد پر آپ یہاں چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے ناراض نہ ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کر آپ کی سفارش بھی نہیں کرسکیں گے۔ دنیا کے آئین میں عدلیہ اہم ستون ہے اور اس کے بغیر رسایت کا وجود ممکن نہیں جبکہ سپریم کورٹ فیصلے کی آخری جگہ ہے۔ ایک مشن پر چل رہے ہیں کہ ہم نے جلد انصاف فراہم کرنا ہے لیکن سستا انصاف کی ذمہ داری ہماری نہیں کیونکہ وکیل لاکھوں روپے فیس لے کر آجائیں تو یہ ہمارا قصور نہیں ہے۔ ایک ایماندار اور مخلص جج کے لیے انصاف فراہم کرنا سب سے اہم ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ نسل کیلئے یہ مشعل راہ بنے گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگ تنقید کرتے ہیں ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کررہے، میں قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو ذمے دار میں نہیں، 1861 کا قانون تبدیل نہ ہونے کی ذمے دار سپریم کورٹ نہیں، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے لیکن میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا، انصاف تول کر دیا جانا چاہیے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں، ججز کی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے، سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنا ججز کا کام نہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ دفتر نے کئی کیسز پر اعتراضات لگا کران کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا، ان کیسز کو سننے یا نہ سننے سے متعلق فیصلہ ججز کو کرنا تھا دفتر کو نہیں، اس طرح کی 225 پٹیشن میرے پاس آئیں جو روزانہ 10،10 کر کے نمٹائیں۔