اسلامی دنیا میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کسی بھی اسلامی مملکت کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کردی کہ عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبہ حیات میں کام کرسکتی ہیں۔پاکستانی خواتین اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ان کے لیے رول ماڈل کے طور پر تین عظیم خواتین مادرِ ملت فاطمہ جناح،مادرِحقوقِ خواتین بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دخترِ مشرق بینظیر بھٹو جیسی عالمی پائے کی سیاست داں رہیں۔
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب 51 فیصد اور خواتین کا تناسب 49 فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ ایسے مشکل حالات کے باوجود پاکستانی خواتین نے ہر شعبےمیں اپنی صلاحیتوں کے نقوش ثبت کیے اورڈرائیونگ سے لیکر فوج میں خدمات جیسے ان شعبوں میں بھی اپنی کارکردگی دکھائی جنہیں مردوں کا کام جانا جاتا تھا۔آئیے ایسی ہی دبنگ خواتین سے ملاقات کرتے ہیں
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔ پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
صحافت کی دنیا کی بلند آواز
خاتون صحافی کرن نازش نے ایک ایسی بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے جس کے ذریعے وہ خاتون صحافیوں کو پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کرن نازش ’کولیشن فار ویمن ان جرنلزم‘ تنظیم کی بانی ہیں۔ وہ پاکستان کے مایہ ناز تعلیمی ادارے’ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ ایند سائنسز‘ میں میڈیا اور ٹیکنالوجی سے متعلق کئی منصوبوں کا آغاز کر چکی ہیں۔ وہ بھارت کی جندال یونیورسٹی میں ’ انٹرنیشنل جرنلزم اور کانفلکٹ رپورٹنگ‘ کی پروفیسر بھی رہ چکی ہیں۔ نازش نیو یارک ٹائمز کے ساتھ بطور صحافی وابستہ رہی ہیں۔وہ شام، ترکی، افغانستان اور میکسیکو میں تنازعات کی کوریج کر چکی ہیں۔
اپنے تجربے اور خواتین صحافیوں کے ساتھ کام کی بنیاد پر انہوں نے اس بین الاقوامی کولیشن کی بنیاد رکھی۔وہ کہتی ہیں:’’پاکستان میں کافی خواتین صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن زیادہ تر خواتین صحافیوں کو نیوز روم تک ہی محدود رکھا جاتا ہے اور مشکل سے ہی خواتین اپنے اداروں میں اونچے درجے کے عہدوں تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم خواتین صحافیوں کی آواز کو نہ دبائیں۔ کرن کا کہنا ہے،’’عورتوں کی حوصلہ شکنی کر کے ان کی صلاحیتوں اور اعتماد کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے اس سے صرف ہم اعلیٰ معیار کی صحافت پر سمجھوتہ کریں گے۔‘‘
ڈیجیٹل رائٹس کی علمبردار
فریحہ عزیز ان چند خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کھل کر ڈیجیٹل رائٹس کی بات کی ہے۔ وہ ’بولو بھی‘ ادارے کی ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں یو ٹیوب کی بحالی کے لیے انہوں نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے سائبر کرائم بل کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی ہے اور حکومت کو اس بل کی موجودہ شقوں کے ساتھ منظور کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔